Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Tayeba Zia/
  3. Maut Barhaq Hai

Maut Barhaq Hai

موت برحق ہے

انسان اپنی زندگی میں بہت سے کام محض اپنی لذت یا خواہش کو پورا کرنے کے لیے کرتا ہے، جس کی وجہ سے یا تو اس کا پیسہ برباد ہوتا ہے یا صحت برباد ہوتی ہے، موت کو یاد رکھنے والے کی خواہشات کم ہوتی ہیں اسی کے بارے میں نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کرو۔ (ترمذی)۔

بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی کون سا مومن زیادہ عقل مند ہے؟ ارشاد فرمایا موت کو کثرت سے یاد کرنے اور موت کے بعد کے لیے اچھی تیاری کرنے والے۔ یہی لوگ زیادہ سمجھ دار ہیں۔ (ابن ماجہ) ہر شخص کی جتنی زندگی مقرّر ہے اس میں نہ زیادتی ہو سکتی ہے نہ کمی۔ جب زندگی کا وقت پورا ہو جاتا ہے، اس وقت حضرت عزرائیل عَلَیہِ السَّلَام قبضِ روح کے لیے آتے ہیں۔ اور اس شخص کے دائیں بائیں جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے فرشتے دکھائی دیتے ہیں، مسلمان کے آس پاس رحمت کے فرشتے ہوتے ہیں اور کافر کے دائیں بائیں عذاب کے۔

اس وقت ہر شخص پر اسلام کی حقّانیت آفتاب سے زیادہ روشن ہو جاتی ہے، مگر اس وقت کا ایمان معتبر نہیں، اس لیے کہ حکم ایمان بالغیب کا ہے اور اب غیب نہ رہا، بلکہ یہ چیزیں مشاہد ہوگئیں۔ مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر، بعض کی چاہِ زمزم شریف میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند، اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قندیلوں میں اور بعض کی اعلیٰ عِلّیین میں مگر کہیں ہوں اپنے جسم سے ان کا تعلق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اسے دیکھتے، پہچانتے، اس کی بات سنتے ہیں حدیث میں ہے، کہ "ایک طائر پہلے قفس میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔

آئمہ کرام فرماتے ہیں: بیشک پاک جانیں جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں، عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں۔ " حدیث میں فرمایا: جب مسلما ن مرتا ہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔ " مردہ کلام بھی کرتا ہے اور اس کے کلام کو جن اور انسان کے سوا تمام حیوانات وغیرہ سنتے بھی ہیں۔

جب مردہ کو قبر میں دفن کرتے ہیں، اس وقت اس کو قبر دباتی ہے۔ اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا دبانا ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ماں پیار میں اپنے بچّے کو زور سے چمٹا لیتی ہے اور اگر کافر ہے تو اس کو اِس زور سے دباتی ہے کہ اِدھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی اِدھر ہو جاتی ہیں۔ جب دفن کرنے والے دفن کرکے وہاں سے چلے جاتے ہیں وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے اس وقت اس کے پاس دو فرشتے اپنے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں سوال کرتے ہیں، پہلا سوال"تیرا رب کو ن ہے؟"

دوسرا سوال: "تیرا دین کیا ہے؟" تیسرا سوال"ان کے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟" مسلمان ہے تو پہلے سوال کا جواب دے گا: میرا رب اللہ ہے۔ "اور دوسرے کا جواب دے گا: "میرا دین اسلام ہے۔ "تیسرے سوال کا جواب دے گا"وہ تو رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَسَلَّم ہیں۔ " اس وقت آسمان سے ایک منادی ندا کرے گا کہ میرے بندہ نے سچ کہا، اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھاو، اور جنت کا لباس پہناو اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔

جنت کی نسیم اور خوشبو اس کے پاس آتی رہے گی اور جہاں تک نگاہ پھیلے گی، وہاں تک اس کی قبر کشادہ کردی جائے گی اور اس سے کہا جائے گا کہ تو سوجا۔۔ پہلے اس کے بائیں ہاتھ کی طرف جہنم کی کھڑکی کھولیں گے، جس سے جلن اور گرم ہوا اور سخت بدبو آئے گی پھربند کر دیں گے، اس کے بعد دہنی طرف سے جنت کی کھڑکی کھولیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ اگر تو اِن سوالوں کے صحیح جواب نہ دیتا تو تیرے واسطے وہ تھی اور اب یہ ہے، تاکہ وہ اپنے رب کی نعمت کی قدر جانے کہ کیسی بلائے عظیم سے بچا کر کیسی نعمتِ عظمیٰ عطا فرمائی۔ اگر مردہ منکر ہے تو سب سوالوں کے جواب میں یہ کہے گا: "افسوس! مجھے توکچھ معلوم نہیں۔ "میں لوگوں کو کہتے سنتا تھا، خود بھی کہتا تھا۔

اس وقت ایک پکارنے والا آسمان سے پکارے گا: کہ یہ جھوٹا ہے، اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھاو اور آگ کا لباس پہناو اور جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔ اس کی گرمی اور لپٹ اس کو پہنچے گی اور اس پر عذاب دینے کے لیے دو فرشتے مقرر ہوں گے، جو اندھے اور بہرے ہوں گے، ان کے ساتھ لوہے کاگرز ہوگا کہ پہاڑ پر اگر مارا جائے تو خاک ہو جائے، اس ہتھوڑے سے اس کو مارتے رہیں گے۔

سانپ اور بچھو اسے عذاب پہنچاتے رہیں گے اعمال اپنی مناسب شکل پر متشکل ہو کر کتّا یا بھیڑیا یا اور شکل کے بن کر اس کو ایذا پہنچائیں گے اور نیکوں کے اعمالِ حَسَنہ مقبول و محبوب صورت پر متشکل ہو کر انس دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: موت کو کثرت سے یاد کیا کرو کیونکہ وہ گناہوں کو زائل کرتی اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے۔ سیدنا حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں جس نے موت کی یاد دل میں بسالی تو دنیا کی سار ی مصیبتیں اس پر آسان ہوجائیں گی۔ ایک خاتون نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی بارگاہ میں دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا موت کو کثرت سے یاد کرو تمہارا دل نرم ہوجائے گا۔

Check Also

Sattar Faizi Ki Kahani Bhukhi Kutiya

By Rehmat Aziz Khan