Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Dil Ne Hama Ray Baithe Baithe Kaisay Kaisay Rog Lagaye

Dil Ne Hama Ray Baithe Baithe Kaisay Kaisay Rog Lagaye

دل نے ہمارے بیٹھے بیٹھے کیسے کیسے روگ لگائے

شمال کے پہاڑوں پر بہار کی آمد آمد ہے۔ چیری، آڑو اور بادام کے گُل کھِلا چاہتے ہیں۔ کچھ دنوں میں شمالی وادیوں میں بوٹے پھولوں سے لَد جائیں گے۔ میں دفتر و گھر کے چکروں کا قیدی ہوں چکا ہوں۔ کبھی وہ دن بھی تھے جب دل چاہتا چھٹیاں لے کر نکل جاتا۔ اب عمر گزرنے کے ساتھ پاؤں کی زنجیر سخت ہو رہی ہے۔

اپریل میں رُت بدلتی ہے۔ پہاڑوں پر سورج کی حدت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ برفیں پگھلنا چاہتی ہیں۔ کھیتوں کو تیار کرنے کا موسم آیا چاہتا ہے۔ یہ بہار ہے۔ پھلدار پیڑوں کی شاخیں پھولوں کے بوجھ سے جھُکی رہتی ہیں۔ سخت سرما گذار کر شمال کے لوگ دھوپ سینکتے ہیں۔ گلیوں میں رونق رہا کرتی ہے۔ چیری، خوبانی، بادام اور سیب کے درخت ڈیکوریشن پیس سے بن جاتے ہیں۔ شمال میں بہار موسم زندگی کی علامت ہے۔

ہر روز منظر بدلتا ہے۔ وہی گلی ہوگی مگر ہر روز نیا نظارہ دکھائے گی۔ کبھی دھوپ چھاؤں کے کھیل میں لوگ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں تو کبھی کن من لگ جاتی ہے۔ ہر صبح نیا پیڑ دِکھتا ہے۔ کبھی وہ اپنی کلیوں کی پوشاک اوڑھتا ہے تو کسی دن اچانک پھول پہن لیتا ہے۔

خزاں ہو کہ بہار۔ یہ چند دن کے مہمان موسم ہیں۔ میں نے جانا تو یہ جانا کہ ہوا ہی ابدی حقیقت ہے۔ کہتے ہیں عالمِ بالا میں ایک بہت پھیلاؤ والا گھنا درخت ہے جس پر ہمیشہ ایک ہی وقت میں خزاں اور بہار چھائی رہتی ہے، جب تیز ہوا کے جھونکے آتے ہیں تو کچھ پیلی مُرجھائی پتیاں ٹوٹ کر گر جاتی ہیں اور اسی طرح نیچے دنیا میں، جہاں فنا کو قیام ہے، فانی انسان مرتے رہتے ہیں۔۔ مجھے تو ہوا کی آواز میں موت کی ندا سنائی دیتی ہے۔ جو عالمِ بالا میں پکار پکار کر ہمارے ناموں کے پتے گراتی رہتی ہے۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام جدائیوں، محبتوں اور شکستوں میں ہوا کا ہاتھ ہے۔۔ ہوا کا سدا بول بالا رہے

ہوا ہی خوشبوؤں اور سُروں کو پھیلاتی اور مٹاتی ہے۔۔ ہوا میں ہی نوحے اور زخم خوردگی کی ایسی کیفیت ہے جو تمام انسانی دُکھوں سے ماورا ہے۔۔ پورے چاند کی رات میں جب چاند بھی اُفق پر گرتا ہوا محسوس ہوتا ہے ہوا بادلوں کے ٹکرے دھکیلتی پھرتی، چاند کو ڈھانپتی کھولتی رہتی ہے۔۔ اندھیرے اُجالے کے کھیل کے پیچھے بھی اسی کا ہاتھ ہے۔۔ نہ تم حقیقت ہو نہ میں۔۔ حقیقت صرف ہوا ہے جو ابتدا سے سفر میں ہے اور انتہا تک جس کا جھونکا سفر کرتا رہے گا۔۔

مجھے سنہ 2009 کا وہ سال یاد آ رہا۔ چار دنوں سے بارش مسلسل برس رہی تھی۔ ہنزہ میں بہار کا موسم بہہ گیا تھا۔ چیری، سیب، آڑو سمیت سب پودوں کے پھول تیز دھار قطروں نے شہید کر دیئے تھے۔ سڑکوں پر پانی ڈھلوانوں سے بہتا تھا۔ کرنے کو کچھ نہیں تھا صرف بارش اور بارش اور فرصت۔ ہوٹل کے کمرے میں کبھی سڑکوں پر بھیگتے ہوئے دن گزر رہے تھے۔ کریم آباد سے اُتر کر بارش میں بھیگتا میں علی آباد کے بازار میں آ گیا تھا۔ ناٹکو کے اڈے کے سامنے واقع ایک چھوٹے سے چائے کے ہوٹل میں جا کر بیٹھ گیا۔ باہر بارش برسی جا رہی تھی اور ہوٹل کے شیشے سے دھندلی سی راکاپوشی کی چوٹی نظر آ رہی تھی۔ بیٹھے بیٹھے میں پتہ نہیں کتنے چائے کے کپ پی گیا تھا۔

ہوٹل میں رش لگ گیا تھا۔ سبھی مقامی لوگ چائے پینے بیٹھے تھے۔ پہاڑوں میں لوک داستانیں بڑی مشہور ہوتی ہیں اور لوگ بھی عقیدت سے ان پر یقین رکھتے اور سناتے ہیں۔ ایک بھیگے ہوئے بابا جی میرے سامنے آ کر بیٹھ گئے۔ بارش پر بات شروع ہوئی تو بولے پہاڑی لوگوں کا خیال ہے کہ اونچے پہاڑوں پر درختوں میں کُرلا کُرلی (ایک پرندے کا نام) انہیں برساتوں میں انڈے دیتے ہیں۔ کُرلا کُرلی کو کسی انسان نے نہیں دیکھا کچھ لوگ بیان کرتے ہیں کہ ان کے پر سفید اور چونچ لال ہوتی ہے۔ مجھے یہ پرندے بھی عنقا کی طرح افسانوی معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے داستان جاری رکھی۔ جب انڈے دے دئے جاتے ہیں تو کُرلی کا جسم اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ مسلسل سات دن کی بارش میں نہا کر نارمل ہوتا ہے۔ پہلے سات دن کُڑلی انڈوں پر بیٹھتی ہے اور کُرلا بارش میں بھیگتے ہوئے دانہ تلاش کرتا ہے پھر جھڑی ٹوٹ جاتی ہے اور جب کُرلی گھونسلے سے باہر نکلتی ہے بارش پھر سے ہونے لگتی ہے۔

گھر میں بیٹھے ان دنوں کی یاد کا دفتر کھُلے تو کیسے کیسے لوگ اور مناظر ذہن کے پردے پر ٹائم لیپس فلم بن کر چلنے لگتے ہیں۔ منظر کی موت اگلے ہی لمحے ہو جاتی ہے۔ کئیں لوگ رزق خاک ہو چکے۔ کئیں یادوں سے اوجھل ہو چکے۔ صرف وادیوں میں بہتی ہوا ہی ابدی حقیقت ہے۔ باقی ہم تم تو افسانے ہیں۔ کئیں بھولے بسرے نام چہروں کے ساتھ دھیان میں آئیں تو آنکھ ڈبڈبا جاتی ہے۔

دل نے ہمارے بیٹھے بیٹھے کیسے کیسے روگ لگائے

تُم نے کسی کا نام لیا اور اپنی آنکھ میں آنسو آئے

Check Also

Nasri Nazm Badnam To Hogi

By Arshad Meraj