Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Tareekh Per Tareekh

Tareekh Per Tareekh

تاریخ پر تاریخ

یورپ دوسری جنگ عظیم کے بعد مٹی کا ڈھیر بن چکا تھا، ساٹھ بڑے شہروں میں موت کے سوا کچھ نہیں تھا، عمارتیں ڈھے چکی تھیں، سڑکیں، پل اور ریل کی پٹڑیاں ناقابل استعمال تھیں، بجلی، پانی اور گیس کا نظام درہم برہم تھا، سرکاری دفتر بند تھے، راشن کی قلت تھی اور اسکول اور فیکٹریاں بند تھیں لیکن ٹھیک پندرہ سال بعد یورپ کا سارا نقشہ بدل چکا تھا، فیکٹریاں چل رہی تھیں، کھیت ہرے بھرے تھے، کرنسی توانا تھی، اسپتال اور اسکول آباد تھے۔

خوراک کی فراوانی تھی، بجلی، پانی اور گیس بحال تھی، ریل کی پٹڑیاں، پل اور سڑکیں بن چکی تھیں اور سرکاری دفتروں میں کام چل رہا تھا، یہ معجزہ، یہ چمتکار کیسے ہوا؟ اس چمتکار کی صرف دو وجوہات تھیں، پہلی وجہ عوامی رویہ تھا، عوام اپنا انفراسٹرکچر بحال دیکھنا چاہتے تھے، یہ حکومت کا ساتھ دیتے رہے اور دوسری وجہ پالیسیوں کا تسلسل تھا، یورپ میں اس زمانے میں بے تحاشہ حکومتیں بدلیں۔

عوام نے جنگ کے ہیروز ونسٹن چرچل اور چارلس ڈیگال تک کو باہر پھینک دیا لیکن حکومتی پالیسیاں جاری رہیں، حکومت تبدیل ہونے سے کوئی پل، سڑک، عمارت، اسکول، اسپتال یا پانی، بجلی اور گیس کی کوئی اسکیم نہیں رکی، یہ تمام کام چلتے رہے، عوامی فلاح کے کسی منصوبے کے خلاف کوئی آفس آرڈر جاری ہوا اور نہ ہی کوئی عدالتی حکم امتناع نکلا، ترقیاتی کام پوری رفتار سے جاری رہے یہاں تک کہ یورپ تاریخ کی خوفناک تباہی کے صرف پندرہ سال بعد دوبارہ "فرسٹ ورلڈ" بن گیا، یہ ایک بار پھر انسانی ترقی کا قبلہ ہوگیا۔

ہم جب بھی اس معجزے پر ریسرچ کریں گے، ہمیں اس کے پیچھے عوام کا جذبہ ملے گا، عوام اس زمانے میں ترقی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے، عوام نے کسی پل، کسی سڑک، کسی ٹرین اور کسی پارک کی تعمیر کے دوران حکومت کے خلاف مظاہرہ نہیں کیا اور کسی عدالت نے بھی کسی ترقیاتی کام کے خلاف سوموٹو نوٹس نہیں لیا چنانچہ تباہ حال یورپ 15برسوں میں اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیا۔

ہم اب پاکستان کی طرف آتے ہیں، کراچی کی آبادی اس وقت اڑھائی کروڑ اور لاہور کی پونے دو کروڑ ہے، ہمارے یہ دونوں شہر آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دس بڑے شہروں میں شامل ہو چکے ہیں، ملک کی 20 فیصد آبادی ان دو شہروں میں رہتی ہے، ہم فرض کر لیتے ہیں ملک کے ان دونوں شہروں کے پچاس فیصد لوگ روزانہ گھروں سے نکلتے اور واپس آتے ہیں تو لاہور اور کراچی کے کتنے لوگوں کو روزانہ پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہوگی؟ یقینا دو کروڑ لوگوں کو!پبلک ٹرانسپورٹ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ یقینا میٹرو، ٹرام اور ٹرین، یہ تینوں ذرایع کس کی ذمے داری ہیں؟

یہ یقینا گورنمنٹ کی ذمے داری ہیں، یہ ایک حقیقت ہے، آپ اب دوسری حقیقت ملاحظہ کیجیے، پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، ہماری آبادی 20 کروڑ ہو چکی ہے، ہماری حکومتوں نے آبادی اور ٹرانسپورٹ دونوں ایشوز پر آنکھیں بند رکھیں، ہماری آبادی بڑھتی گئی اور ٹرانسپورٹ کے ذرایع سکڑتے چلے گئے یہاں تک کہ ملک "جیم" ہو کر رہ گیا، آپ نے اگر ملک کی اصل حالت دیکھنی ہو تو آپ صبح آٹھ سے دس بجے اور شام چار سے چھ بجے کراچی کو دیکھئے آپ کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جائیں گے، آپ ان دونوں اوقات میں لاہور کو بھی دیکھ لیجیے۔

آپ کو لاہور کی حالت پر بھی ترس آئے گا، یہ حالت ماضی کا نوحہ ہے، ہمیں ساٹھ کی دہائی میں پبلک ٹرانسپورٹ مکمل کر لینی چاہیے تھی، کراچی اور لاہور سمیت ملک کے دس بڑے شہروں میں ٹرام، میٹرو بس اور انڈر گراؤنڈ ٹرینیں ہونی چاہئیں تھیں لیکن ہم نے وہ وقت ضایع کر دیا، ہم آج بھی وقت ضایع کر رہے ہیں اور وقت کے اس زیاں میں عوام اور سرکاری نظام دونوں برابر کے شریک ہیں، یہ دونوں ترقی کے راستے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔

مجھے آج یہ تسلیم کرتے ہوئے شرم آ رہی ہے میں 1990ء کی دہائی میں موٹروے کے خلاف تھا اور میں نے 2009-10ء میں میٹرو بس کی مخالفت بھی کی تھی، میں آج تسلیم کرتا ہوں میرا موقف غلط تھا، موٹروے اور میٹرو دونوں ملک کے لیے ضروری تھیں اور ضروری ہیں، آج موٹروے نہ ہوتا تو ہماری جی ٹی روڈ ٹریفک کا دباؤ برداشت نہ کر پاتی، ملک میں اشیاء خورونوش، پٹرول اور اناج کی سپلائی سے لے کر عوامی سفر تک ہر چیز مشکل ہو جاتی ہے۔

لاہور، راولپنڈی اور ملتان کی میٹروز نے بھی عام آدمی کی زندگی میں بے شمار آسانیاں پیدا کیں، ٹریفک کا بہاؤ بھی بہتر ہوا اور شہری زندگی بھی آسان ہوگئی، آج میٹرو نہ ہوتی تو لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا چنانچہ ہمیں میاں شہباز شریف کو داد دینا پڑے گی، یہ بہرحال ان کا کمال ہے، میاں شہباز شریف کو اب دل بڑا کرکے سندھ اور کے پی کے کی حکومتوں کو بھی سپورٹ کرنا چاہیے، پشاور، کراچی، حیدر آباد اور سکھر میں بھی میٹرو بننی چاہیے، عوام کو اب وہاں بھی یہ سہولت ملنی چاہیے۔

میٹرو بس کی طرح اورنج لائین ٹرین بھی پنجاب حکومت کا ایک اچھا منصوبہ ہے، حکومت چین کی مدد سے لاہور کے علی ٹاؤن سے لے کر ڈیرہ گجراں تک 27 کلو میٹر لمبی اورنج لائین ٹرین شروع کر رہی ہے، ٹرین کے 26 اسٹیشن ہوں گے، 24 زمین پر اور دو زیر زمین، کرایہ میٹرو بس کے برابر ہوگا، اڑھائی لاکھ لوگ روزانہ سفر کریں گے، ٹرین پر اکتوبر 2015ء میں کام شروع ہوا، 16 مئی 2017ء کو پہلی ٹرین لاہور پہنچ گئی، سال کے آخر تک باقی 26 ٹرینیں بھی آ جائیں گی، ٹرین کی رفتار 80 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوگی، یہ 40 منٹ میں آخری پوائنٹ تک پہنچے گی اور یہ ائیر کنڈیشنڈ بھی ہوگی۔

یہ منصوبہ جب شروع ہوا توتاریخی عمارتوں کا مسئلہ کھڑا ہوگیا، یہ اعتراض کیا گیا ٹرین کی وجہ سے چوبرجی، گلابی باغ، کپورتھلہ کالونی، پیراشوٹ کالونی، موج دریا، سینیٹ اینڈ ریو چرچ اور شالیمار گارڈن جیسے ثقافتی اثاثوں کو نقصان پہنچے گا، یہ ٹرین عمارتوں کو بھی نقصان پہنچائے گی اور یہ عظیم عمارتیں اسٹیشنوں کے پیچھے بھی چھپ جائیں گی، یہ اعتراضات میڈیا سے ہوتے ہوئے ہائی کورٹ پہنچے اور وہاں سے سپریم کورٹ آ گئے، سپریم کورٹ نے طویل سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر دیا۔

آپ کو لاہور میں اس وقت اس محفوظ فیصلے کے نتائج دکھائی دیتے ہیں، لاہور کے آٹھ مقامات دو سال سے کھدے پڑے ہیں، خاک اڑ رہی ہے اور یہ خاک اب تک دس بیس لاکھ لوگوں کو بیمار کر چکی ہے، لوگ دمے کا شکار ہو رہے ہیں جب کہ گلیوں اور سڑکوں سے گزرنا بھی محال ہو چکا ہے اور گاڑیوں رکشوں کی آمدورفت بھی معطل ہے، چینی انجینئرز اور کمپنی بھی گومگو کی حالت میں ہے اور سود میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور منصوبے کی لاگت بھی بڑھ رہی ہے، یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا، ہم کب تک یہ کھیل کھیلیں گے، ہمیں جلد یا بدیر چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔

ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا ہمیں سڑکیں، پل، انڈر پاسز، ڈیم، بندر گاہیں اور ائیرپورٹس چاہئیں یا نہیں، اگر ہمیں یہ نہیں چاہئیں تو پھر ہم فوری طور پر ان پر پابندی لگا دیں تا کہ قوم کا وقت بھی ضایع نہ ہو اور قوم یہ بھی جان لے ہم نے باقی زندگی سڑک، پل، میٹرو اور ٹرین کے بغیر گزارنی ہے اور ہمیں اگر انفراسٹرکچر چاہیے تو پھر ہم یہ فیصلہ کر لیں ہم اگلے دس برسوں میں ملک کا سارا انفراسٹرکچر مکمل کر لیں گے، ملک کا ہر وہ شہر جس کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے اس میں میٹرو بس ہوگی اور پچاس لاکھ سے زائد آبادی کے شہروں میں ٹرین سروس شروع ہو جائے گی۔

حکومت کوئی بھی ہو، کسی کی بھی ہو یہ کام ہر صورت مکمل ہوں گے، کوئی ان کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گا، نہ کوئی آفس آرڈر آئے گا اور نہ ہی کوئی حکم امتناعی جاری ہوگا، حکومتیں آتی رہیں یا جاتی رہیں ترقیاتی کام ہر صورت مکمل ہوں گے، یہ نہیں رکیں گے، دنیا میں نئی ٹیکنالوجی آ چکی ہے، چین نے دو ماہ قبل 19 منزلہ عمارت کے اندر سے ٹرین گزار دی، یہ ٹرین روزانہ بیسوں مرتبہ عمارت کے اندر سے گزرتی ہے لیکن عمارت کے کسی کمرے میں چائے کا کپ تک نہیں گرتا۔

مصر میں 1970ء میں آسوان ڈیم بنا تھا، ڈیم میں ابوسائم نام کا پانچ ہزار سال پرانا ٹمپل آ گیا، حکومت نے پورا ٹمپل اٹھا کر دوسری جگہ شفٹ کر دیا تھا، کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن یہاں اعتراضات ہی ختم نہیں ہو رہے، ہمیں اگر ٹرین سے چوبرجی یا شالیمار کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے تو ہم جدید ٹیکنالوجی کیوں استعمال نہیں کرتے؟ ہم عمارتوں کو محفوظ بنا دیں یا ٹرین کا اسٹیشن چند سو میٹر آگے پیچھے کر دیں، مسئلہ ختم کریں، یہ "تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ" جیسی روایتیں کب تک چلتی رہیں گی، یہ قوم کی جڑوں میں بیٹھ جائیں گے، ملک تباہ ہو جائے گا۔

میری پنجاب حکومت اور سپریم کورٹ دونوں سے درخواست ہے آپ یہ مسئلہ مل جل کر حل کر لیں، پنجاب حکومت اسٹیشن آگے پیچھے کر دے اور سپریم کورٹ اس کیس کا فوری فیصلہ کر دے، تاخیر سے قوم کا وقت بھی ضایع ہو رہا ہے اور عوام کو تکلیف بھی پہنچ رہی ہے، دنیا میں اگر مفاد عامہ کوئی چیز ہے اور ہم اس پر واقعی یقین رکھتے ہیں تو پھر ہمیں مفاد عامہ میں یہ مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے ورنہ دیر ہو جائے گی اور یہ دیر قوم کو چند سو سال مزید پیچھے لے جائے گی اور ہم پیاز بھی کھائیں گے اور جوتے بھی، کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Mughalitistan Aur Imran Khan, Imran Khan Ki Zindagi (11)

By Basham Bachani