Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Ishtiaq/
  4. Badesi Mujahid, Uncle De Larsten (2)

Badesi Mujahid, Uncle De Larsten (2)

بدیسی مجاہد۔ انکل جان ڈی لارسٹن (2)

"ایک"۔۔

"میں اور ولسن، ایک دوسرے کی طرف پشت کیے مخالف سمت میں آگے بڑھنے لگے"، انکل جان کی آواز میں ارتعاش تھا۔ آتشدان کی روشنی، آرام کرسی پہ کمبل اوڑھے جان پہ پڑ رہی تھی۔

انکل جان، لارسٹن خاندان کے پہلے فرد تھے تو فرانس میں وارد ہوئے۔ ایک سرمایہ دار سکاٹ خاندان کے چشم وچراغ تھے جن کا دماغ روایتی اعدادوشمار کی مہارت کی حدیں پھلانگتا ہوا قسمت کی دیوی کو اپنے اختیار میں کرنے کے جذبے تک پہنچ چکا تھا۔

"دو"۔

"مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی، میں نے قدم بڑھایا۔ لیکن ہر قدم مجھے موت کی طرف لے جا رہا تھا۔ ولسن سے ڈیول کے لیے تیار ہوتے سمے ہی میرے علم میں تھا کہ میں اپنی موت کا فیصلہ کررہا ہوں"، انکل جان کی آواز کپکپا رہی تھی۔

"تین"

"بے بسی، دماغ ماوف، تھوڑا خوف نے بھی گھیرا تھا۔ اگرچہ میرا نشانہ اچھا تھا اور مجھے یقین تھا کہ بیس قدم سے ولسن کی بائیں پسلی کے حصار میں چھید کرنا مشکل نہیں۔ سکاٹ لینڈ میں جب میں تھا تو کزن ولیم کے ساتھ چرچ کے پیچھے، چالیس قدم دور، پتھر سے نشانہ لینے پہ میں ہمیشہ شرط جیت جاتا تھا"۔

"چار"

"مشکل مگر کچھ اور تھی"، انکل جان نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔ "میں نشانہ نہ لے پاتا یا سستی کرتا، تو ولسن کی گولی کا نشانہ بن جاتا۔ جس کا کافی چانس تھا۔ اس لفنگے ولسن نے بلاوجہ اسے چیلنج نہیں کیا تھا، اسے اپنے نشانے پہ یقین تھا"۔

"پانچ"

"اگر میں پھرتی سے ولسن کے سینے میں گولی اتارنے میں کامیاب ہو جاتا تواس کے دوستوں اور ہمدردوں، جن کے درمیان میں گھرا تھا۔ ان کے گولیوں کا نشانہ میں نے بن جانا تھا۔ موت کا خطرہ دونوں صورتوں میں منڈلا رہا تھا "۔

"چھ"

"میں نے آس پاس کا جائزہ لیا۔ معصوم چہرہ ایلزبیتھ ویلئرز جس ٹیبل کو ہاتھ لگا کر کھڑی تھی اس کے پیچھے دیوار پہ ایک کھڑکی تھی۔ جس سے باہر ان انگریزوں کے گھوڑے اور بگھیاں صاف نظر آ رہی تھیں۔ مجھے لگا یہ واحد کھڑکی ہے جو میری زندگی اور موت کے درمیان کھل رہی ہے۔ مجھے اس کھڑکی تک پہنچنا ہے۔ اور ان چند لمحوں میں کسی کی توجہ میری طرف نہیں ہونی چاہیے"۔

"سات"

"مگر یہ کیسے ممکن ہے۔ پورا ہال نخوت اور انگریزوں سے بھرا ہوا تھا۔ اور میں ان کی نفرت اور توجہ کا واحد مرکز تھا۔ وہ میری موت کا منصوبہ بنا چکے تھے۔ مجھے ان سے ایک قدم آگے ہونا تھا"، انکل جان آتشدان کی طرف جھکے، آگ کی روشنی میں ان کا چہرہ بہت عجیب لگ رہا تھا۔ لکڑیوں کو لوہے کے راڈ سے کریدتے ہوئے بولے۔ "میرے مرحوم باپ نے ایک دفعہ کہا تھا جب تمہیں آگے بڑھنے سے کامیابی کا یقین نہ ہو تو پیچھے ہٹ جانے سے کامیابی کا راستہ دیکھنے میں آسانی ہوتی ہے"۔

"میں ان سے دو قدم آگے نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لیے میں نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک قدم پیچھے ہٹنے کا"۔

"آٹھ"

"میں نے سوچ لیا کہ مجھے اپنی جان بچانی ہے۔ اور یہاں سے کہیں دور جانا ہے۔ یہ لوگ میرے نہیں ہیں۔ یہاں میں محفوظ نہیں۔ مجھے ان لوگوں سے دور رہنا ہے"، انکل جان ایک دفعہ پھر کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے بڑبڑا رہے تھے۔

"نو"

"میں تیزی سے مڑا ایک قدم پیچھے ہٹا، مجھے مڑتا دیکھ کر ریفری نے اپنی گن نکال کر میری طرف تانی۔ میں بائیں طرف ہو کر جھکا۔ لوگوں کے شوروغوغا کی وجہ سے ولسن بھی مڑ چکا تھا"۔

انکل جان کرسی پہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ ان کی بھنویں تن گئیں۔ وہ اپنے آپ کو شائد ایک دفعہ پھر اسی ہال میں کھڑا محسوس کر رہے تھے۔

"ڈز"

"ایک ہی وقت میں دو گولیاں چلیں۔ میرا نشانہ کارگر تھا۔ ولسن جھتکے سے ایک قدم پیچھے گرا اور بائیں طرف جھک گیا۔ ریفری کی گولی جہاں میں پہلے کھڑا تھا وہاں سے ہوتی ہوئی ہال کی دیوار میں پیوست ہوئی۔ میں نے وہاں انتظار نہیں کیا۔ دوڑتا ہوا کھڑکی کی طرف گیا اور وہاں سے باہر کود گیا"۔

"آج میں اور میرا خاندان جو کچھ بھی ہے وہ اس فیصلے کی وجہ سے ہے۔ فرانس نے مجھے ماں کی طرح آغوش میں لے لیا۔ ہمیں یہاں وہ عزت ملی جو انگریز ہمیں نہیں دے سکتے تھے۔ ان کے لیے ہم گھٹیا سکاٹ تھے۔ یہاں ہم "نواب" ہیں"۔

انکل اپنی سیٹ سے اٹھے اور جین کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر بولے۔

"یاد رکھنا تم ہندوستان میں اپنے خاندان کے نمائندے ہو۔ ایک دن آئے گا جب ہندوستان پر ہماری ایسٹ انڈیا کمپنی حکومت کر رہی ہوگی۔ میرے بعد تم نے ہی اس کمپنی کو سنبھالنا ہے۔ تم ابھی نوجوان ہو لیکن مجھے تم پہ پورا بھروسہ ہے تم اپنے، اپنے خاندان اور فرانس کے لیے عزت کا باعث بنو گے "۔

***

"جین لاء ڈی لارسٹن" فرانس کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے ہندوستان میں لڑنے آیا تھا۔ یہ اپنے چند وفاداروں کے ساتھ ہندوستانی فوجوں سے ملکر انگریز کے خلاف لڑتا رہا۔ ہندوستانی فوجیوں کی ٹریننگ کرتا رہا۔ اس کا خاندان اس کے انکل جان ڈی لارسٹن کی قیادت سکاٹ لینڈ سے فرانس ہجرت کرکے گیا تھا۔ جین لاء ایک سچا اور بہادر سپاہی تھا۔ جس نے مختلف جنگوں میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا۔ اس کے نام سے منسوب "لازپت" ایک گاوں آج بھی ہندوستان میں موجودہے جو اس کی بہادری اور ہندوستانی کے رہنے والوں کی طرف سے اس سے محبت کا ثبوت ہے۔

****

About Muhammad Ishtiaq

Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Sukhan Kada and many other blogs and websites. He is a cricket addict and runs his own platform Club Info (www.clubinfo.pk) where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

Check Also

Shah e Iran Ke Mahallat

By Javed Chaudhry