Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Shaam Ki Sarhad Se

Shaam Ki Sarhad Se

شام کی سرحد سے

عرفہ میں مقام ابراہیمؑ اور مقام ایوبؑ دو بڑی زیارتیں ہیں، مقام ابراہیمؑ پر پانی کا ایک بڑا تالاب اور اس تالاب میں درمیانے سائز کی مچھلیاں ہیں، نمرود نے تالاب کی جگہ آگ جلائی تھی اور اس آگ میں حضرت ابراہیمؑ کو پھینک دیا گیا تھا، یہ مقام اللہ کے حکم پر تالاب بن گیااور تالاب میں مچھلیاں پیدا ہوگئیں، تالاب کے گرد پرانے دور کی بارہ دریاں اور قدیم قبرستان بھی موجود ہیں، یہ مقام پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے، پہاڑوں میں ہزاروں کی تعداد میں غار ہیں، نمرود کے دور میں لوگ ان غاروں میں رہتے تھے، یہ غار انسان اور قدرت کی خوبصورت صناعی ہیں، یہ اب غیر آباد اور ویران ہیں لیکن ان کی ویرانی میں گئے زمانوں کی باس ابھی تک باقی ہے، آپ ان کے قریب پہنچیں تو آپ کو آج بھی ان سے نمرود کی جھوٹی خدائی کی بو آتی ہے۔

آپ کو وہاں سرکتی سسکتی تڑپتی عبرت بھی نظر آتی ہے، تالاب کے ساتھ پرانے دور کا قبرستان بھی ہے، قبریں بھی ہیں اور ان قبروں پر قدیم تحریریں بھی ہیں، ہم وہاں دیر تک گھومتے رہے اور حضرت ابراہیمؑ پر درودوسلام بھیجتے رہے، مقام ایوبؑ میں حضرت ایوبؑ کا وہ غار ہے جس میں آپؑ نے اپنی زندگی کے اٹھارہ مشکل ترین سال گزارے، غار زمین میں گہرائی میں ہے، سیڑھیاں چھوٹی اور مشکل ہیں، ہم سیڑھیاں اترنے کے بعد پانچ فٹ کے چھوٹے سے غار میں پہنچ گئے، غار کے آخری سرے کو شیشے کی دیوار سے بند کر دیاگیا ہے، مقام ایوب شیشے کی دیوار کی دوسری طرف تھا، ہم نے وہاں سے وہ مقام دیکھا جہاں حضرت ایوبؑ مقیم رہے، ہم نے وہاں دعا کی اور باہر آ گئے، غار سے چند گز کے فاصلے پر وہ کنواں بھی موجود تھا جس کے پانی سے آپؑ شفایاب ہوئے تھے، کنواں بند ہو چکا تھا لیکن اس کی نشانی ابھی تک موجود ہے، میں نے حضرت ایوبؑ کے غار میں اپنی قوم کے لیے صبر اور برداشت کی دعا کی، شاید اللہ تعالیٰ ہماری یہ دعا قبول کر لے اور ہماری بے قرار قوم کو قرار آ جائے، عرفہ کے کباب اور مٹھائیاں بہت مشہور ہیں، خبیب فاؤنڈیشن کے چیئرمین ندیم احمد اور روزنامہ اسلام کے ایڈیٹر ملا خیل بھی ہمارے ساتھ تھے، ندیم احمد سلجھے ہوئے نرم مزاج انسان ہیں، یہ ہمیں عرفہ کے ایک روایتی ریستوران میں لے گئے، کباب واقعی شاندار تھے۔

ہماری اگلی منزل کلیس (Killis) تھی، یہ بھی ترکی کا بارڈر سٹی ہے، ہمیں عرفہ سے کلیس پہنچنے میں اڑھائی گھنٹے لگے، رات کا سفر تھا لیکن سرحد پر بھی اسٹریٹ لائیٹس اور رواں اور کھلی سڑک موجود تھی، کلیس کے بارڈر پر نصف درجن مہاجر کیمپ ہیں، یہ کیمپس شام کے علاقے میں ہیں لیکن ان کا انتظام ترکی کے پاس ہے، آئی ایچ ایچ کے نوجوان ان کیمپوں میں خوراک بھی پہنچاتے ہیں، ادویات بھی اور کپڑے بھی، کیمپوں کی حالت اچھی نہیں، علاقے کا موسم شدید ہے، یہاں سردیوں میں برف پڑتی ہے جب کہ گرمیوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے، شام کے مہاجرین سات برسوں سے اس شدید موسم میں خیموں میں پڑے ہیں، پانی اور خوراک بھی نہیں اور دوسری ضروریات زندگی بھی ناپید ہیں، آئی ایچ ایچ کے نمایندے نے بتایا "ہماری نارمل زندگی میں نیل کٹر ایک عام ناقابل توجہ چیز ہوتی ہے لیکن ان کیمپوں میں یہ بھی ناپید ہے۔

لوگ ناخن پتھروں پر رگڑ کر ہموار کرتے ہیں، نہانے کا تصور تک نہیں، شدید بمباری اور فائرنگ کی وجہ سے حلب اور ادلب قبرستان بن چکے ہیں، لاکھوں لوگ شدید زخمی ہیں، اسپتال مفقود ہو چکے ہیں، ڈاکٹروں نے گھروں میں آپریشن تھیٹر بنا رکھے ہیں، زخمیوں کو بے ہوش کیے بغیر آپریشن کیے جاتے ہیں، مریض اور ڈاکٹر دونوں تلاوت کرتے جاتے ہیں اور روتے جاتے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں بیوائیں، یتیم اور معذور بچے بھی موجود ہیں، یہ لوگ بے چارگی سے دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور انھیں دور دور تک آس اور امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی" ندیم احمد ہمیں چند ایسے گھروں میں لے گئے جہاں جوان بیوائیں اور ان کے زخمی بچے موجود تھے، جنگ بچوں کی آنکھیں اور ہاتھ پاؤں کھا گئی تھی اور وہ ہر اجنبی کو اپنا باپ سمجھ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتے تھے، کلیس میں قطر کی حکومت نے روٹی کے آٹو میٹک پلانٹ لگا دیے ہیں۔

ہر پلانٹ روزانہ ڈیڑھ لاکھ روٹیاں بناتا ہے، یہ روٹیاں پلاسٹک کے لفافوں میں بند کی جاتی ہیں، کریٹوں میں رکھی جاتی ہیں اور کیمپوں میں تقسیم کر دی جاتی ہیں، کلیس اور عرفہ میں روزانہ 27 لاکھ روٹیاں تقسیم ہوتی ہیں، کلیس میں بڑا کچن بھی تھا، کچن میں آٹو میٹک مشینوں کے ذریعے ٹنوں کے حساب سے سالن تیار ہو رہا تھا، ہم نے سالن اور روٹیاں وصول کرنے والے بچوں کی تصویریں دیکھیں تو ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے، انتہائی خوبصورت بچے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں سالن کے برتن اٹھاکر کھڑے تھے اور ان کی مائیں پردے کے پیچھے کھڑی ہو کر یاس سے انھیں دیکھ رہی تھیں، ملک اور امن کتنی بڑی نعمت ہوتے ہیں ہم یہ سمجھنے کے لیے کاش ایک بار شام کے کیمپوں کا چکر لگا لیں، ہمیں اپنے وطن کی قدر ہو جائے گی اور قومیں چند لمحوں میں کس طرح برباد ہوتی ہیں ہمیں یہ جاننے کے لیے بھی ایک بار ان کیمپوں کا دورہ ضرور کرنا چاہیے۔

یہ لوگ انبیاء اور صحابہ کی نسل ہیں، یہ ہم سے کئی گنا پرہیز گار اور متقی بھی ہیں، یہ ہم سے ہزار گنا خوبصورت، بہادر اور کلچرڈ بھی ہیں لیکن سیاسی منافرت، فرقہ واریت اور کمزور حکومتی ڈھانچہ انھیں چند برسوں میں وہاں لے آیا جہاں انسانیت، انسانیت نہیں رہی عبرت بن گئی، یہ لوگ بھی ہماری طرح صدیوں سے فرقوں، نسلوں اور قبیلوں میں تقسیم تھے لیکن مضبوط حکومت اور تگڑی فوج نے انھیں باندھ رکھاتھا، یہ حکومتی ڈھانچہ اور رٹ آف دی گورنمنٹ ڈھیلی پڑی تو وہاں بھی دھرنے پر دھرنا شروع ہوگیااور یوں دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا خوبصورت ترین ملک اور انبیاء کرام کی سرزمین مٹی کا ڈھیر بن گئی اور قوم صدقے اور خیرات پر پلنے لگی، یہ ہم جیسے لوگوں کے لیے عبرت کی نشانی ہے، شام کے اس مشکل وقت پر صرف ترکی اور قطر نے اس کا ساتھ دیا، قطر نے خزانے کھول دیے اور ترکی نے پوری قوم خدمت پر لگا دی جب کہ باقی اسلامی دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے، یہ بے حسی زخم پر جلتا ہوا کوئلہ ثابت ہو رہی ہے، یہ لوگ پورے عالم اسلام کو بددعائیں دے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اگر اس کے بعد بھی ہم پر عذاب نازل نہیں کرتا تو یہ اس کے رحم کی انتہا ہے، یہ واقعی غفور الرحیم ہے۔

ریحان لی شہر کلیس سے بھی دو گھنٹے آگے ہے، یہ شہر ادلب کے بارڈر پرواقع ہے، ریحان لی اور ادلب کے درمیان ایک کلومیٹر کا فاصلہ ہے، ترک حکومت نے کلیس سے ریحان لی تک سڑک کے دونوں طرف کپاس اور زیتون لگا دیے ہیں، ان کی وجہ سے پورا علاقہ سرسبز دکھائی دیتا ہے، ریحان لی میں سرحد سڑک کے ساتھ ساتھ چلتی ہے، پہاڑیاں شام میں ہیں اور وادیاں ترکی میں، ادلب اس وقت علاقے کا سب سے بڑا انسانی المیہ ہے، شہری آبادی پر کیمیائی ہتھیار بھی استعمال ہوئے اور خوفناک بمباری بھی ہوئی، دہشت گردوں نے انسانی آبادی کو "ہیومن شیلڈ"بھی بنا رکھا ہے، ادلب سے روز زخمی اور لاشیں ریحان لی آتی ہیں، قطری حکومت سرحد پر پکے مکان، اسپتال اور یتیم خانے بنا رہی ہے، یہ لوگ مہاجرین کو ان میں آباد کرتے چلے جا رہے ہیں۔

ہمیں ریحان لی میں یتیم بچوں کا ویلج دیکھنے کا موقع ملا، ہم نے آج تک اتنا خوبصورت یتیم خانہ نہیں دیکھا، دو سو کنال پر پچاس خوبصورت اور جدید بنگلے تھے، ہر بنگلے میں اٹھارہ یتیم بچوں اور تین آیاؤں کی رہائش کا انتظام تھا، بنگلے میں بچوں کے کھیلنے، پڑھنے، غسل اور کھانے پینے کابندوبست بھی تھا اور سونے کا بھی، کمپاؤنڈ میں اسکول اور کھیل کا میدان بھی تھا، یہ پورا کمپاؤنڈ قطری حکومت نے بنا کر دیا اور کمال کر دیا، ندیم احمد نے بتایا، ہم نے کمپاؤنڈ کا ایک اسکول لے لیا ہے، کمپاؤنڈ کی سیکیورٹی اور ریسپشن دیکھنے کے لائق تھی، ہمیں ریحان لی میں ایک بیوہ ہاؤس دیکھنے کا موقع بھی ملا، یہ پانچ منزلہ عمارت تھی جس میں پندرہ فلیٹس تھے، ہر فلیٹ میں ایک بیوہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتی تھی، چھت پر بچوں کا اسکول تھا جب کہ عمارت کی سیکیورٹی آئی ایچ ایچ کے پاس تھی۔

عرفہ، کلیس اور ریحان لی تینوں شہروں میں آئی ایچ ایچ کے گودام، ٹریننگ سینٹر، بیکریاں، روٹی پلانٹ اور رجسٹریشن آفس ہیں، گودام وسیع وعریض ہیں، ہر چیز سلیقے کے ساتھ رکھی تھی اور ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ تھا، دنیا کے مختلف ملکوں سے امدادی سامان یہاں آتا ہے، کارکن یہ سامان سلیقے کے ساتھ لگا دیتے ہیں، یہ لوگ مہاجرین کا ڈیٹا بھی رکھتے ہیں، ترکی مزید مہاجرین نہیں لے رہا چنانچہ آئی ایچ ایچ مہاجرین کو سرحد کی دوسری طرف امداد دیتی ہے جب کہ ترک فوج اپنے کارکنوں اور مہاجرین کی حفاظت کرتی ہے، ترک آرمی شام کے اندر دور تک چلی گئی ہے۔

یہ علاقہ بھی کلیئر کرتی جا رہی ہے اور مہاجرین کو سرحد کی طرف راستہ بھی دیتی جا رہی ہے، ترکی کوشش کر رہا ہے یہ زیادہ سے زیادہ علاقہ کلیئر کرکے شام کی حکومت کے حوالے کر دے تا کہ شام میں استحکام آ جائے، ترکی کا خیال ہے یہ بدامنی جوں جوں بڑھتی جائے گی ترکی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، یہ خدشہ غلط نہیں ہے، یہ بحران جتنا طویل ہوتا جائے گا یہ پوری اسلامی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتا جائے گا، یہ آخر میں سعودی عرب پہنچ جائے گا اور یہ اگر سعودی عرب پہنچ گیا تو پھر پورا عالم اسلام پھوڑا بن جائے گا، ہم سب شام بن جائیں گے چنانچہ ہمیں شام سے پہلے شام پر توجہ دینا ہوگی ورنہ ہم سب کی شام آ جائے گی۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Bheer Chaal

By Syed Mehdi Bukhari