Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Toqeer Bhumla/
  4. 27wi Shab

27wi Shab

ستائیسویں شب

ستائیسویں شب جب امام صاحب دعا کروا رہے تھے تو میرے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے ہوئے کھڑا نمازی بچوں کی طرح اچانک بلک بلک کر رونے لگا، اس کے گریے سے جدا ہوتی ہوئی سسکیاں اور آہیں مسجد کے در و دیوار سے یوں ٹکرا رہی تھیں جیسے کوئی چڑیا کمرے میں داخل ہوجائے اور پھر باہر نکلنے کی تگ و دو میں دیواروں سے سر ٹکراتی رہے۔

میرا ذہن تو اس کی چیخ و پکار کی طرف مبذول ہو ہی چکا تھا لیکن غیر ارادی طور پر میری نظریں بھی اس کی جانب سفر کرتے ہوئے اس کے پاؤں پر جا ٹکیں۔

یا خدایا! پاؤں کی جلد ایسی تھی کہ کوئلے کو انسانی پاؤں کا روپ دے دیا گیا ہو۔

پھر میری نگاہوں میں اس کے بلند ہوتے ہوئے ہاتھوں کی ہتھیلیاں آن بسیں اور انتہائے حیرت در حیرت تھی کہ ہاتھ کی اندرونی جلد بھی کالی سیاہ تھی، شاید بیرونی سیاہ جلد سے تو کسی حد تک آگاہ تھا مگر اس لمحے مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ اس سے پہلے میں نے اس سے زیادہ سیاہ رنگت والی انسانی ہتھیلیاں جیتے جاگتے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی تھی۔ امام کی ندا پر مقتدی آمین کہتے تھے مگر وہ الحمدللہ یاربی الحمدللہ کہتا اور دھاڑیں مار کر رونے لگتا۔

اس کے تن پر سفید رنگت کا بوسیدہ اور ڈھیلا ڈھالا سا چوغہ تھا، یعنی بظاہر مالی حالت بھی پتلی ہی دکھائی دے رہی تھی۔ اپنے لباس، اپنی دولت اور اپنی رنگت پر فخر سے اتراتے ہوئے لوگوں کے درمیان اس شخص کا خدا کے حضور شکر بجا لانا اور گریہ زاری کرنا مجھے حیران کر گیا تھا کہ عقیدہ ایک ایسی شے ہے جس پر قائم رہنے کے لیے انسان کو جانی و مالی ہر طرح کی قربانی سے بھی گزارا جائے تو پھر بھی اس کے لبوں پر شکوے کی بجائے شکر کا کلمہ ہو۔

مذہبی عقیدہ اپنانا شاید آسان ہو مگر اس پر متزلزل ہوئے بغیر قائم رہنا نہایت دشوار ہے۔ نبی کریم ﷺ کا سگا چچا جو ابو لهب کے نام سے جانا جاتا تھا اس کا اصل نام عبدالعزی تھا مگر اسے ابو لھب کہا جاتا تھا۔ لھب عربی زبان میں آگ کے اس شعلے کو کہا جاتا ہے جو انتہائی سرخ رنگ کا ہو اور اس میں سے دھواں سرے سے مفقود ہو۔

ابو لھب کا رنگ انتہائی سفید تھا اور اس کے چہرے میں سرخ رنگ کی آمیزش تھی، وہ جب غصے میں ہوتا تھا تو اس کا چہرہ یوں دمکنے لگتا تھا جیسے آگ کا بھڑکتا ہوا شعلہ ہو، قریشی تھا، بہادر بھی تھا اور سرداروں میں سے امیر ترین شخص بھی تھا، اس کے دشمنوں پر اس کا رعب اور دبدبہ بھی تھا اسی وجہ سے اسے ابو لھب کا لقب عطا ہوا۔

اب جب عبد العزی شمع توحید و رسالت کا پروانہ نہ بن سکا تو خدا نے اس کے رنگ و روپ اس کی دولت، وجاہت اور شجاعت سے بے نیازی برتتے ہوئے اسے اس طرح ملعون قرار دے دیا کہ تاقیامت قرآن مجید میں اس کے انجام اور اس پر برستی پھٹکار کا اعلان روشن لفظوں میں محفوظ ہوکر رہ گیا۔

اب بات صرف اتنی نہیں ہے بلکہ اسلامی تاریخ و روایات کے مطابق ابی لھب کی اولاد میں سے پانچ بچوں نے اسلام قبول کر لیا اور آپ کا کیا خیال ہے کہ عقیدہ کوئی ایسی معمولی چیز ہے جس پر کوئی بھی اپنی مرضی سے چلتا رہے؟ نہیں بلکہ ابی لھب کی وہ اولاد جب قرآن مجید کی تلاوت کرتی ہوگی تو وہ ہرگز یوں نہیں پڑھتے ہوں گے جیسا کہ میں اور آپ پڑھتے ہیں۔

بلکہ ہر بار وہ اپنے باپ اور پھر نا صرف باپ بلکہ اس کے ساتھ عذاب کی مستحق ابو لھب کی بیوی، ان بچوں کی ماں کا ذکر ان الفاظ میں پڑھتے ہوں گے کہ مفہوم "ابی لھب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ تباہ و برباد ہوگیا" یقیناً اپنے ماں باپ کے متعلق یہ انجام اور وعید پڑھ کر ان کے دلوں میں رحم کی دعا تو جنم لیتی ہوگی مگر اپنے عقیدے کے سامنے ان کو ایسی کسی دعا یا کسی درخواست کی اجازت نہیں تھی نہ ہی مجال تھی کہ وہ ایسا کرتے۔

دوستو مقبولیت کا تعلق مکمل طور پر سرنڈر کرنے پھر اپنی حالت پر شکر اور صبر سے بھی ہے، شاید دنیا میں آپ ناانصافی دیکھتے ہوں اور سوچتے ہوں کہ رب نوازے ہوئے کو اور نوازتا ہے اور پسے ہوئے کو اور دباتا ہے مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ وہ آزمائش میں ثابت قدم رہنے والوں کو الگ کرتا ہے اور ان کے حسب و نسب، رنگ و روپ سے ہٹ کر انہیں تقوے کی بنیاد پر اپنا قرب عطا کرتا ہے۔

Check Also

Melay Ki Kahani

By Rauf Klasra