Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shaheen Kamal/
  4. Main Usama Hoon (2)

Main Usama Hoon (2)

میں اسامہ ہوں (2)

اللہ تعالیٰ شاید مجھ پر مہربان ہو گیا تھا کہ وقت کا دھارا میرے حق میں تھا۔ اولڈ ھوم کے کچن ہی میں میری ملاقات عظمیٰ سے ہوئی، وہ علیگڑھ سے یہاں، شکاگو پڑھنے آئی تھی اور اسی کچن میں ہر سنیچر کو والنٹیرکرتی تھی۔ دو مختلف دنیا کے لوگ تیزی سے قریب آئے اور ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ٹھہرے۔ میرے لیے تو مسئلہ نہیں تھا کہ میں ٹھہرا مادر پدر آزاد مگر عظمیٰ شادی سے پہلے کسی بھی قسم کے تعلق کے لیے تیار نہ تھی اور میں اس کے بغیر ماہی بے آب، سو جلدی ہی شادی کا فیصلہ ہوا۔ اب اس کے گھر والے آڑے آئے کہ ایک ایسا لڑکا جس کے نہ آگے کوئی نہ پیچھے اس سے اپنی پڑھی لکھی سید زادی کیسے بیاہ دیں؟ جو سچ پوچھیے تو مجھے اپنی کاسٹ کا بھی علم نہیں تھا اور نہ ہی میں یہ جانتا تھا کہ جب انڈیا سے میرے آباء و اجداد نے ہجرت کی تھی تو کس شہر سے کی تھی؟

میں بس اتنا جانتا تھا کہ میں کراچی پاکستان سے ہوں اور میری ماں جب آٹھویں جماعت میں تھی تو اس کی ماں (میری نانی) کے مرنے بعد باپ نے دوسری شادی کرتے ہی بیٹی کو ڈس اون کردیا اور اسے ہندوستان سے کراچی میں مقیم اس کے اکلوتے ماموں کے پاس روانہ کر دیا تھا۔ اب تو اماں کے ماموں بھی مر کھپ چکے تھے، اماں کی شاید دو ماموں زاد بہنیں بھی تھیں مگر میں نے انہیں کبھی دیکھا سنا نہیں تھا۔ میری ماں بڑی صاف اور شستہ اردو بولتی تھی، یقیناً اردو بولنے والے کسی مہاجر خاندان ہی سے ہوں گی۔ تین چار مہینے اس شادی کی منظوری کے جھگڑے نے طول کھینچا اور ساتھ ہی ہم دونوں کے صبر کا دامن تنگ تر ہوا سو ایک شام ہم دونوں نے اسلامک سینٹر جاکر نکاح کر لیا اور دنیا کی جانب سے کان لپیٹ کر اپنی جنت میں مگن ہو گئے۔

عظمیٰ کے ماسٹرز مکمل ہونے میں دو سال باقی تھے اور میں اسے ایک آرام دہ زندگی دینے کے لیے اپنی پوری توانائی لگا رہا تھا۔ عظمیٰ کے ساتھ نے مجھے نئے سرے سے اسلام سے روشناس کرایا، گو اماں نے مجھے قرآن پاک پڑھایا تھا مگر میں کب کا سب بھول چکا تھا۔ اماں کی یاد گار میرے پاس ان کی چھوٹی سی قرآن مجید تھی جس کو میں ہر روز بلاناغہ چومتا اور وہ میری گاڑی کے گلوز باکس میں رکھی رہتی تھی۔ میں نے قریبی مسجد میں ناظرہ کی ہفتہ واری کلاس میں اپنا نام لکھوا لیا تھا۔ گھر پر نمازیں بھی پڑھنے لگا تھا۔

عظمیٰ کے پاس آوٹ ہوتے ہی اس کو فائیناس سیکٹر(finance sector) میں بہت اچھی نوکری مل گئی اور ولید کی آمد کے ساتھ ہی ہماری جنت کی تکمیل بھی۔ ولید جب چھ ماہ کا تھا ہم لوگ کرسمَس کی چھٹیوں میں علیگڑھ گئے۔ میں فقط ایک ہفتے کے لیے اور عظمیٰ تین ہفتوں کے لے۔ ہماری زندگی بہت بھرپور تھی اتنی مکمل کہ جنت کی آرزو بھی نہ تھی۔

ولید کی پانچویں سالگرہ گزرے بمشکل ڈھائی ماہ ہی ہوئے تھے کہ دنیا 180 کے زاویے پر بدل گئی۔ ٹوئن ٹاورز کی زمیں بوسی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دنیا تاراج کر دی۔ امریکہ تو امریکہ، مسلمان اپنے ملکوں میں بھی محفوظ نہ رہے۔ بہتوں کے ساتھ ساتھ میری دنیا بھی اجڑ گئی اور میری متاعِ حیات اس سفاکی کے بھینٹ چڑھ گئی۔ گروسری شاپنگ سے واپسی پر پارکنگ لاٹ میں ہم تینوں وائٹ سوپرامسٹ کے ہتھے چڑھے اور ن لوگوں نے مار مار کر ہم لوگوں کا بھرتہ بنا دیا۔ عظمیٰ سر میں شدید ضرب کے باعث تین ہفتے تک کوما میں رہنے کے بعد گزر گئی۔ میں ڈھیٹ تھا مختلف سرجریز سے گزر کر لنگڑاتی ٹانگ اور مضروب جبڑے کے ساتھ جب ڈھائی مہینے کے بعد ہسپتال سے فارغ ہوا تو فوسٹر کیر سے ولید کو لیکر سیدھا ائرپورٹ پہنچا اور کراچی لینڈ کر گیا۔

کراچی میری جائے پیدائش ہے مگر اب ہوا فضا سب نامانوس۔ مجھے اپنے عالم اضطراب میں کیا گیا فیصلہ اب ڈس رہا ہے کہ میں نے اماں اور عظمیٰ کی مٹی کی ڈھیریوں کو شکاگو میں اکیلا کیوں چھوڑ دیا مگر میں کیا کروں مجھے ولید کو بھی تو بچانا ہے۔ زندگی تو کہیں نہ کہیں سے شروع کرنی ہی تھی۔ اکیلا ہوتا تو عظمیٰ کی قبر کا مجاور بن جاتا پر ولید ہماری محبت کی واحد نشانی ہے، سو اس کی بقا ضروری اور وہ ہی میرے جینے کی واحد وجہ بھی۔

میں نے نوکری کی تگ و دو شروع کی اور بہت آسانی سے فائو اسٹار ہوٹل میں شیف لگ گیا۔ مجھے سال لگ گئے کراچی میں سیٹل ہوتے ہوتے۔ ولید کا اسکول میں داخلہ کروا دیا تھا اور اب زندگی ایک ڈگر پر چلنے لگی تھی۔ دن تو پھر بھی آسان تھے پر راتیں جان لیوا تھیں۔ میں ہمیشہ سے اپنے آپ میں گم رہنے والا کم گو انسان تھا اور اب تو شاید بولنا ہی بھول چکا تھا۔ ہوٹل کے بعد میرا سارا وقت ولید کے لیے تھا کہ دوست میں نے قصداً بنائے ہی نہیں۔

میں یہاں بھی والنٹیر کے طور پر کام کرنا چاہتا تھا، کچھ عرصہ دارالسکون میں کام کیا پھر سہراب گوٹھ ایدھی سینٹر میں پابندی سے ہر سنیچر کو جانے لگا۔ یہاں میں مردوں کے وارڈ کی دیکھ بھال کرتا۔ دن اپنی مخصوص رفتار سے ارد گرد سے بےنیاز گزرتے چلے جا رہے تھے اور ایدھی ھوم میں مجھے والنٹیر کرتے ہوئے تقریباً دو سال ہو چکے تھے کہ ایک خزاں آلود سنیچر کی مضمحل دوپہر کو مجھے وہاں ایک بدحال بوڑھا نظر آیا اور میں چاہتے ہوئے بھی اس پر سے اپنی نظریں نہیں ہٹا سکا۔ جانے کیوں وہ مخبوط الحواس بوڑھا ذہن پر دستک دیتا محسوس ہوا۔

جب میں اگلے ہفتے سنٹر گیا تو وہ مجھے قدرے بہتر حالت میں ملا، گو کہ آج بھی ایک گم سم خاموشی اس کے خستہ وجود کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔ اصغر سے میں نے اس کی فائل مانگی مگر فائل میں اس کے کوائف ادھورے تھے۔ میں نے اس شخص کی دیکھ بھال اپنے ذمے لے لی اور سنٹر کے ایک ورکر کی مدد سے اسے نہلایا اور نائی سے اس کی حجامت بنوا دی اور پھر اسے دیکھ کر خود ہی پتھرا گیا۔ مجھے ہمیشہ سے یقین تھا کہ زندگی میں ایک بار وہ مجھے ضرور ملے گے اور بدتر و بدحال ہی ملے گے اور میرا یقین، میرے سامنے مجسم تھا۔

وہ ابا تھے!ان برے حالوں میں!

اجڑے اور ویران و نحیف، ماضی سے بےگانہ اور اپنے حال سے لاعلم۔ واقعی ظلم کبھی نہیں پنپتا۔ بالآخر میرا ہینڈسم اور ڈیشنگ باپ مکافات کی بے آواز چکی کے پاٹوں کے درمیان آ ہی گیا۔ میں پوری تندہی سے ان کی خدمت میں جت گیا۔ وہ الزائمر کے ابتدائی درجے میں تھے اور کبھی کبھی جب کوئی پہچان کا لمحہ ان کی پکڑ میں آتا تو اپنے بیٹے اسامہ کو یاد کرتے۔ مجھے ان پر قطعاً ترس نہیں آتا تھا بلکہ ان کے ہوش کے لمحوں میں میرا دل چاہتا تھا کہ انہیں جھنجھوڑ کے پوچھوں کہ انہیں میرا وہ بےبس اور معصوم دوست گل خان یاد ہے جس سے انہوں اپنی ہوس کی آگ بجھائی تھی؟

کبھی انہیں یہ خیال آیا کہ ان کی موجودہ حالت ان کے گناہوں کی سزا ہے اورگل خان کی آہ ان کی بربادی کا سبب۔ میرے سامنے مکافات عمل اپنی بھیانک ترین شکل میں بےچارگی سے پڑا تھا۔ عجیب بات ہے کہ ابا اپنے آخری دنوں میں مکمل ہوش و حواس میں تھے اور انہوں نے زار زار روتے ہوئے مجھے اپنے بچھڑے بیٹے اسامہ کی یادوں میں شریک کیا اور کہا کہ ان کی دعا اور شدید خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے وہ ایک بار صرف ایک بار اسامہ کو دیکھ سکیں، مگر میں اپنے مرتے ہوئے باپ کو یہ راحت و رعایت دینے سے اپنے آپ کو قطعی مجبور پاتا تھا اور میں انہیں یہ خوشی ہر گز ہرگز نہیں دے سکتا۔

کیسی عجیب بات ہے لوگ کہتے ہیں کہ ماں باپ کے گناہوں کی فصل اولاد کو کاٹنی پڑتی ہے۔ بالکل غلط!میری زندگی میں جو بھی ابتلا و مصبیت تھی وہ میری آزمائش تھی، نہ کہ میرے باپ کی گناہوں کی سزا کیونکہ اللہ تعالیٰ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر پندرہ میں صاف صاف فرماتا ہے کہ" جو راہ راست حاصل کرے وہ خود اپنے ہی بھلے کے لیے راہ یافتہ ہوتا ہے اور جو بھٹک جائے اس کا بوجھ اسی کے اوپر ہے، کوئی بوجھ والا کسی اور کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادے گا۔ "

اللہ تعالیٰ غیور ہے اور اس کی منصفی سے یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی کسی اور کے گناہوں کا بار اٹھائے۔ ہر انسان اپنے عمل کے لیے خود جواب دہ ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھی والدین کو ملنے والی دعائیں اولاد کی راہیں روشن اور ان کو لگنے والی بد دعائیں اولاد کے لیے اندھیری سرنگ کا سفر بن جاتی ہیں۔

ابا کی تدفین میں نے پورے اہتمام سے کی مگر ہنوز انہیں معاف کرنے سے قاصر ہوں کہ ایسا سوچوں بھی تو گل خان کی آنسو بھری آنکھیں مجھے چین نہیں لینے دیتی۔

Check Also

Ab Iss Qadar Bhi Na Chaho Ke Dam Nikal Jaye

By Syed Mehdi Bukhari