Monday, 10 February 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ahmad Sethi
  3. Tijarti Jang Aur China

Tijarti Jang Aur China

تجارتی جنگ اور چین

تین ممالک کی درآمدات پر محصولات عائدکرنے کے ٹرمپ حکم نامے دنیابھرمیں زیرِ بحث ہیں جن کی روسے رواں ماہ چارفروری سے میکسیکو اور کینیڈا سے امریکی کو بیچی جانے والی بیشتر اشیا پر پچیس جبکہ چین کے مال پر دس فیصد محصولات لگانے کافیصلہ کیا گیا مذکورہ حکم ناموں کو ایک بڑی تجارتی جنگ کا پیش خیمہ قراردیاجارہاہے میکسیکو اور کینیڈا نے تو امریکی اشیاپر پچیس فیصد محصولات لگاکرسخت جواب دیدیا جبکہ چین نے عالمی اِدارہ تجارت سے رجوع کرنے، جامع بات چیت پر آمادگی کے ساتھ جوابی اقدامات کا اعلان کیا یہ جوابی نرمی افہام و تفہیم کی طرف اِشارہ ہے مغربی ممالک ابھی تک ایسے کسی حکم نامے سے محفوظ ہیں البتہ ایساامکان موجود ہے کہ جلدہی رگڑے میں آجائیں شاید اسی لیے حفظِ ماتقدم کے طورپر یورپی کمیشن کے ترجمان نے امریکہ کو متنبہ کر دیا ہے کہ اتحاد میں شامل ممالک پراگر امریکہ نے محصولات عائدکیے تو جوابی اقدامات کریں گے ماہرین کا کہناہے کہ ٹرمپ نے بغیر کسی تیاری اور مشاورت کے محصولات میں اضافہ کیا ہے اسی بناپر میکسیکو پرعائد محصولات کو ایک ماہ کے لیے موخر کرنے کی نوبت آئی جبکہ کینیڈاکے وزیرِ اعظم اور میکسیکو کی صدر سے کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے مزاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے چین اور ہمسایہ ممالک کامحصولات سے متاثر ہونے کا امکان ہے مگر امریکی تجات کا متاثر ہونابھی یقینی ہے اور پہلے امریکہ کاخواب شایدتشنہ رہے لیکن دنیا سے الگ تھلگ ہوسکتا ہے معاشی، سیاسی اور تجارتی تنہائی امریکی معیشت کے لیے کسی طورسودمندثابت نہیں ہو سکتی۔

بھاری بھرکم محصولات دنیاکو نئی سرد جنگ کی طرف لیجا سکتے ہیں مگر امریکی پالیسی سازدنیا کی دولت بٹورنے کی روش پر چلنے پر بضدہیں حالانکہ اب صرف روس ہی مدِ مقابل نہیں بلکہ کئی طاقتور معیشتیں ہیں اِس لیے ماضی کی نسبت چیلنجزبھی زیادہ ہیں ٹرمپ کے خیال میں اگرکینیڈا امریکہ کی 51 ویں ریاست بن جائے تو محصولات کا مسلہ ختم ہوسکتاہے ظاہر کوئی ملک اپنی قومی سلامتی پرسمجھوتہ نہیں کرسکتا سرحد پر کڑی پابندیوں کے باوجودمیکسیکو کی طرف سے بھی جواب میں نرمی کے کوئی آثارنہیں بلکہ دونوں ملک محصولات کے خلاف مل کر کام کرنے پر متفق نظرآتے ہیں وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے عوام سے امریکہ کے سفر سے گریز اور اُس کی اشیا کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے بیئر، وائن، لکڑی سمیت برقی آلات پر محصولات بڑھائے ہیں سب سے زیادہ آبادی والے صوبے انٹاریومیں امریکی شراب پر پابندی لگا ئی جا چکی ہے جس کی وجہ سے 155 ارب ڈالر کی مصنوعات براہ راست متاثر ہوسکتی ہیں میکسیکوکی صدر کلاڈیا شین بام نے بھی وزیرِ خزانہ کو جوابی اقدامات کاحکم دیا ہے تین ممالک پر بھاری محصولات عائد کرنے پر جو سب سے پہلا مذمتی بیان آیا ہے وہ یورپی یونین کا ہے جس نے نئے محصولات کی مذمت کی ہے جبکہ جاپان جیسے امریکہ کے قریبی اتحادی نے بھی تحفظات کااظہار کیا ہے یادرہے کہ دنیا کی سب سے بڑی دفاعی تنظیم نیٹو جس میں امریکی سمیت تمام یورپی ممالک شامل ہیں اِس تنظیم کے تین ارکان امریکہ، فرانس اور برطانیہ کواقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق حاصل ہے ٹرمپ اگراپنے حالیہ احکامات پربضدرہتے ہیں تو نہ صرف نیٹو کا مستقبل مخدوش ہو سکتا ہے بلکہ فرانس اور برطانیہ بھی امریکہ سے دورہوسکتے ہیں اِسی بناپر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ٹرمپ حکمتِ عملی سے سب سے پہلے امریکہ متاثر ہوتا نظرآتاہے۔

امریکہ اور چین کے مابین تجارتی و معاشی جنگ نئی نہیں بلکہ ایک عشرے سے جاری ہے امریکہ چینی تجارت و معیشت کومحدودکرناچاہتا ہے اِس حوالے سے ہر امریکی صدرکوشاں رہتاہے مگر کامیابی نہیں ہورہی لیکن ٹرمپ نے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سخت فیصلے کردیے ہیں ٹرمپ کی حکمتِ عملی سعودی عرب کی حدتک تک کارگر ثابت ہوئی ہے کہ وہ امریکہ میں چھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کامنصوبہ بنارہا ہے جبکہ زیادہ دفاعی سازو سامان خریدنے کے مطالبے پربھارت سے بھی بہتر ردِ عمل آیا ہے جس نے نہ صرف امریکی موٹر سائیکلوں اور کاروں ہارلے، ڈیوڈسن، ٹیسلا اورایپل اسمارٹ فون پر محصولات کم کیے ہیں جس سے امریکی کمپنیوں کوفروغ ملے گابلکہ مالی سال 2025.26 کے بجٹ میں 6.81ٹریلین روپے کے دفاعی اخراجات، جو گزشتہ مالی سال سے 9.5زیادہ ہیں سے ظاہرہوتاہے کہ وہ ٹرمپ کی ہدایت پراگلے سالانہ میزانیے میں ہتھیاریوں کی بڑے پیمانے پر خریداری کے لیے اٹھارہ کھرب کی خطیر رقم وقف کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دے رہاہے مگر یہ رقم چین، کینیڈا اور میکسیکو سے تجارت کاہرگز نعم البدل نہیں بھارت جیسی ایک منڈی میں تینوں ممالک کے مساوی مال کی کھپت نا ممکن ہے اسی بناپر قیافہ ہے کہ صدرٹرمپ کے حکم ناموں سے توقع کے مطابق نتائج ملنا مشکل ہے۔

کینیڈاہمسایہ ہونے کے ساتھ گزشتہ کئی عشروں سے امریکہ کاقریبی تجارتی شراکت دار ہے جو اپنی کُل برآمدات کا اسی فیصد امریکہ کوبیچتاہے جس کی مالیت 410ارب ہوچکی ہے جبکہ میکسیکو نے گزشتہ برس دنیا کو کُل برآمد کیے سامان کا چوراسی فیصد امریکہ کو فروخت کیا جس کی مالیت 510 ارب ڈالر رہی 2023میں امریکہ نے تریسٹھ فیصد سبزیاں جبکہ پھلوں اور گری دار میوے کا نصف اور ایواکاڈوکی اسی فیصدضرورت میکسیکو سے پوری کی بھلے میکسیکو اور کینیڈا کے حق میں تجارتی توازن رہا لیکن امریکی شہریوں کو اشیا سستے داموں میسر رہیں جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی استحکام دیکھنے میں آیا 920ارب ڈالر کی برآمدات کے باوجودیہ دونوں ممالک امریکی زرعی وصنعتی اشیا کے بڑے خریدار ہیں ہمسایہ ممالک سمیت چین جیسے دنیا کے سب سے بڑے تجارت کنندہ پر محصولات کے زریعے امریکہ نے دباؤ بڑھایا ہے لیکن جواب میں محصولات لگنے سے امریکہ میں مہنگائی بڑھے گی جو نہ صرف سیاسی عدمِ استحکام کوجنم دے گی بلکہ عالمی سطح پر معاشی وسیاسی نقصان بھی یقینی ہے۔

ٹرمپ کے رفقا کا خیال ہے کہ محصولات کی شرح بڑھنے سے چین کی مقامی صنعت کے لیے مسائل بڑھیں گے اور منافع کم ہونے کاخطرہ بھانپ کر اُس کے مقامی اور غیر ملکی صنعتکار متبادل کی طرف جانے پرمجبورہوں گے تو چین سے صنعتیں تائیوان، ویت نام، تھائی لینڈ، کمبوڈیا سمیت دیگر ممالک میں منتقل ہو سکتی ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے امریکہ کو مصنوعات بھیجنے میں چین سے کم محصولات کاسامنا ہوگالیکن یہ خیال اِس وجہ سے مکمل طورپر درست نہیں کہ چین اِس وقت دنیا کا سب سے بڑاتجارتی ملک ہے جس نے گزشتہ برس3580 ارب ڈالر کاتجارتی سامان دنیا کو برآمد کیا جس میں امریکہ کا حصہ محض 460ارب ڈالر جبکہ یورپ کا762ارب ڈالر رہا قابلِ زکر بات یہ کہ امریکی مارکیٹ سے چین اگر محروم ہو بھی جاتا ہے تو یورپی مارکیٹ بدستور سے پھربھی محروم کرناممکن نہیں دراصل چین ملکی و غیر ملکی صنعت کاروں اور کارباریوں کو مراعات وترغیبات سے سازگارماحول دیکر اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ضرورت کے مطابق سستے خام مال کی فراہمی یقینی بناتا ہے پیداواری شعبے کی سرپرستی سے معیاری، سستی اور وافر اشیاتیارکرنے کی وجہ سے اُس کے عالمی تجارتی حصے میں حیران کُن اضافہ ہوا ہے مزیدیہ کہ چین میں مقامی سطح پر سستی اور مطلوبہ ہُنرمندافرادی قوت دستیاب ہے اِس طرح نہ صرف صنعتی و زرعی ترقی فروغ پذیر ہے بلکہ غربت میں بھی تخفیف کرناممکن ہوا ہے وہ دنیا کے تنازعات میں براہ راست ملوث ہونے سے گریز کرتا ہے مصنوعی زہانت میں امریکی بالادستی کوہزیمت دے چکا ہے ایران اور سعودی عرب میں تعلقات کی بحالی کے کردارسے مشرقِ وسطیٰ کابھی ایک اہم فریق بن چکا اِس لیے امریکی منڈی کا متبادل اُس کے لیے کوئی مشکل نہیں اِس بناپر کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے چھیڑی گئی تجارتی جنگ سے چین توشاید متاثرنہ ہوبلکہ عین ممکن ہے ٹرمپ محصولات سے دنیا میں ایک بار پھر سرد جنگ کا ماحول تو بن جائے لیکن امریکی بالادستی کا خواب مکمل نہ ہو سکے۔

Check Also

Qazafi Stadium Ki Iftitahi Taqreeb

By Muhammad Irfan Nadeem