1.  Home
  2. Blog
  3. Zia Ur Rehman
  4. Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (2)

Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (2)

گندم، نظام تعلیم، حکمران اور عوام (2)

ہمارا تعلیمی نظام اتنا فرسودہ اور دقیانوسی ہو چکا ہے کہ میٹرک تک آتے آتے بچہ اپنی قدرتی صلاحیتوں کو ہی بھلا چکا ہوتا ہے، اور پھر امتحانات کی بھرمار۔ اتنا شدید پریشر ہوتا ہے بچے پر کہ اسے اپنی موجودہ زندگی جو محض 17 سال ہی ہوتی ہے (اگر وہ سیدھا سیدھا صرف پاس ہی ہوتا جائے) سے نفرت ہو جاتی ہے۔ گھر سے ڈانٹ پھر سکول میں ڈانٹ کھاو، پھر ٹیوشن میں ڈانٹ کھا کر وہ سوچنے پر مجبور ہو چکا ہوتا ہے کہ پیدا ہو کر کوئی گناہ تو نہیں کر لیا۔ اپنی مرضی سے ایک لائن ادھر سے ادھر لکھنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی، بس بغیر سوچے سمجھے رٹا ماری جاؤ۔

cramming کی یہ عادت اتنی پختہ کروا دیتے ہیں کہ خود سے سوچنے یا out of box thinking کی گنجائش ہی نہیں رہنے دیتے۔ critical thinking ہمارے ہاں یا تو پانچ سال کا بچہ کر رہا ہے جس پر ابھی کسی کا بوجھ نہیں یا پھر پچاس سال کا آدمی کہ تمام زندگی گزار کر اسے تب یہ leverage نصیب ہوتی ہے کہ خود سے کچھ سوچ کر کچھ نیا کہ سکے، درمیان کے 45 سال تو کولہو کے بیل یا بھیڑ چال والے بچتے ہیں۔ ایک شعبہ چل پڑا تو سارے کے سارے اسی شعبہ میں جانا شروع کر دیتے ہیں یہ تحقیق کیے بنا کہ مارکیٹ میں اس شعبہ کی ڈیمانڈ کتنی sustainable ہے۔

یہ تعلیمی نظام، وہیل مچھلی کو درخت پر چڑھنا اور ہاتھی کو سمندر میں تیرنا سکھانا چاہتا ہے، جب ایک بچے میں فزکس سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے تو اسے کیوں زبردستی یہ سبق سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے، پھر اساتذہ اور والدین مل کر اس بچے کا وہ حشر کرتے ہیں کہ بقیہ زندگی اس سے ڈھنگ سے کچھ ہو ہی نہیں پاتا۔ ڈگری حاصل کئے بنا یہاں کوئی چپڑاسی نہیں لگ سکتا لیکن اس ڈگری کے حصول میں جو اسکی مت ماری جاتی ہے تو پھر وہ چپڑاسی کی نوکری کرنے کے ہی قابل رہ جاتا ہے، یہی حال ہر شعبہ کے تقریباً ہر طالب علم کے ساتھ ہو رہا ہے۔

ہم اپنے بچے کو خود سے کسی شعبہ میں جانے کی اجازت ہی نہیں دے رہے کہ جس میں اسکا دل لگتا ہے یا وہی کرے بھلے وہ تعلیم کی بجائے کوئی کھیل یا انٹرٹیمنٹ کا ہی کوئی شعبہ کیوں نا ہو۔ ہمارے ہاں کم از کم دو شعبے ایسے ضرور ہیں جن میں تقریباً ہر طالب علم نے اس کے اسرار و رموز کو سمجھے بغیر ہی داخلہ لیا۔ اول تو تمام کی تمام تعلیم ہی صرف پیسہ کے حصول کے لیے حاصل کی جا رہی ہے لیکن ایک ڈاکٹر اور دوسرا کسی بھی شعبے کا ٹیچر لگنے سے پہلے بہت سے پہلوؤں کو دیکھ کر اجازت ہونی چاہیئے۔

ڈاکٹر محض اس لیے بن رہے کہ ابھی تک معاشرے میں سب سے اعلی مقام اسی کو حاصل ہے اور ٹیچر اس لیے بن رہے ہیں کہ پڑھ لکھ کر کچھ تو کرنا ہے تو ٹیچر ہی بن جائیں حالانکہ جتنا aptitude ان دو پروفیشنلز کو adopt کرنے سے پہلے چیک کرنا چاہیئے، کہیں اور اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک کے ہاتھ میں مریض کی جان اور دوسرے کے ہاتھ میں پوری قوم کی جان ہوتی ہے۔ بچے کی اعلی تعلیم کے لیے بھی ابھی تک سب سے آزمودہ طریقہ یا تو اسکے والدین یا بڑے بہن بھائی یا خاندان کا کوئی بڑا یا محلے کے کسی بزرگ کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ سب اپنے اپنے تجربہ تو بیان کر دیتے ہیں لیکن بچے سے کوئی نہیں پوچھنے کی زحمت کرتا کہ تم کون سا چن چاڑنا چاہتے ہو۔

اگر بالفرض اس نے رانجھا بن کر بانسری کی نئی سریں ایجاد کرنے کی خواہش ظاہر کر دی تو اسکی اپنی بانسری سے پورا ہفتہ ہائے ہائے کے سُر نکل رہے ہوتے ہیں نتیجتاً ہم کئی ٹنڈولکر، نان بائی کی دکان پر روٹیاں لگاتے ضائع کر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ اس بات کی بھی گارنٹی نہیں ہے کہ جس شعبہ میں اپنی زندگی کے بہترین سال لگائے ہیں اس شعبہ کو پروفیشنل لائف میں بھی adopt کرتے ہیں کہ نہیں۔

ہمارے اردگرد ہزار ہا ایسی مثالیں بکھری پڑی ہیں کہ آپ نے پڑھا کچھ اور ہوتا ہے اور پروفیشنل کوئی اور adopt کرتے ہیں۔ جو بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بن کر سی ایس ایس کا امتحان میں بیٹھے، خاص طور پر جب اس نے کسی سرکاری ادارے سے یہ کورس کیے ہوں تو اس سے پہلے اسکی ڈگری واپس اور پچھلے پانچ سال کے پیسے بمعہ سود واپس لینے چاہیں۔ غضب خدا کا، ایک تو کسی deserving بندے کی سیٹ کھا گئے اوپر سے اپنے بھی کم از کم پانچ سال ضائع کر دیئے اور گورنمنٹ کا پیسہ الگ برباد کروایا۔ اور اگر کسی پرائیویٹ یونیورسٹی سے کیا ہے تو اسکے والدین کو بلا کر اس کے سامنے انہیں کوئی سزا دینی چاہئے۔

ہم نے رزق حلال کمانے کو جب خاص professions سے جوڑا تو نتیجتاً معاشرے میں چند افراد ہی عزت دار ٹھہرے اور باقی ان سے کم تر۔ رکشہ ٹانگہ چلانے والے یا ریڑھی بان، یا چھابڑی فروش یا نان بائی یا نائی یا چھوٹے مکینک یا ان جیسے ہزار ہا شعبوں سے وابستہ افراد ہو اپنے تعین رزق حلال کما رہے ہیں انہیں ہم نے کب اور کیسے blue collared jobs والوں سے کم تر قرار دے دیا؟ امتحانات کے رزلٹ والے دنوں میں کئی دہائیوں سے تقریباً ہر سال ہر اخبار میں ایک خبر ضرور چھپتی ہے کہ

"چھابڑی فروش یا رکشہ چلانے والے یا ڈاکیہ کے بچے نے بورڈ میں پوزیشن لے لی"۔ یا پھر "ڈگری یافتہ نوجوان ریڑھی لگانے یا رکشہ چلانے پر مجبور"۔

یہ سرخی کوئی غور کرے تو ایک طمانچہ ہے ہمارے معاشرے پر۔ کیوں بھائی؟ ان پروفیشن میں کام کرنے والے لوگوں کے بچے عام لوگوں کے بچوں سے سوچ سمجھ میں کم تر ہم نے کیسے تسلیم کر لیے؟ کیا یہ پروفیشن اچھوت ہیں کہ انکے بچوں کو اس طرح سے پیش کیا جائے؟ ایک بچے کو ہم کیا سبق دے رہے ہیں کہ تمہارے والد کی یہ اوقات نہیں تھی کہ تم یہاں تک پہنچ سکو۔ یہی سوچ وجہ بن رہی ہے کہ بچہ جب پڑھ لکھ جاتا ہے تو گھر میں بیٹھ کر ذہنی مریض تو بن جائے گا لیکن اپنے والد کا ہاتھ نہیں بٹائے گا کہ اس میں اسکی توہین ہے۔

میرا ایک دوست پڑھنے کے لیے انگلینڈ گیا تو وہاں اپنا خرچہ نکالنے کے لیے ایک کار واش میں کام کرنا شروع ہوگیا۔ ایک دن اسے پتہ لگا کہ گنگولی کی کار دھلنے کے لیے آئی ہوئی ہے، تو کہتا کہ میں نے اس دن بڑے شوق سے اس گاڑی کی صفائی کی کہ گنگولی سے اس بہانے ملاقات ہو جائے گی۔ میں نے پوچھا کہ کبھی ہم اپنا خرچہ نکالنے کے لیے پاکستان میں کسی کار واش میں نوکری کر سکتے ہیں تو دونوں نے کانوں کو ہاتھ لگا دیے کہ کسی کو معلوم ہوگیا تو پورے خاندان میں سبکی ہوگی۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Abba Jan Ki Hisab Wali Diary

By Mohsin Khalid Mohsin