Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Tu Ne Dekhi Hai Wo Peshani Wo Rukhsar Wo Hont

Tu Ne Dekhi Hai Wo Peshani Wo Rukhsar Wo Hont

تُو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ

زندگی کا پہلا دکھ، پہلا جھٹکا، پہلی آگہی اس دن ملی جب میں نے راحت کو حمزہ کے ساتھ شیر و شکر ہوتے دیکھا۔ راحت چٹیا کھولے حمزہ کے کاندھے پر سر ٹکائے چلی ملی کھا رہی تھی۔ حمزہ میرا کلاس فیلو تھا اور انتہائی نکما سٹوڈنٹ تھا۔ پتا نہیں حسین لڑکیوں کو نکمے لڑکے کیوں اچھے لگتے ہیں۔

آٹھویں جماعت میں اس دن پہلی بار میں لاسٹک کی ٹائی کی بجائے اصلی ٹائی باندھ کر پہنچا تھا۔ میرا ارادہ راحت کو سرپرائز دینے کا تھا مگر وہ تو حمزہ کے ساتھ پینگیں بڑھا چکی تھی۔

ان دونوں کو باہم ساتھ جڑے دیکھ کر میرا سانس گھٹنے لگا تو میں نے ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئے کالر کا بٹن کھول دیا۔ لنچ باکس اٹھایا اور پلے گراونڈ میں نصب ایک خالی بینچ پر جولائی کی بھری دھوپ میں بیٹھ کر کھانے لگا۔ ڈپریشن میں مجھے شدید بھوک لگ جایا کرتی تھی۔ اس دن میں نے قسم کھا لی کہ کسی کے لئے اپنا دل نہیں جلانا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔ زندگی میں کئی راحتیں ملیں مگر دل کا چین پاس ہی رہا۔ راحت نے جو دغا دیا تھا اس کا بدلہ میں نے ان گنت لڑکیوں سے لیا۔ کئیوں کے بال بکھرے، کئیوں نے چوڑیاں توڑیں۔

شبنم کے آتے آتے کلاس بدل چکی تھی۔ وہ تو جیسے اوس کی مانند اتر آئی تھی۔ دل سخت جاں کو موم کرتے ہوئے شبنم سے دوستی کر لی۔ شبنم میری کلاس کی مونیٹر بن گئی تو اس کا رویہ بدلنے لگا۔ ایک دن میں نے روح افزا والی بوتل اسے پیش کرتے ہوئے اس کی بے اعتنائی کی وجہ پوچھی تو اس کے جواب نے میرے قدموں کے نیچے سے زمین نکال دی۔ شبنم آگ کا گولہ بنتے ہوئے بولی " Look، we are just friends"۔

فرینڈز؟ سارا سال میرا ٹفن کھاتی رہی، میری پاکٹ منی سے کنٹین پر جا جا کر جوس پیتی رہی اور تو اور اس کا ہوم ورک میں لکھ لکھ کر مکمل کرتا رہا اور کیسے آسانی سے اس نے دل دہلا دینے والا ایک جملہ بول کر مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اپنی قسم توڑنا کیسی بڑی غلطی تھی۔

میٹرک تک میں دل جلا رہا۔ فرسٹ ائیر میں آتے آتے ٹیوشن والی اکیڈمی میں خدیجہ آئی تو گویا دل کے سب داغوں پر مرہم لگنے لگا۔ خدیجہ سنجیدہ مزاج تھی۔ بالکل میرے جیسی۔ ہم اکیڈمی میں چپ چاپ بیٹھے نظروں ہی نظروں میں گھنٹوں باتیں کیا کرتے۔ عید کے موقع پر میں نے چھٹیوں سے قبل ایک عید کارڈ پر اپنے دل کا ماجرا لکھ کر دے ڈالا۔ اس کا جواب نہ آ سکا اور اگلے دن سے چھٹیاں ہو گئیں۔

مجھے یاد ہے وہ عید کی چھٹیاں مجھے زہر لگتی رہیں۔ پل پل گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔ من کو چین نہیں مل رہا تھا کہ کیسے عید گزرے اور اکیڈمی جانا ہو۔ خدا خدا کر کے عید گزری۔ جس دن اکیڈمی میں آمنا سامنا ہوا خدیجہ مجھے دیکھ کر مسکراتی رہی۔ مجھے تو گویا زندگی کی بہار مل چکی تھی۔ شام ڈھلے اس نے مجھے اشارے سے پاس بلایا۔ تیز دھڑکنوں کو سنبھالتا میں جیسے ہی اس کے قریب پہنچا وہ بولی " تم بہت اچھے لکھاری بن سکتے ہو۔ جیسا تم نے عید کارڈ پر تحریر لکھی۔ لکھنے کو جاری رکھنا۔ گڈ بائے"

میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ مگر کیوں؟ وہ خود ہی بولی " میری زندگی میں پہلے سے کوئی ہے"۔۔ میں نے بجھے دل سے پوچھا کہ کون؟ جواب آیا " میرا کزن"۔۔ یہ کزنوں والے جھوٹ تو اکثر لڑکیاں بول دیتی ہیں مگر وہ سنجیدہ تھی۔

اکیڈمی سے دل اٹھ چکا تھا۔ میں نے ٹیوشن بدل لی اور دل کو سمجھا لیا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو سارے دروازے بند رکھنے ہیں۔ ایک سال بعد اپریل کی صبح کو تابندہ بال لہراتے کالج کی گراونڈ سے گزری تو نجانے کیوں چھپاکا سا ہوا۔ دل کمینہ پھر سے دھڑکنے لگا۔ تابندہ کے پیچھے پورا کالج تھا میرے پہ اس کی کیا خاک نظر پڑتی۔ ایک دن وہ بولی " مہدی بھائی، کیمسٹری کے نوٹس آپ کے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ مجھے کاپی کرنے کو دیں گے؟"۔۔

اس زمانے نیا نیا موبائل فون آیا تھا جو افورڈ کرنا بہت مہنگا ہوتا تھا۔ آج میں جب بھی کسی لڑکے کو کسی لڑکی کے ساتھ موبائل پر بات کرتے دیکھتا ہوں تو دل چاہتا ہے اس کا منہ نوچ لوں، وجہ صرف اتنی ہے کہ میرے زمانہ طالب علمی میں موبائل نہیں ہوتا تھا ظاہر ہے جو سہولت مجھے میسر نہیں رہی وہ میں کسی اور کے پاس کیسے برداشت کر سکتا ہوں۔ میرے دور میں اپ یقین کریں کہ سگی کلاس فیلو سے سلام لینے کے لئے بھی پریکٹس کرنا پڑتی تھی۔

موبائل کے ہاتھ آتے آتے یونیورسٹی کے دو سال بیت چکے تھے۔ اسی موبائل کے توسط سے بلآخر مجھے وہ مل گئی جس کو میں فوری نکاح میں اس لئے بھی لے آیا کہ کہیں کوئی اور حمزہ یا اس کا کزن اس کو اپنا "ٹیگ" نہ لگا جائے۔ شادی کر لی۔ یہ دوطرفہ شدید پسند کا تعلق تھا۔ دس سال بعد نکاح نامہ ایکسپائر ہو گیا۔ تعلق اختتام پذیر ہوا۔ سفر میں دوراہا آ جائے تو اپنی اپنی راہ چُننا پڑ جاتی ہے۔ اس نے مجھے اولاد کی نعمت سے نوازا جس کے لیے میں اس کا صدق دل سے مشکور ہوں۔ عبید اللہ علیم کا کیا خوبصورت شعر ہے

میرے بچوں کو اللہ رکھے ان تازہ ہوا کے جھونکوں نے

میں خشک پیڑ خزاں کا تھا، مجھے کیسا برگ و بار دیا۔۔

کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا

مجھ سے یہ سوال بہت دفعہ پبلک میں پوچھا گیا کہ اس قدر گہرے تعلق کے ختم ہونے کی وجہ کیا تھی۔ اس کے جواب میں ہر بار میں ایک ہی شعر سنا کر بات کو ہنسی میں ٹال دیتا ہوں۔

حادثہ تھا گزر گیا ہو گا

کس کے جانے کی بات کرتے ہو

آشیانے کی بات کرتے ہو

دوسری شادی یعنی موجودہ بیگم میری آخری محبت ہے۔ اس بات کا یقین اسے نہیں آتا اور کبھی کبھی اس کی وجہ سے مجھے بھی نہیں آتا۔ بیگم میرے ماضی و حال سے باخبر رہتی ہے۔ اس سے کچھ نہیں چھپا ہوا۔ کچھ دن قبل میں کانوں میں ہیڈفون لگائے گھر میں بیکار پڑا میوزک سن رہا تھا۔ نہ جانے کیسے ساتھ ساتھ گنگنانے لگا " میں کسی اور کا ہوں فی الحال کہ تیرا ہو جاؤں"۔۔ ہوش آئی تو بیگم دونوں ہاتھ اپنی کولہوں پر دھرے مجھے گھور رہی تھی۔ بولی " شاہ صاحب اب اور کون ہے؟"۔۔ میں نے کہا ارے کچھ نہیں بس گانا سن رہا تھا۔ بولی " شاہ صاحب ایک بات کہوں؟ آپ کا دل ناں کتے کی دم ہے"

میں اسے کہنا چاہتا تھا کہ نہیں۔ میں تو فیض گنگناتا رہتا ہوں۔

تُو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ

زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے

تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں

تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے

اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں

ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے

جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں

عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی

یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے

زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا

سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے

جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے

اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں

نا توانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب

بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں

جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت

شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے

آگ سی سینے میں رہ رہ کے اُبلتی ہے نہ پوچھ

اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

Check Also

Jogi Aur Nehru

By Rauf Klasra