Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Aik Column Yakam May Ke Liye

Aik Column Yakam May Ke Liye

ایک کالم یکم مئی کے لیے

پتریاٹہ مری کے مضافات میں ایک خوبصورت ریزارٹ ہے، یہ ریزارٹ اپنی چیئرلفٹس کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہے، گرمیوں میں پانچ چھ لاکھ لوگ پتریاٹہ وزٹ کرتے ہیں، پنجاب حکومت نے سال کے شروع میں 18 کروڑ روپے کی رقم سے چیئرلفٹس کو اپ گریڈ کیا، یہ اب پہلے سے زیادہ رواں اور آرام دہ ہیں، ریزارٹ کا آخری اسٹاپ خوبصورت اورعلاقے کا بلند ترین مقام ہے، آپ کو وہاں چاروں طرف چیڑھ کے درخت اور میلوں تک سبزے کی چادر ملتی ہے، میں 1993ء میں پہلی بار پتریاٹہ گیا، وہ میری زندگی کا یادگار دن تھا، میں پتریاٹہ کے ٹاپ پوائنٹ پر تین گھنٹے بیٹھا رہا، میں اس کے بعد درجنوں مرتبہ پتریاٹہ بھی گیا اور چیئر لفٹس کے ذریعے ٹاپ پوائنٹ پر بھی پہنچا، میں نے ان 22 برسوں میں چیئر لفٹس کے معیار کو خوفناک حد تک نیچے آتے دیکھا، میں آخری مرتبہ چار سال قبل وہاں گیا تھا، لفٹس ٹوٹی ہوئی تھیں۔

گنڈولوں کے اندر گندے فقرے لکھے تھے اور فرش سے باقاعدہ بو آتی تھی، واپسی پر لفٹ پھنس گئی اور میں دوسرے مسافروں کے ساتھ دو گھنٹے ہوا میں لٹکا رہا، میں نے اس کے بعد توبہ کر لی، میں ان سردیوں میں چار سال بعد پتریاٹہ گیا، چیئر لفٹس کو بھی انجوائے کیا اور آخری پوائنٹ پر گھنٹہ بھر برف میں بھی بیٹھا رہا، نئے گنڈولے اور نئی چیئر لفٹس لگ چکی تھیں اور صفائی کا انتظام بھی بہتر تھا، میں انتظامیہ اور پنجاب حکومت دونوں کی کوشش سے متاثر ہوا لیکن واپسی پر ایک قلق، ایک تکلیف بھی میرے ساتھ واپس آئی، یہ تکلیف چار ماہ سے میرے ساتھ ہے۔

میں کوشش کے باوجود اس تکلیف سے چھٹکارہ نہیں پا سکا، میں اس تکلیف کی طرف جانے سے قبل آپ کو چند لمحوں کے لیے یکم مئی کی ایک تقریب کی طرف لے جانا چاہتا ہوں۔ یکم مئی کے دن واہ آرڈیننس فیکٹری میں مزدوروں کی ایک تقریب تھی، تقریب میں چوہدری نثار سمیت چار وفاقی وزراء مدعو تھے، چوہدری نثار نے تقریب میں مزدوروں سے خطاب کیا، چوہدری صاحب مزدوروں کے حق میں کلمہ حق بلند کر رہے تھے، یہ کلمہ حق بلند ہونا بھی چاہیے تھا، واہ آرڈیننس فیکٹری کے مزدور پاکستان مسلم لیگ ن کے ووٹرز ہیں، یہ لوگ اگر خوش نہیں ہوں گے تو چوہدری صاحب ایم این اے اوربعد ازاں وزیر کیسے بنیں گے چنانچہ مزدوروں کی خوشی اور انھیں تالیاں بجانے پر مجبور کرنے کے لیے یہ تقریریں ضروری ہوتی ہیں لیکن مزدوروں اور بے بس لوگوں کے ساتھ اس ملک میں کیا سلوک ہو رہا ہے یہ جاننے کے لیے پتریاٹہ کی مثال کافی ہوگی۔

پتریاٹہ میں پنجاب ٹورازم کارپوریشن کا ایک ریستوران ہے، یہ ریستوران چیئرلفٹس کے ٹکٹ گھر کے بالکل سامنے ہے اور یہ خاصا کامیاب اور مصروف ہوتا ہے، پنجاب ٹورازم نے یہ ریستوران ٹھیکے پر دے رکھا ہے، یہ اب کسی ٹھیکیدار کے پاس ہے لیکن اس کے ماتھے پر پنجاب ٹورازم کارپوریشن کا لوگو اور بورڈ لگا ہے، میں نے وہاں چائے پی، بل منگوایا، بل پے کر دیا، میں اٹھنے لگا تومیری نظر بل پر پڑ گئی، بل کے نیچے لکھا تھا سروس چارجز 20 فیصد، مجھے یہ چارجز بہت دلچسپ محسوس ہوئے، میں نے بیرے کو بلایا، اس سے سروس چارجز کے بارے میں پوچھا تو ہولناک انکشاف ہوا، پتہ چلا ٹھیکیدار ریستوران میں کام کرنے والے کسی ملازم کو تنخواہ نہیں دیتا، گارڈ سے لے کر کک تک تمام لوگ تنخواہ کے بغیر کام کرتے ہیں۔

یہ ملازمین ہر بل پر 20 فیصد چارجز وصول کرتے ہیں، یہ لوگ یہ رقم الگ کرتے جاتے ہیں اور شام کو یہ رقم آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں، یہ انکشاف میرے لیے نیا تھا، میں کاؤنٹر پر گیا، کاؤنٹر پر کھڑے منیجر سے پوچھا اس نے بھی تصدیق کر دی، میں نے دو تین ویٹرز سے پوچھا، ان سے بھی تصدیق ہوگئی، ریستوران میں تین چار بچے بھی کام کر رہے تھے، یہ بچے غربت کی وجہ سے ریستوران میں اپنا بچپن اور تعلیم حاصل کرنے کا زمانہ ضایع کر رہے تھے، بچوں نے بھی تصدیق کر دی، یہ معمولی سا واقعہ ہمارے ملک میں مزدور کی اوقات اور اس بے چارے کے ساتھ ہونے والے سلوک کا ثبوت ہے، یہ ثابت کرتا ہے ہمارا معاشرہ کس قدر سنگ دل اور لاقانونیت کا شکار ہے۔

آپ غور کیجیے جس ملک میں حکومت کے نام پر چلنے والے اداروں میں"بانڈڈ لیبر" ہو، جس میں پنجاب ٹورازم کارپوریشن کے بینر تلے چلنے والے ریستورانوں اور ہوٹلز میں ملازمین کو تنخواہیں نہ دی جاتی ہوں اور ملازمین سروس چارجز کے نام پر گاہکوں سے بیس فیصد اضافی بل وصول کر رہے ہوں اور یہ 20 فیصد ان کا کل نان نفقہ ہوں تو آپ پرائیویٹ شعبہ کی اخلاقیات کا اندازہ خود لگا لیجیے، آپ اس سے فیصلہ کر لیجیے ہمارے غیر سرکاری اداروں میں ملازمین کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا، سیٹھ لوگ مزدور پر کتنا ظلم کرتے ہوں گے؟ دوسرا حکومت اگر اپنے بینر تلے چلنے والے اداروں میں اپنی رٹ نافذ نہیں کر پا رہی تو پرائیویٹ ادارے اس کی کیا سنیں گے، یہ حکومت کے قوانین پر کتنا عمل کریں گے؟ آپ یہ ذہن میں رکھیں ہمارے ملک میں آج بھی چھ کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

ملک میں چھ کروڑ20لاکھ مزدور بھی ہیں، حکومت نے پچھلے بجٹ میں ملک میں کم سے کم اجرت 14ہزار روپے طے کی تھی، یہ رقم موجودہ مہنگائی کے تناظر میں انتہائی کم ہے، آپ ملک کے بڑے سے بڑے اکانومسٹ کو بٹھائیے، اس کے ہاتھ میں کاغذ اور قلم دیجیے اور اسے 14 ہزار روپے میں ایک چھوٹے خاندان کا ماہانہ بجٹ بنانے کا چیلنج دیجیے، مجھے یقین ہے وہ چار پانچ لوگوں کے خاندان کا بجٹ نہیں بنا سکے گا، یہ ایک المیہ ہے، آپ دوسرا المیہ ملاحظہ کیجیے ملک میں کسی جگہ، کسی شعبے میں کم سے کم اجرت کے اس قانون پر بھی عمل نہیں ہو رہا، آپ پاکستان کے کسی شہر میں جا کر تحقیق کر لیں آپ کو اس شہر میں ہزاروں لوگ کم سے کم اجرت سے بھی کم تنخواہ پر کام کرتے ملیں گے، حکومتیں اس صورتحال سے واقف ہیں لیکن یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی معاملات کی درستی کے لیے کوشش نہیں کر رہیں، یہ چاہیں بھی تو کچھ نہیں کر سکتیں، کیوں؟ کیونکہ ملک میں جب حکومتی سرپرستی میں چلنے والے اداروں کی حالت یہ ہوگی، حکومت اگر وہاں اپنی رٹ پر عمل نہ کرا پا رہی ہو تو آپ باقی شعبوں میں حکومتی رٹ کا اندازہ آسانی سے کر سکتے ہیں۔

دنیا کے ہر شعبے کے ورکرز کے لیے دو چیزیں بہت اہم ہوتی ہیں، ضرورت کے مطابق تنخواہ اور پانچ سال بعد جدید ٹریننگ، کیا ہمارے ملک کے مزدوروں اور کارکنوں کو یہ دونوں سہولتیں حاصل ہیں؟ جی نہیں، ہم ملک میں آج تک کم سے کم اجرت کا قانون نافذ کرا سکے ہیں اور نہ ہی ورکرز کی ٹریننگ کا بندوبست کر سکے، ہم ٹاپ پر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بٹھا دیتے ہیں لیکن نیچے جہاں کام ہوتا ہے وہاں غیرتربیت یافتہ ان پڑھ لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، ہمارا انجینئر فارن کوالیفائیڈ ہوگا لیکن سریا باندھنے اور سیمنٹ بجری مکس کرنے والا ان پڑھ، ان ٹرینڈ اور انڈر پیڈ چنانچہ آپ کو اربوں کھربوں روپے کے منصوبوں میں بھی نقص نظر آتے ہیں، ہم جب تک ان دونوں ایشوز پر توجہ نہیں دیں گے، ہم ترقی نہیں کر سکیں گے۔

ہمارے ملک میں 70سال سے یوم مئی آ رہے ہیں، ہم 70سال سے یوم مئی منا بھی رہے ہیں اور حکومتی عہدیدار 70برسوں سے اس دن کی مناسبت سے تقریریں بھی کر رہے ہیں لیکن مزدور آج بھی وہیں پڑے ہیں جہاں یہ 70 سال پہلے تھے، ہمارے ملک میں ان کی حالت نہیں بدلی، ہماری موجودہ حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے، یہ اگر واقعی ان کی حالت بدلنا چاہتی ہے تو پھر اسے صرف دو کام کرنا ہوں گے، ملک کے لاکھوں مزدور جھولی اٹھا کر ان کے لیے دعا کریں گے، حکومت سب سے پہلے کم سے کم اجرت کو پورے ملک میں پوری اسپرٹ کے ساتھ نافذ کر دے، حکومت اس کا آغاز پنجاب سے کرے اور سرکاری اداروں سے کرے، آپ پہلے پنجاب ٹورازم کارپوریشن کے ٹھیکے پر دیے ریستورانوں اور ہوٹلوں کا معائنہ کریں، آپ وہاں کام کرنے والے تمام ورکروں کو قانون کے دائرے میں لے کر آئیں۔

آپ پھر یہ قانون ٹھیکے اور لیز پر چلنے والے تمام حکومتی اداروں میں نافذ کر دیں اور آپ اس کے بعد حکومتی ٹھیکے لینے والی تمام پرائیویٹ کمپنیوں کو پابند کر دیں یہ اگر کسی شخص کو کم سے کم اجرت سے کم تنخواہ دیں گے یا یہ مزدور کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ نہیں کریں گے یا یہ اسے قانون کے مطابق سہولتیں نہیں دیں گے تو کمپنی "ڈس کوالی فائی" ہو جائے گی، یہ اس کے بعد حکومت کا کوئی ٹھیکہ نہیں لے سکے گی، آپ ڈس کوالی فکیشن سے قبل بھاری جرمانے کی سزا بھی تجویز کر سکتے ہیں، آپ اس کے بعد تمام سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کے لیے ٹریننگ کورسز لازمی قرار دے دیں، تمام اداروں کو پانچ سال بعد ملازمین کو تربیتی کورسز کرانے کا پابند بھی کیا جائے، آپ ملک میں یہ دو قوانین نافذ کر دیں اور ان پر مکمل عمل کرا دیں، آپ کو دس برس میں ملک میں واضح تبدیلی نظر آ جائے گی، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ یورپ اور امریکا کی مثال لے لیں۔

، یورپ اور امریکا میں ان دونوں قوانین پر سختی سے عمل ہوتا ہے، ان ملکوں میں تنخواہ کے بغیر ملازم رکھنا تو دور کوئی شخص اورکوئی ادارہ کسی شخص کو کم سے کم اجرت سے کم تنخواہ پر ملازم رکھنے کا تصور نہیں کر سکتا اور وہاں کوئی کمپنی، کوئی ادارہ اگر ملازمین کو ٹریننگ کی سہولت نہ دے تو وہ ادارہ بھی بند ہو جاتا ہے، ترقی یافتہ معاشروں میں ہمیشہ ورکرز ٹرینڈ لیے جاتے ہیں، آپ نے اگر کوئی کورس نہیں کیا یا آپ نئی ٹیکنالوجی سے متعارف نہیں ہیں تو پھر آپ کا کہیں ٹھکانہ نہیں، آپ ملازمت کے بغیر زندگی گزاریں گے۔ ہم ہر بار یکم مئی پر مزدوروں کے لیے تقریر کر دیتے ہیں اور بس ہمیں اب تقریروں سے آگے بڑھنا ہوگا، ہمیں اب مزدوروں کے لیے کچھ کرنا ہوگا اور یہ کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے، میاں شہبازشریف اور چوہدری نثار دونوں یہ کام بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Zara Bhoolna Seekhen

By Javed Ayaz Khan