Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sondas Jameel/
  4. Jahangir Tareen Ki Wajah e Shohrat

Jahangir Tareen Ki Wajah e Shohrat

جہانگیر ترین کی وجہ شہرت

کامیاب کردار متنازع ہوتے ہیں یا بن جاتے ہیں، کوئی بھی کامیاب شخص کسی متنازعے سے پاک نہیں رہا، پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں سیاست، کرکٹ، مذہب، بزنس ٹائیکون حتیٰ کہ کسی بھی شعبے کی سب سے بلند چوٹی پر پہنچے کردار پر کرپشن، ہٹ دھرمی اور مالی خرد برد کے الزامات ہیں، جہانگیر ترین اسی چوٹی پر پہنچا ایک کوہ پیما ہے۔ جہانگیر ترین کی وجہ شہرت ایک سے زائد اور زائد سے بھی تجاوز کیے ہوئے ہے، بہت سوں کے لیے جہانگیر ترین کا پہلا حوالہ ہر لحاظ سے مختلف ہوگا، میرے لیے جہانگیر ترین بطور زرعی کسان پہلا مستند اور دلچسپ حوالہ ہے۔

ناچیز کو جہانگیر ترین کے زرعی فارم پر بطور پروفیشنل کام کرنے کا موقع ملا۔ ترین کی بنائی زرعی سلطنت کتنے ایکٹر پر محیط ہے اسکے اعداد و شمار میں اگر میں یہ کہوں کہ اس کا درست فگر صرف جہانگیر ترین اور اسکے بیٹے کو ہی معلوم ہے تو یہ غلط نہ ہوگا، یہ نمبر اتنا پوشیدہ ہے۔ جہانگیر ترین نے عدالت میں ڈکلیئر زرعی زمین چھیاسی فارم ہاؤس پر پھیلی اٹھارہ ہزار ایکڑ جس میں سات سو چھ ایکڑ ذاتی اور باقی زمین ٹھیکے پر لی گئی ہوئی لکھوائی، یہ عدالتی نمبر مضحکہ خیز تھا، ترین صاحب اس سے تین گنا زیادہ زمین کے مالک ہیں۔

مجھے ترین صاحب کی سیاسی وابستگی سے کوئی سروکار نہیں، پیسہ کیسے بنایا، صنعت کیسے کھڑی کی، ہر وقت جہاز کیسے ان کے لان میں کھڑا ہوتا، یہ جاننا اپنی فیلڈ ہی نہیں ہے، مجھے ترین کی زمین اور اس زمین پر کیے گئے زرعی تجربات سے لگاؤ ہے، پیسہ و زمین زرداری و شریف کے پاس شاید ترین سے زیادہ ہو مگر اس زمین کے بطن سے محنت، دماغ، لگن اور جنون سے پیسہ بنانا یہ ترین کا کام تھا۔

بنگال میں پیدا ہوا جہانگیر ترین کا باپ ایوب خان کے دور میں پولیس میں ڈی آئی جی تھا، اور زبان زد عام متنازع کردار تھا جو کہ اس دور میں ہر کوئی تھا۔ ترین کو ورثے میں چار سو ایکٹر زرعی اراضی ملی جو باپ کی بنائی ہوئی تھی، احباب چار سو ایکٹر زرعی زمین کا یہ رقبہ خوشحال کسان کی درجہ بندی کو چیرتا ہوا سیٹھ کسان تک جا لگتا ہے، یہ زمین اتنی تھی کہ ترین صاحب ٹھیکے پر دے کر یورپ کے سفر پر نکل سکتے تھے مگر ترین اخیر ترین بننے کا ذہن بنا چکے تھے اور دولت کا پودا باپ کی زرخیز زمین میں لگایا جائے تو بہت جلد پھل دینے لگتا ہے۔

جہانگیر ترین نے باپ کے کھیتوں میں ہل چلانے کا تب سوچا جب امریکہ سے ڈگری لینے کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں سات سو روپے ماہوار لیکچرار شپ چھوڑ کر لاہور کے ایک نامعلوم علاقے کی بیسمنٹ میں چلتے ایک بنک میں نوکری کرنے لگے یہاں سے ترین کے اندر اپنی تلاش اور زندگی میں پیشن فالو کرنے والا انڈرٹیکر تابوت سے باہر آ نکلا، نوکری چھوڑ باپ کی زمینوں پر آ گئے، کاشت کاری میں ہاتھ ڈالا۔

مٹی، ہوا، پانی، پیڑ پودے اور فصل کی بجائی سے رکھوالی کٹائی اور منڈی تک رسائی سفید لباس زیب تن کیے علاقے میں چودھراہٹ یہ سلسلہ دلچسپ اور منافع بخش لگا تو کون پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے یہ زرعی زمین کے سینے سے نکلتی آسودگی ترین کو بھا گئی اور یہاں سے اس آسودگی کو مزید کشید کرنے کی تگ و دو شروع ہوئی۔

جہانگیر ترین کے پاس بزنس ایڈمنسٹریشن کی امریکن ڈگری تھی، ذہن کشادہ تھا، دماغ میں خیالات کی رونق تھی، جدت اور وقت کے تقاضوں کو سمجھا اور قدیم زراعت کے مفلوج ہو چکے دقیانوسی طریقوں کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا، زراعت کے ماڈرن بانی آسٹریلیا کا رخ کیا، اس سفر میں اپنے ساتھ آسٹریلیا کے زرعی ماہرین سے جدید آبپاشی، امریکہ کی سیڈ کمپنی مونسنٹو سے بیج اور بہت سی ہمت اور حوصلہ لا کر یہ سب تجربات اپنی زمینوں پر کرنے شروع کیے۔

زراعت میں منشی سسٹم کو نکالا، زمین کے ہر فی انچ پر جدید سنسر لگائے گئے جو بیج پھوٹنے سے پہلے اس کی ضروریات اور پیداوار کا حساب سامنے لے آتے، فصل کو سیراب کرنے کے لیے ڈرپ آبپاشی جیسی کفایت شعار تکنیک فصلوں میں بچھائی گئی جو فلڈ آبپاشی جیسے پانی وقت اور محنت کے ضیاع سے ہٹ کر پانی کی ایک بوند اضافی نہ لیتی اور ایک بٹن سے ایکٹروں کے ایکٹر زمین سیراب کر دیتی۔ یہ سب کام جہانگیر ترین نے اس وقت کیے جب کوئی کاشتکار ان زرعی طریقوں کو ماننے سے نہ صرف انکاری تھا بلکہ ٹھٹے اڑایا کرتا تھا۔

جہانگیر ترین نے فصل سے فصل زمین سے زمین بنانے کا سلسلہ جاری رکھا، جنوبی پنجاب کے علاقوں رحیم یار خان اور لودھراں میں جہاں کوئی زمین بیچنے کا سوچتا جہانگیر ترین پہلے پہلے گاہکوں میں ہوتا، زرعی پیداوار کا ایک اصول ہے کہ اگر زمین رقبے میں زیادہ ہو تو فی پودے پر کھاد پانی ادویات کی لاگت کم ہو جاتی ہے، یہ بات جہانگیر ترین بخوبی جانتا تھا اور اس پر عمل پیرا تھا۔

وہ پنجاب کی ان زمینوں پر ہل چلا رہا تھا جہاں سے پنجاب کی کل زراعت کا بیس فیصد سالانہ آتا تھا وہ مالا مال ہوتا گیا، اس نے زراعت کی کمائی سے صنعت کھڑی کی، جس بھی بزنس میں ہاتھ ڈالا جا سکتا تھا ڈالا، وہ اکیلا نہیں تھا پوری ٹیم ساتھ تھی، ٹیم بھی غیر ملکی جو صرف اسے نشاندھی کرتی تھی، نفع نقصان کا گراف بنا کر دیتی تھی ترین راہ ہموار کرتا اور بازی لگاتا اور نتیجہ سب کے سامنے ہوتا۔

ترین کو اسٹبلشمنٹ کا سب سے مضبوط بھروسہ مند اور چہیتا انسان مانا جاتا ہے، مانا بھی کیوں نہ جائے ترین زراعت کے ساتھ قانون، سیاسی فلسفہ و مفاہمت بات چیت کا جادو اور جوڑنے کا فن جانتا ہے، عمران کے ساتھ ugly fight میں عمران نے چینی کے معاملے پر ایک بوگس کیس جہانگیر ترین کے لیے تیار کروایا، عزیزانِ من اس کیس سے ناچیز کو مسئلہ نہیں ہے اس کیس کی صحت قابل رحم تھی، ترین کا اسٹیٹس اس چینی کیس کے شایانِ شان نہیں تھا وہ شاید اس سے کہیں بڑے اور بامعنی کیس میں روندا جاتا تو بات سمجھ آنی تھی مگر وہ اس چینی کے ہنی ٹریپ میں پھنسا اور سیاست سے خارج کر دیا گیا مگر یہ بحث میرا موضوع نہیں میں پہلے واضح کر چکی ہوں۔

بیس سال سے جہانگیر ترین کا کیرئیر ڈبل روڈ پر چل رہا تھا، ایک روڈ پر اس کا ہیلی کاپٹر تھا جس کی سیٹ پر جو بیٹھتا وہ پارلیمنٹ کی سیٹ پر اترتا، اسی روڈ پر نیب اور فیڈرل کی گاڑیاں بھی ترین کے تعاقب میں لگی رہتی، اسی روڈ کی متوازی سمت میں ایک روڈ تھا جس پر ٹریکٹر، ہل بھالے، جدید زرعی مشینری بغیر رکے چل رہی تھی جہانگیر ترین کے اس روڈ کا مطالعہ نہایت دلچسپ ہے کیونکہ یہ روڈ ہر کسی کو نصیب ہو سکتا ہے مگر اس روڈ پر کامیاب سفر بغیر الٹیاں کیے طے کرنا ہر کسی کا کام نہیں۔

Check Also

Muaqaf Ki Talash

By Ali Akbar Natiq