Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Haider Javed Syed/
  4. Charagh e Toor Jalao Bara Andhera Hai

Charagh e Toor Jalao Bara Andhera Hai

چراغِ طور جلاو بڑا اندھیرا ہے

تواتر کے ساتھ ان سطور میں عرض کرتا آرہا ہوں کہ سماجی وحدت کو لاحق خطرات ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین ہوتے جارہے ہیں، اس پہ ستم یہ ہے کہ ہر سُو " ہو " کا عالم ہے خوف کے مارے ایک آدھ کے سوا قائدین ٹائپ لوگ بھی بولتے نہیں ایسے میں عام آدمی سے کیا شکوہ کریں؟ جب سماج کی راہنمائی کا فرض سنبھالے ہوئے ہمارے قائدین بھی چُپ کا روزہ رکھے ہوئے ہوں، یہ بجا ہے کہ بگاڑ راتوں رات پیدا نہیں ہوا یہاں تک آنے میں وقت لگا اور اصلاح بھی پل بھر میں ممکن نہیں، لیکن کیا انتہا پسندوں کے خوف سے چُپ کر کے بیٹھ رہا جائے یا پھر اپنے حصے کی بات کی جائے؟

ہماری رائے تو یہی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کو اپنے حصے کی آواز بلند کرنی چاہئے تاکہ آسیب بنی خاموشی ٹوٹے، یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اندھیروں کو کاٹنے کا عزم ہوتو بس پہلا دیا جلانے کیلئے ہمت کرنا پڑتی ہے، پہلا دیا جلانے کے لئے دوسروں کی طرف دیکھنے اور انتظار کرنے کی بجائے ہمیں ہی جراتِ رندانہ کا مظاہرہ کرنا ہوگا، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر آج ہم نے اپنے حصے کا فرض ادا نہ کیا تو ہمارے کل کے وارث (اگلی نسلیں ) بھی اسی شدت پسندی کا رزق بنے گیں۔

اس لئے بہتر ہوگا کہ جہل و شدت پسندی کو علم و آگہی کی طاقت سے کاٹا جائے، ہماری تو ہمیشہ سے یہی رائے رہی ہے کہ ہرقسم کی شدت پسندی اور مقدس اوراق یا شخصیات کی توہین کا الزام لگاکر، سٹریٹ جسٹس کے بڑھتے ہوئے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لئے مختلف مسلم مکاتب فکر کے علمائے کرام اور فتویٰ جاری کرنے کی اہلیت کے حامل اداروں کو نہ صرف مشترکہ موقف اپنانا ہوگا، بلکہ اپنے اپنے دائرہ اثر میں اس امر کویقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات بھی کرنا ہوں گے کہ معاشرے سے انتہا پسندی اور عدم برداشت کا خاتمہ ہو۔

انتہا پسندی کی کوئی بھی قسم ہو اس سے معاشرتی امن ہی تباہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی وجہ سے سنگین مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بجا ہے کہ مخصوص مقاصد کے لئے پروان چڑھائی گئی انتہا پسندی کچھ لوگوں کا کاروبار بن چکی اور ان کے حلقے بھی ہر گزرنے والے دن کے ساتھ وسیع ہوتے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اعتدال پسند شخصیات غیرموثر دکھائی دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے اعتدال پسندی کے مقابلہ میں انتہا پسندی کا فروغ اس لئے ہوپایا کہ مصلحت یا خوف کی وجہ سے ہر شخص نے یہ سوچا چلیں جو ہو رہا ہے اس سے مجھے کیا فرق پڑتا ہے؟ جبکہ ہمیں یعنی ہم سبھی کو یہ مدِ نظر رکھنا چاہئے تھا کہ اعتدال و ایثار دلیل اور قربانی سے پروان چڑھتے ہیں۔

جبکہ انتہا پسندی جہالت سے رزق پاتی ہے اور یہ بھی کہ معتدل حلقوں نے مصلحت یا مجبوری کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتی ،جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ بہر طور ایک اچھی خبر یہ ہے کہ موجودہ حالات میں سواد اعظم اہلسنت کی عالمی شہرت کی حامل دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ کا یہ فتویٰ ہے کہ"توہین قرآن کا الزام لگاکر کسی شخص کا قتل جائز نہیں، اسلام عدل و انصاف پر مبنی نظام اور اعمال و افعال پر زور دیتا ہے، قتل جیسے گھناؤنے فعل کی اجازت نہیں دیتا"۔ انتہائی خوش آئند ہے۔

دیر آید درست آید ہی سہی، بہرطور علماء کے حلقہ میں مثالی اعتدال پسندی کی شہرت رکھنے والی برصغیر پاک و ہند کی معروف دینی درس گاہ کا یہ فتویٰ بکھرے ہوئے سماج کو یکجا کرنے اور انتہا پسندی کا اسلام کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں مقابلہ کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ جامعہ نعیمیہ کے ایک شہید سربراہ ڈاکٹر سرفراز حسین نعیمی نے دہشت گردی کو اسلام کی اعلیٰ و ارفع تعلیمات سے بغاوت تعبیر کرتے ہوئے، عزم و استقلال کے ساتھ جو فتویٰ دیا تھا اس سے سماجی وحدت پر حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے میں بڑی مدد ملی تھی۔

ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف علمی اور عملی خدمات سرانجام دینے والی سنجیدہ مذہبی شخصیات میں مولانا حسن جان شہید، ڈاکٹر سرفراز حسین نعیمی شہید اور ڈاکٹر پروفیسر طاہرالقادری کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان شخصیات نے اس وقت دہشت گردی کو اسلامی تعلیمات اور مسلم سماجی وحدت پر حملہ قرار دیا جب پورا پاکستانی سماج دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا تھا،فقط یہی نہیں بلکہ ایسا لگتا تھا کہ ریاستی قوت بھی بے بس ہے۔

مولانا حسن جان شہید اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید نے اپنے موقف اور فتوے کے حق میں نہ صرف ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا بلکہ جام ِشہادت بھی نوش کیا۔ پچھلے کچھ عرصہ سے چار اور مدعی، وکیل، منصف اور جلاد بننے کا جو رواج عام ہوا ہے اس سے سماجی وحدت کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں، ان حالات میں اصلاح احوال کے لئے مجاہدانہ کردار کی ادائیگی بہت ضروری ہے۔ انتہا پسندی اور سٹریٹ جسٹس کی حوصلہ شکنی کے لئے اگر سنجیدہ فہم علمائے کرام میدانِ عمل میں اتریں تو ان کی کوشیں بارآور اس لئے ثابت ہوسکتی ہیں کہ لوگوں کا بڑا طبقہ ان کا احترام کرتا ہے۔

سواد اعظم اہلسنت کی معروف درسگاہ سے جاری ہونے والے فتوے سے ان طبقات کے موقف کو تقویت ملی ہے جو مسلسل یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ "قانون کی حاکمیت ہی زندہ معاشروں کی معراج ہے"۔ بحیثیت مسلمان کوئی بھی شخص اس امر سے انکار نہیں کرسکتا کہ اسلام نے سب سے زیادہ زور سماجی مساوات اور بلاامتیاز انصاف پر دیا۔

چوتھے خلیفہ راشد حضرت امام علیؑ کا یہ ارشاد فقط مسلم ہی نہیں انسانی تاریخ کے ماتھے کا بھی جھومر ہے کہ

"معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم پر نہیں "

ہماری دانست میں انتہا پسندی اور سٹریٹ جسٹس کے رجحان کے فروغ کی وجوہات کی بحث میں پڑنے کی بجائے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر دو کی حوصلہ شکنی، انصاف، سماجی وحدت، ایثار اور انسان دوستی کے فروغ کے لئے ہر شخص اپنا کردار ادا کرے۔ یہ ملک کسی فرد واحد یا خاص طبقے کا نہیں بلکہ 22کروڑ لوگ اس کے مشترکہ مالک ہیں۔ حق ملکیت فقط دعویٰ تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اپنے حصے کے فرائض کی ادائیگی پر توجہ دی جائے۔ امن و امان اور انصاف و مساوات کا بول بالا ہوگا تو اس میں ہمارا اجتماعی فائدہ ہے اور یہ آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ سماج اور نظام کا تحفہ بھی ہوگا۔

جامعہ نعیمیہ نے انتہا پسندی اور سٹریٹ جسٹس کے خلاف فتویٰ جاری کرکے اعلائے کلمتہ الحق بلند کرنے کا حق ادا کیا ہے۔ اس فتوے سے ان لوگوں کو ڈھارس ملی ہے جو انتہا پسندی کے بڑھاوے سے خوفزدہ تھے۔ یہاں یہ عرض کرنا انتہائی ضروری ہے کہ دیگر مسلم مکاتبِ فکر کے مذہبی ادارے بھی اس فتوے کی تائید میں اعلامیے جاری کریں بلکہ اگر ہوسکے تو علماء و مشائخ اور مذہبی سکالرز کے ملک گیر اجتماع کا انعقاد یقینی بناکر جامعہ نعیمیہ کے فتوے کو سماجی ارتقا، وحدت اور امن و امان کا بیانیہ قرار دیا جائےتاکہ ان عناصر کا محاسبہ بھی کیا جاسکے جو انتہا پسندی کو کاروبار بنائے ہوئے ہیں۔

تلخ حقیقت یہی ہے کہ اگر آج ہم میں سے ہر شخص اور طبقے نے اپنے فرائض کی ادائیگی پر توجہ نہ دی، تو آنے والے دنوں میں جو حالات پیدا ہوں گے اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہوں گےیہاں یہ بھی عرض کردوں کے سنجیدہ مذہبی شخصیات اور اداروں کے ساتھ ساتھ سیاسی قائدین،کارکنوں، اہل دانش اور سماج سدھاروں کو بھی میدان عمل میں اترنا ہوگا۔انتہا پسندی فرد یا کسی خاص طبقے کیلئے زہر قاتل نہیں بلکہ یہ مشترکہ دشمن ہے ہمارے آج اور بچوں کے کل کا۔ہمیں نہ صرف اپنا آج محفوظ کرنا ہے بلکہ اپنے بچوں کا مستقبل بھی ۔

حرفِ آخر یہ ہے کہ اگر ہم نے وقت اور سماج کی ضرورت کو نظر انداز کیا تو کل ہم فقط قصہ ہوں گے اور لازم نہیں کہ یہ قصہ یاد بھی رکھا جائے۔

Check Also

Apni Aawaz Buland Karen

By Saqib Malik