Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Aik Taali Un Ke Liye Bhi Honi Chahiye

Aik Taali Un Ke Liye Bhi Honi Chahiye

ایک تالی ان کے لیے بھی ہونی چاہیے

نجم سیٹھی بہرحال پوری قوم کی طرف سے مبارکباد کے حق دار ہیں، پاکستانی کرکٹ دوبارہ زندہ ہو رہی ہے، ہمیں کرکٹ کے اس "ری وائیول" کا کریڈٹ کبھی نہ کبھی ان کو دینا ہوگا، ہم چاہے انھیں لاکھ گالیاں دے لیں، ہم چاہے انھیں 35 پنکچرز کا ذمے دار قرار دے دیں لیکن ہمیں کھلے دل سے ان کی کوششوں کا اعتراف کرنا ہوگا، میں نے کل اکیلے کھڑے ہو کر نجم سیٹھی کے لیے پورے دس منٹ تالیاں بجائیں، میں سمجھتا ہوں یہ اس سے زیادہ کے حق دار ہیں، کیوں؟ ہم اس طرف آنے سے پہلے کرکٹ ٹیم کی فتح کا جشن منائیں گے۔

پاکستان کے نوجوان کھلاڑیوں نے کمال کر دیا، ملک میں 2010ء کے بعد کرکٹ تقریباً انتقال کر گئی تھی، اسٹیڈیم رنڈوے ہو گئے تھے اور بورڈ بیوہ، پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ان سات برسوں میں لاکھوں دل توڑے، دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی سیریز ہوگی جس کے آخر میں لوگوں نے ٹیلی ویژن زمین پر نہ مارے ہوں، پاکستانی کھلاڑیوں کو گالیاں نہ دی ہوں اور ٹیم کو منہ چھپا کر واپس نہ آنا پڑا ہو، دنیا نے ان سات برسوں میں یہ سوچ لیا تھا پاکستانی ٹیم جب بھی میدان میں اترے گی یہ ضرور اور ضرور ہارے گی، پاکستانی کھلاڑیوں پر میچ اور اسپاٹ فکسنگ کے مقدمے بھی بنے، ملک کے بے شمار شاندار کھلاڑی ان مقدموں کی نذر بھی ہوئے، بھارت بھی اس دوران پاکستان کی ٹیم کا کفن سیتا رہا، پاکستان کرکٹ بورڈ بھی سازشوں کی آماجگاہ بنا رہا اور مصباح الحق، یونس خان اور شاہد آفریدی جیسے کھلاڑی بھی ریٹائر ہو گئے چنانچہ پاکستان میں کرکٹ پاکستان پیپلز پارٹی بنتی چلی گئی، ان حالات میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی آ گئی، یہ کرکٹ میں ورلڈ کپ کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ٹورنامنٹ ہوتا ہے، یہ آٹھ بہترین ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔

، پاکستان آٹھویں اور ویسٹ انڈیز نویں نمبر پر تھا، پاکستان کے لیے اپنی آخری اور آٹھویں پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے ویسٹ انڈیز کو ہرانا ضروری تھا، 7 اپریل کو میچ ہوا، پاکستان پہلا میچ ہار گیا، 9 اپریل کو دوسرا میچ ہوا، پاکستان 74 رنز سے کامیاب ہوگیا اور پاکستان نے 11 اپریل کو تیسرے میچ میں بھی ویسٹ انڈیز کو چھ وکٹوں سے شکست دے دی یوں پاکستان نے اپنی آٹھویں پوزیشن کنفرم کر لی، پاکستانی ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی نئے اور ناتجربہ کار تھے، محمد حفیظ اور شعیب ملک سینئر ترین کھلاڑی تھے اور یہ بھی اچھی فارم میں نہیں تھے لہٰذا دنیا کا خیال تھا یہ ٹیم آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گی، یہ شروع ہی میں ڈھیر ہو جائے گی، قوم کو بھی زیادہ توقعات نہیں تھیں، یہ توقعات پہلے میچ میں درست ثابت ہوئیں، پہلا میچ پاکستان اور بھارت کے درمیان تھا، پاکستان کی ناتجربہ کار ٹیم بھارت کے گھاک کھلاڑیوں کے پریشر میں آ گئی۔

بھارت کے ہاتھوں خوفناک شکست ہوئی، کرکٹ کے لاکھوں مداحوں کے دل ٹوٹ گئے، کرکٹ کے ماہرین نے اس شکست کا تجزیہ کیا تو پتہ چلا سرفراز احمد نے فخرزمان کو ٹیم میں شامل نہ کرکے غلطی کی، عماد وسیم کو دوسرا اوور دینا بھی غلطی تھی، ہمارا کپتان شاید یہ نہیں جانتا تھا بھارتی کھلاڑی اسپنرز کوبھی بہت اچھا کھیلتے ہیں اور وکٹ بھی اسپنرز کے لیے زیادہ اچھی نہیں، بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ پر ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنا بھی سیدھی سادی خودکشی تھی اور سرفراز احمد نے یہ خودکشی بھی کرلی اور پاکستان کی فیلڈنگ بھی خراب تھی چنانچہ انڈیا نے 319 رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا، بارش کی وجہ سے میچ41 اوورز تک محدود ہوگیا، پاکستان نے 41 اوورز میں 289 رنز بنانے تھے لیکن ٹیم 164 رنز پر ڈھیر ہوگئی یوں پاکستان 124 رنز کے بڑے مارجن سے شکست کھا گیا، یہ ہار پاکستان کے لیے "ناک آؤٹ" بن گئی، پاکستان کے لیے اب جنوبی افریقہ اور سری لنکا کو ہرانا ضروری تھا اور یہ تقریباً ناممکن تھا لیکن پاکستان نے یہ کر دکھایا، پاکستان کے ناتجربہ کار کھلاڑیوں نے 7 جون کو جنوبی افریقہ کو ڈھیر کر دیا۔

فخرزمان اس میچ کی پیداوار تھے، سری لنکا کے ساتھ 12 جون کو میچ تھا، محمد عامر، فہیم اشرف، حسن علی اور جنید خان نے اس میچ میں کمال کر دیا، جنید خان اور حسن علی نے تین تین جب کہ محمد عامر اور فہیم اشرف نے دو، دوکھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور سری لنکا کو 236 رنز تک محدود کر دیا، پاکستان کے بلے بازوں اظہر علی اور فخرزمان نے اس کے بعد کمال کر دیا، یہ دونوں اوپنرز تھے، ان دونوں نے 74 رنز کا اسٹارٹ دیا لیکن بعد ازاں آنے والے بیٹسمین اس اسٹارٹ کا فائدہ نہ اٹھا سکے اور پاکستان کی وکٹیں یکے بعد دیگرے گرتیں رہیں لیکن پھر محمد عامر اور سرفراز احمد نے کمال کیا، ان دونوں کے درمیان 75 رنز کی شاندار پارٹنر شپ ہوئی جس نے پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا، یہ معجزے سے کم نہیں تھا، پاکستان کا سیمی فائنل کرکٹ کے بانی انگلینڈ کے ساتھ تھا، محمد عامر میچ سے پہلے زخمی ہو گئے، رومان رئیس کو موقع ملا، یہ دو وکٹیں لے گئے، دو وکٹیں جنید خان نے حاصل کیں اور تین حسن علی نے لیں، فخر زمان اور اظہر علی نے جارحانہ بیٹنگ شروع کی اور ٹیم کو ایک بار پھر104 رنز کا شاندار آغاز فراہم کر دیا، پاکستان اس شاندار آغاز کی بدولت انگلینڈ کو 8 وکٹوں سے ہرا کر فائنل میں پہنچ گیا، دوسری طرف بھارت بنگلہ دیش کو 9 وکٹوں سے شکست دے کر فائنل میں آ گیا اور پھر 18 جون کو پاکستان اور بھارت دونوں روایتی حریف اوول کرکٹ گراؤنڈ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہو گئے۔

یہ فائنل صرف فائنل نہیں تھا، یہ خوشیوں کے لیے ترستے پاکستان کے لیے آکسیجن ٹینٹ بھی تھا، یہ پاکستان میں کرکٹ کا "کم بیک" بھی تھا، یہ پاکستان کی انا، پاکستان کی عزت نفس کی بحالی بھی تھا اور یہ بھارت کی ثقافتی یلغار کا جواب بھی تھا، یہ ساری ذمے داریاں پاکستان کی نوجوان اور ناتجربہ کار ٹیم کے کندھوں پر تھیں، پاکستان کے نوجوان کھلاڑیوں نے یہ ذمے داریاں نبھا کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی، ہم نے فائنل میں بھارت کو بولنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں آؤٹ کلاس کر دیا، بیٹنگ کی تو فخرزمان نے 114، اظہر علی نے 59، بابراعظم نے 46 اور محمد حفیظ نے 57 رنز کی شاندار اننگز کھیلیں، بھارت کو 338 اسکورز کا ٹارگٹ دے دیا، بولنگ کی باری آئی تو محمد عامر نے کرکٹ کی تاریخ کا شاندار اسپیل کیا، اس نے روہت شرما، ویرات کوہلی اور شیکھر دھون جیسے ورلڈ کلاس کھلاڑیوں کو اڑا کر بھارت کی جیت ناممکن بنا دی، ویرات کوہلی بھارت کی آدھی ٹیم ہیں، یہ جب تک کریز پر موجود رہتے ہیں بھارت کو اس وقت تک ہرانا مشکل ہوتا ہے، کوہلی کے آؤٹ ہونے کے بعد بھارتی وکٹوں کی لائین لگ گئی، محمد عامر اور حسن علی نے تین تین وکٹیں لیں یوں پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی جیت لی اور دنیا بھر میں موجود پاکستانی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آگئے، ہماری اس جیت نے ثابت کر دیا انسان اگر ٹھان لے تو دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی۔

میں اب حکومت پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ دونوں سے دو درخواستیں کرنا چاہتا ہوں، ورلڈ کپ 2019ء میں ہوگا، ہمیں ابھی سے اس کی تیاری شروع کر دینی چاہیے، کھلاڑیوں کو مصروف رکھیں، ملک کے اندر میچز کراتے رہیں، باقی ٹیموں پر نظر رکھیں، ان کی پریکٹس اور تکنیکس کا تجزیہ کرتے رہیں اور بین الاقوامی کوچز کی مدد لیتے رہیں، دو، ہماری ٹیم کی ناکامی کی بڑی وجہ اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا ہے، ہمارے کھلاڑی رات دیر تک سوشل میڈیا پر ایکٹو رہتے ہیں یوں ان کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی اور یہ جذباتی حادثوں کا شکار بھی رہتے ہیں، یہ ڈیپ ویب اور ڈارک انٹرنیٹ کے ذریعے بکیز کے قابو بھی آ جاتے ہیں چنانچہ حکومت فوری طور پر کرکٹ ٹیم کے اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا پر پابندی لگا دے، یہ میچز کے دوران اسمارٹ فونز استعمال کر سکیں اور نہ ہی سوشل میڈیا پر آئیں، حکومت آئی بی کو ان کے سوشل میڈیا کی ریکی کا ٹاسک دے دے، یہ پاکستانی کھلاڑیوں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں پر نظر رکھے، یہ فیصلہ ہماری ٹیم کو مضبوط بنائے گا، کھلاڑیوں کی نیند بھی پوری ہوگی۔

یہ بکیز سے بھی بچے رہیں گے اور یہ جذباتی حادثوں سے بھی محفوظ رہیں گے یوں انشاء اللہ ورلڈ کپ بھی ہمارا ہو جائے گا۔ ہم اب نجم سیٹھی کی طرف آتے ہیں، چیمپئنز ٹرافی میں فخرزمان، حسن علی، شاداب خان اور رومان رئیس نے کمال کر دیا، یہ چاروں کھلاڑی پی ایس ایل کی پیداوار ہیں، فخرزمان مردان سے تعلق رکھتے ہیں، یہ لاہور قلندر کی طرف سے کھیلتے رہے، جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں ون ڈے کیریئر کا آغاز کیا، ملک کو بڑے عرصے بعد فخرزمان جیسا جارحانہ اوپنر ملا، حسن علی منڈی بہاؤالدین کے رہنے والے ہیں، یہ پشاور زلمی کا حصہ تھے، حسن علی نے چیمپئنز ٹرافی میں سب سے زیادہ وکٹیں لیں اور پلیئر آف دی ٹورنامنٹ بنے، یہ بھی پی ایس ایل سے نکلے تھے اور رومان رئیس کراچی سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے بھی اسلام آباد یونائیٹڈ سے کیریئر کا آغاز کیا تھا چنانچہ میں سمجھتا ہوں نجم سیٹھی اگر پی ایس ایل شروع نہ کرتے، یہ اگر خوفناک مخالفت کے باوجود ڈٹے نہ رہتے تو شاید ہم کامیابی کا یہ پہلا مرحلہ عبور نہ کر پاتے، ہمیں عید سے قبل یہ عیدی نہ ملتی اور شاید یہ نئی تاریخ بھی رقم نہ ہوتی چنانچہ تالیوں کے اس بازار میں نجم سیٹھی بھی تالیوں کے حق دار ہیں، ۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Sunen, Aaj Kya Pakaun

By Azhar Hussain Azmi