Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Azmi/
  4. Lala Ki Baatein

Lala Ki Baatein

لالہ کی باتیں

نام تو ان کا کچھ اور تھا لیکن خاندان میں سب انہیں لالہ کہتے۔ لالہ اہنے نام اور کام کے ایک ہی تھے۔ قامت سجدہ ریزی کی طرف مائل تھی۔ جسامت پہلوانہ تھی۔ سر ہر گھنگریالے بال مگر خاصے کم تھے۔ لالہ نے لوگوں کی سر سے توجہ ہٹانے کے لیے بہت گھنی مونچھیں رکھی تھیں تاکہ کوئی قحط البال کا طعنہ نہ دے سکے۔ لالہ کو ہم نے ہمیشہ سیاہ خضاب زدہ بالوں کے ساتھ دیکھا۔ لالہ کا رنگ دبتا ہوا تھا لیکن اپنی باتوں سے لوگوں کے چہروں جگمگا دیا کرتے تھے۔ ہمیشہ ہینٹ اور یاد آستین کی بو شرٹ پہنتے۔ ہاتھوں پر سیاہ گھنے بال تھے۔

لالہ کی باتیں قیامت کی تھیں کہ مرا بندہ بھی مسکرا کر بیٹھ جائے۔ مجھے یاد ہے کہ خاندان میں ایک انتقال ہوا۔ رات کا وقت تھا۔ تدفین اگلے روز ہونی تھی۔ فضا انتہائی تعزیتانہ تھی۔ مزکورہ گھر کے ایک بیٹے بہت اداس بیٹھے تھے۔ لالہ کی سین میں انٹری ہوئی۔ کچھ دیر تو وہ خاموش بیٹھے رہے اور پھر ہلکے ہلکے اپنی ظریفانہ طبیعت پر ا گئے۔ کچھ دیر بعد ہی اداس بیٹا بھی مسکرا اٹھا۔

لالہ ایک فیکٹری میں مشینوں کے مکینک تھے۔ لالہ چھٹیاں کرنے کے بھی شوقین تھے اور ایسے امراض نکالتے کہ ڈاکٹر بھی بغلیں جھانکنے لگے۔ مغرب تحقیق کرے تو کتابیں چھان لے مگر مرض کے میم تک نہ پہنچ پائے۔ لالہ کو صورت حال کی سنگینی میں نمبر بڑھانے کا فن آتا تھا۔ ایک مرتبہ کوئی باہر سے آئی مشین خراب ہوگئی۔ سیٹھ خود ا گیا۔ لالہ نے سیٹھ سے کہا کہ میں مشین اسٹارٹ کر دوں گا اور واقعی لالہ نے تگڑم لگا کر مشین چلا دی۔ سب خوش، سیٹھ گلے لگا ہی رہا تھا کہ مشین نے ہھر بریک لگا دیا۔ سیٹھ کا پارہ گرم ہوگیا۔ لالہ نے بھی سیٹھ کو لاجواب کردیا، بولے: مشین اسٹارٹ کرنے کا کہا تھا۔ یہ تو تھوڑی کہا تھا کہ دوبارہ بند نہیں ہوگی۔

ایک مرتبہ میں لالہ کے ہاں موجود تھا۔ ایک شخص تعویذ کے لیے آیا اور اپنے ساتھ ایک تگڑا کالا مرغا لایا۔ لالہ نے کچھ پڑھ پڑھا کر مرغے کو ذبح کیا۔ اس کے خون سے تعویذ لکھا اور مرغا باہر ہھنکوا دیا۔ وہ شخص چلا گیا تو انہوں نے وہ مرغا منگوایا اور اس کی کڑاہی بنا کر کھائی اور کھلائی۔

سب کو یقین تھا کہ لالہ کاغذ پر لکیریں کھینچنے کے علاؤہ کچھ نہ کرتے ہوں گے مگر وہ اپنی باتوں سے بڑے سے بڑے مرد و زن کو شیشے میں اتار لیا کرتے، مطمئن کرتے اور کہتے ' جاؤ اب کچھ نہیں ہوگا۔ سائل بڑی آسامی ہوتا تو دو چار چکر لگوایا کرتے تھے۔ وہ سیٹھ جو ان پر غصے ہوا تھا۔ وہ کسی مسئلے میں پھنس گیا۔ لالہ کسی وجہ سے ان دنوں لمبی چھٹی پر تھے۔ اللہ جانے تعویذ کا کیا چکر چلایا کہ وہ سیٹھ ان کے گھر تک آگیا۔ چھٹی کی کوئی بات ہی نہ کی بلکہ اپنا مسئلہ لے کر بیٹھ گیا۔ لالہ نے ایک عامل کامل کی طرح اس کے سر ہر ہاتھ پھیرا اور ایک تعویذ عنایت کردیا۔ اس کے بعد لالہ کی چھٹیاں طول پکڑتی گئیں کیونکہ اب لالہ اس کے لیے عملیات کر رہے تھے۔

ایک دفعہ اس وقت کی ایک مشہور ہیروئن کی لالہ کے گھر آنے کی خبر پھیل گئی۔ وہ ہیروئن خاص طور پر لاہور سے آئی تھی اور تعویذ گنڈوں سے اپنا مسئلہ کرانا چاہتی تھی۔ ہم نے تو یہ خبر سنی تھی لیکن مارکیٹنگ کے لئے لالہ نے صحیح حکمت عملی اپنائی تھی اور ان کی شہرت کو چار چاند لگ گیے تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے: ہمارے ملک میں وہم کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اس لیے لوگ عاملوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ کہا کرتے تھے جادو ہی نے اگر سب کچھ کیا ہے تو تمہاری سستی، نالائقی اور غلط فیصلے کہاں جائیں گے۔ لوگ جادو کا کہہ کر خود کو بری الذمہ کر لیتے ہیں۔

لالہ کے کمرے کی ایک خاص خوبی یہ تھی کہ کمرے کی چاروں دیواروں پر خوبصورت گھڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ پتہ چلا کہ یہ بھی ایک سائل دے گیا کے کیونکہ لالہ نے کہا تھا کہ عمل کرتے ہوئے مجھے پڑھائی کے لیے وقت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ یہ عمل کیوں کہ چاروں طرف کرنا ہے۔ اس لئے چاروں دیواروں پر گھڑیاں ہونا ضروری ہیں۔ ہم سب جانتے تھے کہ لالہ کو تعویذات کا کچھ خاص علم نہیں اور اگر کچھ معلوم بھی ہوگا تو بہت واجبی نوعیت کا مگر وہ اس واجبی ہر بھی لازمی

لالہ محفل پسند تھے۔ وہ جہاں ہوتے مائیک انہی کے پاس ہوتا اور مزاح کی پھلجڑیاں چھوڑتے رہتے۔ لالہ مذاق کرتے بھی اور سنتے بھی۔ لالہ بذلہ سنج تھے مگر بدلہ مزاج نہ تھے۔ اپنی تعویذ گنڈوں کی کہانیاں خود بہت مزے لے کر سناتے اور بتاتے کہ میں نے کس کو اس کی کہی بات سے کیسے بے وقوف بنایا لیکن مطمئن کرکے بھیجا۔

لالہ اب اس دنیا میں نہیں مگر ان کی باتیں آج بھی یاد ہیں۔ ان کی بات سے بات نکالنا اور مزاح کی چٹکی بھرنا یاد آتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لالہ نے تعویذ میں لکھ کر کچھ دیا ہو یا نہ دیا مگر وہ اپنی باتوں سے پریشاں سے پریشاں شخص کو مطمئن کر دیا کرتے تھے۔ ان کے پاس لوگوں کو مطمئن کرنے کا تعویذ تھا۔ یہ ایک ایسا تعویذ جو اب کوئی کسی کو دینا نہیں چاہتا۔ لالہ بہت کم پیسوں پر یہ دے دیا کرتے تھے کیونکہ ان کے ساتھ بھی تو پیٹ لگا تھا۔ بقول جوش: یہ پیٹ پرانا پاپی ہے اس پاپی سے ہوشیار۔

Check Also

Faizabad Ka Stop

By Naveed Khalid Tarar