Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Teen Mah

Teen Mah

تین ماہ

آپ کو حقائق جاننے کے لیے دو مختلف واقعات کا تجزیہ کرنا ہوگا، پہلا واقعہ 2014ء کے اگست میں پیش آیا، آپ کو یاد ہوگا، عمران خان اور علامہ طاہر القادری لاہور سے نکلے اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے خیمہ زن ہو گئے، یہ کرینیں ساتھ لائے تھے، ان لوگوں نے ایوان صدر کا گیٹ بھی توڑ دیا، پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں بھی داخل ہو گئے، وزیراعظم ہاؤس کے راستے پر بھی قابض ہو گئے۔

یہ پی ٹی وی کی عمارت میں بھی داخل ہو گئے اور یہ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو سرِ عام ڈنڈے بھی مارنے لگے، وہ دھرنا 126 دن جاری رہا، اس دوران کار سرکار معطل رہا، شاہراہ دستور ٹریفک کے لیے بند رہی، سپریم کورٹ کی دیواروں پر گندی شلواریں لٹکتی رہیں اور ریڈ زون خیمہ بستی بنی رہی لیکن حکومت بدترین ہزیمت کے باوجود مظاہرین کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کر سکی، یہ لوگ وفاقی دارالحکومت میں دندناتے رہے، وہ ایک عجیب وقت تھا۔

آئی جی سرینا ہوٹل میں بیٹھ جاتا تھا اور وزیر داخلہ کے احکامات ماننے سے انکار کر دیتا تھا، ایس ایس پی اپنی فورس کو مظاہرین میں چھوڑ کر موبائل فون بند کرتا تھا اور گاؤں چلا جاتا تھا اور حکومت نئے افسر تلاش کرتی تھی تو اسے اسلام آباد کے لیے آئی جی اور ایس ایس پی نہیں ملتا تھا، حکومت نے وہ وقت بڑی بے بسی میں گزارا، آپ اب دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ کیجیے، عمران خان نے دو نومبر کو اسلام آباد کو "لاک ڈاؤن" کرنا تھا، پورے ملک سے قافلے آنا تھے لیکن حکومت نے یہ لاک ڈاؤن راستے ہی میں اڑا دیا۔

پولیس نے اکتوبر کے آخر میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکن گرفتار کر لیے، بنی گالہ پولیس کے قبضے میں چلا گیا، اسلام آباد کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا اور پرویز خٹک قافلہ لے کر نکلے تو پولیس نے برہان انٹر چینج بند کرکے خوفناک شیلنگ کی اور یوں تین دن میں لاک ڈاؤن کا خواب چکنا چور ہوگیا، دھرنا جلسے میں تبدیل ہوا، سات ٹیلی ویژن چینلز میں تعزیتی ریفرنس منعقد ہوئے اور بات ختم ہوگئی۔

حکومت 2014ء میں اتنی کمزور کیوں تھی اور یہ 2016ء میں مضبوط کیسے ہوگئی؟ ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا ہماری جمہوری حکومتیں اور ہمارے جمہوری وزیراعظم اپنی مدت اقتدار میں صرف تین ماہ بااختیار ہوتے ہیں، ملک کے تمام ادارے صرف ان تین مہینوں میں وزیراعظم کے کنٹرول میں آتے ہیں، یہ تین ماہ کون سے ہیں؟ یہ تین ماہ ڈیڑھ ڈیڑھ مہینے کے سیٹ ہیں، پہلا ڈیڑھ ماہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے چھ ہفتے قبل اسٹارٹ ہوتا ہے۔

آرمی چیف جوں ہی اپنے ساتھیوں، اپنی کورز اور اپنے ماتحت اداروں سے الوداعی ملاقاتیں شروع کرتا ہے، اقتدار کی نظریں وزیراعظم ہاؤس کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں، پورا ملک وزیراعظم کو باس مان لیتا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ ہمارے خطے کی تاریخ ہے، انگریز نے ہندوستان میں باقاعدہ فوج 1895ء میں بنائی تھی، یہ فوج برصغیر میں انگریز راج کی ضامن تھی چنانچہ اسے وسیع اختیارات، مراعات اور استثنیٰ حاصل تھا۔

ہندوستان کا کوئی سرکاری محکمہ بڑے سے بڑے جرم پر بھی کسی فوجی کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا، فوجی اہلکار قانون اور ضابطے سے بالاتر ہوتے تھے، ہندوستان کی کوئی عدالت ان کے خلاف مقدمہ نہیں سن سکتی تھی، یہ لوگ سروس کے دوران سگریٹ، چائے اور گھی آدھی قیمت پر حاصل کرتے تھے اور انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد زرخیز زمینیں الاٹ ہوجاتی تھیں، حکومتی عہدیدار ان کی قبروں کو بھی سلام کرتے تھے۔

یہ مراعات انگریز فوج کو ہر سال نیا خون فراہم کرتی تھیں، لوگ فوج کی نوکری کو اعزاز سمجھتے تھے، اس اعزاز نے باقی اداروں کو فوج کی نفسیاتی ماتحتی میں دے دیا، یہ ماتحتی آج تک چل رہی ہے، قیام پاکستان کے بعد ملک میں چار مارشل لاء لگے، ان مارشل لاؤں نے ریاست کے سول اداروں کو مستقلاً فوج کا ماتحت بنادیا چنانچہ حکومت کوئی بھی ہو اور محکمہ کوئی سا بھی ہو ملک میں آرمی چیف کو وزیراعظم پر فوقیت دی جاتی ہے۔

سرکاری محکمے احکامات جاری کرنے سے قبل ہمیشہ جی ایچ کیو کی طرف دیکھتے ہیں، ہمارے اکثر سرکاری ادارے حکومت کے خلاف کارروائی پر آرمی چیف کی خاموشی کو رضا مندی سمجھتے ہیں، یہ صورتحال آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے چھ ہفتے پہلے تک جاری رہتی ہے، فوج کا قائد جوں ہی الوداعی ملاقاتیں شروع کرتا ہے، ہمارے تمام سرکاری ادارے وزیراعظم کی طرف دیکھنے لگتے ہیں، یہ ان کے ہر حکم کو اہمیت دینے لگتے ہیں۔

دوسرا دورانیہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد شروع ہوتا ہے، فوج کا نیا چیف اپنی ٹیم کے انتخاب میں مصروف ہوجاتا ہے، یہ جی ایچ کیو میں اپنی مرضی کی ٹیم لاتا ہے، کور کمانڈرز تبدیل کرتا ہے، یہ بریفنگز لیتا ہے اور یہ ملک کی تمام چھاؤنیوں کے دورے کرتا ہے، آرمی چیف کو اس کام میں عموماً چھ ہفتے لگ جاتے ہیں، یہ ان چھ ہفتوں کے دوران سول اداروں کے سول ایشوز پر توجہ نہیں دے پاتا چنانچہ حکومت کو کھل کر اپنے اختیارات استعمال کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وزیراعظم عموماً اس سنہری وقت کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔

ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے عمران خان اور علامہ طاہر القادری 2014ء کے دھرنے میں سول اداروں کو یہ پیغام دیتے رہے تھے، ایمپائر ہمارے ساتھ ہے اور یہ کسی بھی وقت انگلی اٹھا کر میاں نواز شریف کو آؤٹ کر دے گا، سرکاری ادارے بالخصوص پولیس اس پیغام کو حقیقت سمجھ بیٹھی اور اس نے حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا، کیوں؟ کیونکہ سول ادارے حکومت اور فوج کے درمیان موجود سرد مہری سے واقف تھے، یہ جانتے تھے۔

فوج محمود خان اچکزئی کے کابل کے دوروں، افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ ملاقاتوں اور نریندر مودی اور میاں نواز شریف کے درمیان غیرسرکاری رابطوں کی وجہ سے حکومت سے ناراض ہے، بیوروکریٹس اس ناراضی سے واقف تھے، یہ لوگ یہ بھی جانتے تھے سول حکومت خواہ کتنا ہی بڑا مینڈیٹ کیوں نہ لے آئے، یہ دو فوجی ٹرکوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی چنانچہ بیورو کریسی اپنا قبلہ بدل کر بیٹھ گئی اور حکومت 2014ء کے دھرنے کو بے بسی سے دیکھنے پرمجبور ہوگئی، بیورو کریسی کا یہ خیال بعد ازاں غلط نکلا، جنرل راحیل شریف سچے اور سیدھے فوجی ثابت ہوئے۔

وقت نے یہ بھی ثابت کر دیا عمران خان کے ایمپائر جنرل راحیل شریف نہیں تھے، یہ صورتحال اکتوبر نومبر 2016ء میں دوبارہ پیش آئی، عمران خان دھرنا پلس کے لیے نکل آئے، نومبر کا مہینہ بھی سیاسی نقطہ نظر سے اہم تھا، جنرل راحیل شریف تین برسوں میں ہیرو بن کر ابھرے تھے، ملک میں دہشت گردی بھی کنٹرول ہوگئی، کراچی میں امن بھی قائم ہوگیا، ایم کیو ایم الطاف بھی ایم کیو ایم پاکستان بن گئی، پاک چین اقتصادی راہداری پر ٹرک بھی چل پڑے، افغانستان اور بھارت کو دو ٹوک جواب بھی مل گیا۔

جنرل راحیل شریف نے فوج کے اندر بھی تطہیر شروع کر دی، کرپشن کے الزام میں لیفٹیننٹ جنرل، میجر جنرل، بریگیڈیئر اور کرنل لیول کے افسر فوج سے فارغ ہونے لگے اور ان سے اربوں روپے بھی ریکور کر لیے گئے، نیشنل ایکشن پلان بھی شروع ہوا، صوبائی حکومتوں پر بھی دباؤ آیا اور فوج نے پارلیمنٹ سے نئی قانون سازی بھی کرائی، ان تمام تبدیلیوں نے جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کو انتہا تک پہنچا دیا اور ملک میں ایک ایسا وقت آگیا جب حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی تھی توملک میں"جنرل راحیل شریف تیری عظمت کوسلام" کے نعرے لگنے لگتے تھے۔

عوام کی طرف سے جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے یا ان کی مدت ملازمت میں اضافے کے مطالبات بھی سامنے آنے لگے، یہ تجویز بھی سامنے آئی، حکومت پوری فوج کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں دو سال اضافہ کر دے تا کہ جنرل راحیل شریف کو مزیددو سال کام کرنے کا موقع مل جائے، یہ اپنے جاری منصوبے مکمل کر سکیں، پاکستان تحریک انصاف نے جنرل راحیل شریف کی اس مقبولیت کا سیاسی فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا چنانچہ عین اس وقت دھرنا پلس ڈیزائن کیا گیا جب جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں 6 ہفتے باقی تھے۔

یہ لوگ اس بار بھی یہ تاثر دیتے رہے فوج ہمارے ساتھ ہے لیکن حکومت اصل حقائق سے واقف تھی، یہ جانتی تھی جنرل راحیل شریف کسی قیمت پر ایکسٹینشن نہیں لیں گے، یہ وقت پر ریٹائر ہو جائیں گے اور فوجی حلقے عمران خان کو پسند نہیں کرتے، یہ راز بیورو کریسی کو بھی معلوم تھا چنانچہ جب حکومت نے دھرنا روکنے کا فیصلہ کیا تو وہ پولیس جس کی کمان سنبھالنے کے لیے 2014ء میں کوئی افسر تیار نہیں تھا اس نے آنسو گیس سے مظاہرین کے پھیپھڑے پولے کر دیے، میڈیا کے جعلی ڈاکٹر چیختے رہ گئے لیکن حکومت نے دو دن میں دھرنا لپیٹ کر رکھ دیا۔

حکومت کا اگلا ڈیڑھ ماہ یکم دسمبر سے شروع ہوگا، حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر یہ ڈیڑھ ماہ خوب استعمال کرے گی، یہ 15 جنوری تک بڑے فیصلے کر لے گی، آئین میں نئی ترامیم بھی متعارف کرائی جائیں گی اور نئے ادارے بھی بنائے جائیں گے، حکومت نے اگر 15 جنوری تک یہ فیصلے کر لیے تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت میں یہ وقت واپس نہیں آئے گا، مارچ سے دوبارہ بحران شروع ہو جائیں گے اور وہ بحران الیکشنوں تک جاری رہیں گے، حکومت کو سانس لینے کا موقع نہیں ملے گاچنانچہ میاں نواز شریف کی پارٹی اب شروع ہوتی ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Google, Facebook Aur Eman Bil Ghaib

By Basharat Hamid