Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Ye Dehshat Gardi Ki Jung (1)

Ye Dehshat Gardi Ki Jung (1)

یہ دہشت گردی کی جنگ (1)

یہ جنگ بنیادی طور پر دو جرنیلوں کی مہربانی تھی اور اس مہربانی میں سیاستدانوں کی نالائقی، مفاد پرستی، لالچ اور کم علمی آگ پر تیل ثابت ہوئی، یہ 35 برس پرانی دو ایکٹ پر مبنی کہانی ہے، کہانی کا پہلا ایکٹ 1980ء میں لکھا گیا، جنرل ضیاء الحق ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن چکے تھے، میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو آمروں کی ایک نفسیاتی مجبوری بتاتا چلوں، دنیا بھر کے آمر ناجائز بچے کی طرح ہوتے ہیں، یہ پوری زندگی باپ تلاش کرتے رہتے ہیں اور جنگیں آمروں کا آسان ترین باپ ہوتی ہیں۔

آپ تاریخ کو اس زاویئے سے پڑھئے، آپ حیران رہ جائیں گے، دنیا کی تمام بڑی جنگیں آمروں نے چھیڑیں اور آمروں ہی نے لڑیں، جنگیں عوام اور عالمی برادری کی توجہ بٹانے کا شاندار ترین طریقہ ہوتی ہیں اور آمر ہمیشہ یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں، پاکستان نے چار بڑی جنگیں لڑیں، 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگیں، 1980ء سے 1988ء تک افغان جہاد اور 2001 سے 2010ء تک دہشت گردی کی عالمی جنگ، یہ چاروں جنگیں پاکستان کے آمرانہ ادوار میں لڑی گئیں، کیا یہ حسن اتفاق تھا؟ نہیں، یہ جنگیں آمریت کو قانونی بنانے کی قدیم ترین تکنیک تھیں، آج بھی اگر ملک میں مارشل لاء لگ جائے تو پاکستان پانچویں بڑی جنگ لڑے گا اور یہ جنگ سیکولر اور مذہبی طبقوں کے درمیان ہو گی۔

ہمارا اگلا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اتاترک بن کرمساجد اور مدارس پر پل پڑے گا اور پوری دنیا اس کار خیر میں اسے اسی طرح سپورٹ کرے گی جس طرح اس نے جنرل پرویزمشرف، جنرل ضیاء الحق، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ایوب خان کی مدد کی تھی، آمر دنیا میں ہمیشہ چار بڑے کام کرتے ہیں، یہ کوئی نہ کوئی بڑی جنگ چھیڑتے ہیں، یہ عالمی طاقتوں کو کوئی نہ کوئی ایسی بڑی "فیور" دیتے ہیں جو جمہوری لیڈر نہیں دے سکتے، یہ اپنی سیاسی جماعت بناتے ہیں، اس شاہی جماعت میں ملک کے ان تمام طبقوں کو شامل کر لیتے ہیں جو آمر کے اقتدار کو چیلنج کر سکتے ہیں اور یہ عوام کو آٹے، گھی اور دال سے لے کر بجلی، گیس اور پٹرول میں بے تحاشہ سبسڈیز دیتے ہیں، یہ نوازش ملکی قرضوں میں اضافہ کر دیتی ہے اور آمر جب رخصت ہوتے ہیں تو نئی حکومت کے لیے یہ سبسڈیز جاری رکھنا ممکن نہیں ہوتا، چیزیں اصل قیمت پر آ جاتی ہیں، مفت خوری کے عادی لوگ بلبلا اٹھتے ہیں اور بآواز بلند کہتے ہیں "آمریت اس جمہوریت سے لاکھ درجے بہتر تھی" آپ اس تھیسس کو سامنے رکھئے اور پاکستان کے آمرانہ ادوارکا جائزہ لیجیے، ہم واپس 1980ء میں آتے ہیں۔

جنرل ضیاء الحق اقتدار پر قابض بھی ہو چکے تھے اور جمہوری لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود پھانسی بھی دے چکے تھے، وہ ملک اور بیرون ملک بری طرح غیرمقبول تھے، جنرل صاحب کو اس غیر مقبولیت کو مقبولیت میں تبدیل کرنے کے لیے ایک ایسی جنگ چاہیے تھی جو پوری دنیا کی توجہ کھینچ لے، قدرت نے جنرل صاحب کی مدد کی، سوویت یونین دسمبر 1979 میں افغانستان پر قابض ہو گیا، امریکا نے روس سے نبٹنے کے لیے ایران کو تیار کر رکھا تھا مگر ایران میں انقلاب آ گیا اور "مولوی" اقتدار پر قابض ہو گئے، امریکا نے ویتنام میں تازہ تازہ ہزیمت اٹھائی تھی، اس کے لیے افغانستان میں فوجیں اتارنا مشکل تھا، جنرل ضیاء الحق زیرک انسان تھے، وہ امریکا اور یورپ کی پوزیشن سمجھتے تھے چنانچہ انھوں نے چارلی ولسن کے ذریعے امریکی حکومت کو ایک عجیب پیش کش کی، انھوں نے امریکا سے کہا "آپ ہمیں صرف رقم اور اسلحہ دے دیں۔

آپ کی جنگ ہم لڑیں گے" امریکا کے لیے یہ آفر انتہائی مناسب تھی، امریکا مان گیا یوں جنرل ضیاء الحق پاکستان سمیت افغان روس جنگ میں کود پڑے، ڈالر اور اسلحہ امریکا دیتا رہا اور جنگ میں شہید مدارس کے طلباء، مذہبی سیاسی جماعتوں کے کارکن اور عام غریب پاکستانی ہوتے رہے، یہ جنگ امریکا اور روس کی جنگ تھی مگر اس جنگ میں امریکا کا ایک بھی سپاہی نہیں مرا، دنیا کی اس عظیم جنگ پر امریکا کے صرف تین ارب ڈالر خرچ ہوئے اور دنیا کی دوسری سپر پاور ماضی کا حصہ بن گئی، اس جنگ کے بدلے جنرل ضیاء کو کیا ملا؟ امریکا نے انھیں یونیفارم میں صدر تسلیم کر لیا، امریکا میں ان کافقید المثال استقبال ہوتا، ہمیں سٹینگر میزائل اور ایف 16 طیارے ملے اور ہم سینہ کھول کر دوسری سپر پاور کے سامنے کھڑے ہو گئے، جنرل صاحب اس جنگ میں صرف امریکا اور یورپ تک محدود نہ رہے بلکہ انھوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کی وجہ سے ناراض عربوں کوخوش کرنے کے لیے اپنا ملک عرب باغیوں کے لیے بھی کھول دیا، عرب باغی جہاد کے لیے یہاں آئے اور ہمیشہ کے لیے یہاں آباد ہو گئے۔

جنرل ضیاء الحق ملک کے امیر المومنین بن گئے، یہ ملک کے تامرگ حکمران بھی تسلیم کر لیے گئے لیکن ملک کو ان کی امارت کی کڑی سزا بھگتنا پڑی، یہ معتدل ملک مذہبی شدت پسندی کا شکار ہو گیا، ملک میں عسکری تربیت کے کیمپ بنے، جہاد کے فتوئے جاری ہوئے، مساجد منافرت کے لیے استعمال ہونے لگیں، ملک شیعہ اور سنی میں تقسیم ہوا اور دونوں فرقوں نے رائفلیں اٹھا لیں، جہاد کے لیے اسلحہ آیا، یہ اسلحہ عام لوگوں تک پہنچا اور افغان متحارب گروہوں کی فنڈنگ کے لیے منشیات کی اسمگلنگ شروع ہوگئی، یہ سلسلہ 1988ء تک جاری رہا، روس فروری 1989ء میں افغانستان سے نکلا تو ملک میں ایک لاکھ ٹرینڈ مسلح لوگ موجود تھے، ان مسلح افرادکے حامی مدارس بھی تھے اور مساجد بھی۔ جنرل ضیاء الحق اس وقت تک جہادی سیاستدانوں کی ایک فوج بھی تیار کر چکے تھے۔

یہ سیاستدان افغان وار کو جہاد بھی سمجھتے تھے اور مجاہدین اور ان کی مدد کرنے والے اسمگلروں کے ہاتھ بھی چومتے تھے لیکن معاشرہ اس وقت تک تباہ ہو چکا تھا، ہم اندھے کنوئیں میں گر چکے تھے، افغان وار کے بعد لاکھوں ٹرینڈ سپاہیوں کے پاس کوئی کام نہیں تھا، یہ ریاست کے لیے کھلم کھلا چیلنج تھے، جنرل ضیاء الحق کے بعد فوج کی نئی قیادت نے ان میں سے کچھ کو کشمیر میں کھپا دیا اور جو باقی بچ گئے انھیں جنرل نصیر اللہ بابر نے طالبان کے ظہور کے بعد افغانستان بھجوا دیا، یہ تکنیک جلے پر برف ثابت ہوئی، درد عارضی طور پر ختم ہو گیا لیکن بیماری متعدی بن گئی، یہ جنگ کا پہلا ایکٹ تھا، یہ ایکٹ صرف ایک جرنیل کے اقتدار کے لیے تحریر کیا گیا اور اس ایکٹ نے نہ صرف معتدل معاشرے کو شدت پسند بنا دیا بلکہ ملک کو دہشت گردی، مذہبی شدت پسندی، فرقہ واریت، ہیروئن اور گولے بارود کا کھیت بھی بنا دیا۔

جنگ کا دوسرا ایکٹ 2001ء میں لکھا گیا، جنرل پرویز مشرف میاں نواز شریف کو فارغ کر کے اقتدار پر قابض ہو چکے تھے، یہ بھی آمر تھے اور انھیں بھی اپنے اقتدار کو ملک اور بیرون ملک قابل قبول بنانے کے لیے کسی بڑی جنگ کی ضرورت تھی، قدرت نے ان پر بھی نوازش کی اور 2001ء میں نائین الیون ہوگیا، وہ جرنیل آج بھی زندہ ہیں جنہوں نے ٹوئن ٹاورز گرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف کو مبارکباد کے فون کیے تھے، امریکا کو جس طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں روسیوں کی گولیوں کے لیے پاکستانی سینے درکار تھے، بالکل اسی طرح جنرل مشرف کے دور میں ایک بار پھر طالبان کی گولیوں کے لیے ہمارے جسم چاہیے تھے۔ جنرل مشرف نے فوراً ہاں کر دی، اس ہاں کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف پوری دنیا کے لیے یونیفارم میں قابل قبول ہو گئے مگر ملک کا رہا سہا جنازہ بھی نکل گیااور ہم ان مجاہدین کے دشمن بھی ڈکلیئر ہو گئے جنھیں ہم نے اسی کی دہائی میں خود بنایا تھا۔

ہم ان طالبان کے بھی دشمن نمبر ون ہو گئے جنھیں ہم نے 1994ء میں افغانستان میں سیٹل کیا تھا اور ہم ان پاکستانی مجاہدین کے لیے بھی کافروں کے دوست اور قابل گردن زنی ہو گئے جن کی جیب میں پاکستان کا شناختی کارڈ تھا اور ہم نے جنھیں پاکستان سے بھرتی کر کے ٹریننگ دی تھی، جنرل مشرف اس کے بعد غلطیاں کرتے رہے اور افغانستان کی جنگ پاکستان میں داخل ہوتی رہی، یہ جنگ جنرل مشرف کی مہربانی سے بلوچستان میں بھی آئی، جنوبی وزیرستان بھی پہنچی، سوات بھی آئی اور شمالی وزیرستان بھی گئی، ہمیں جب اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو اس وقت تک ہمارے 55 ہزار لوگ شہید ہو چکے تھے، ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا تھا، ریاستی ادارے تباہ ہو چکے تھے، فوجی اداروں اور عمارتوں پر حملے ہو چکے تھے، قوم نفسیاتی مریض بن چکی تھی، پاکستان دنیا کے لیے خطرناک ترین ملک ڈکلیئر ہو چکا تھا اور وہ امریکا اور یورپ جن کے لیے ہم 35سال سے لڑ رہے تھے وہ ہم پر درجنوں پابندیاں لگا چکے تھے، ہم بری طرح پھنس چکے تھے۔

ہم اب آگے چلنے سے قبل یہ فیصلہ کرتے ہیں ہم نے ان 35 برسوں میں کیا پایا، ہمیں صرف دو فائدے ہوئے، ایک دنیا نے جنرل ضیاء الحق کو تامرگ حکمران تسلیم کر لیا، دو، جنرل پرویز مشرف 2008ء تک بلاشرکت غیرے پاکستان کے حکمران رہے اور بس۔ ہم نے نقصان کیا اٹھائے؟ ہم نے معاشرے کا توازن کھو دیا، دنیااکیسویں صدی میں مذہب سے سیکولر ہو گئی، سعودی عرب نے بزنس امیگریشن کھول دی، خواتین کو ملازمت اور ڈرائیونگ کی اجازت دے دی، اسرائیل عیسائیوں اور مسلمانوں کو شہریت دینے لگا، مسجدوں اور چرچز کی اجازت دینے لگا، وائیٹ ہاؤس اور 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں افطار ڈنر ہونے لگے، عید ملن پارٹیاں ہونے لگیں، بھارت میں مسلمان کو شدھی کرنے کی مہم پر نریندر مودی نے استعفیٰ دینے کی دھمکی دے دی، ایران میں (باقی کل)۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Ye Ik Shajar Ke Jis Pe Na Kanta Na Phool Hai

By Saadia Bashir