Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Shadi Aik Imtihaan Hoti Hai (4)

Shadi Aik Imtihaan Hoti Hai (4)

شادی ایک امتحان ہوتی ہے (4)

گاڑی پی سی ہوٹل کراچی میں داخل ہوئی۔ میرے ہم زلف اور بیگم کی بڑی بہن ساتھ تھیں۔ ہوٹل لابی میں انتظامیہ کی جانب سے پھولوں کا گلدستہ پیش کیا گیا۔ گلدستہ ہاتھ میں تھامے چلا اور پھر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا میرے اوسان خطا ہو گئے۔ کمرے میں بیڈ کے اطراف پھول سجے تھے۔ سائیڈ ٹیبلز پر گلدستے دھرے تھے۔ سجاوٹ کو دیکھتے ہی میرے اندر ایمبولینس کے سائرن بجنے لگے۔ میں نے تو کمرہ سجانے کا آرڈر نہیں دیا تھا۔ یہ کون تھا؟ اور کیا یہ سب میرے بِل میں شامل ہوگا؟

پہلے ہی بنا پلان و گمان جو اضافی اخراجات ہو چلے تھے وہ سطح حساب پر مقتول کی پھُولی ہوئی لاش کی مانند تیر رہے تھے۔ دُلہے پر یہ سخت آزمائش کا دن نازل ہُوا تھا۔ اس سے قبل کہ میں کمرے سے نکل کر ریسپشن پر جاتا اور سٹاف سے اس بابت دریافت کرتا بیگم کی بہن نے خود ہی کہہ دیا " مہدی بھائی آپ ذرا باہر جائیں میں بینش(بیگم) کو سیٹ کر لوں"۔ انہوں نے شاید دلہن کا لہنگا بیڈ پر پھیلا کر اس کا گھونگھٹ نکلوانا تھا مگر دلہن کی ہنسی بند ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میں جب اس کی جانب دیکھتا اس کی ہنسی چھُوٹ جاتی۔

موقعہ ملتے ہی صاحبو میں بارات میں چلی شُرلی کی رفتار سے لفٹ لیتا ریسپشن پر پہنچا۔ وہاں ایک خوبصورت لڑکی پینٹ کوٹ پہنے کھڑی تھی۔ اس سے قبل میں اسے پوچھتا " یہ کمرے میں پھول وول کیوں لگائے اور اس کس کی اجازت سے؟ اس کا بِل کتنا بننے والا ہے؟"۔ وہ خود ہی مجھے دیکھ کر "شادی مبارک" بولی اور اگلی ہی سانس میں کہنے لگی " امید ہے آپ کو ہماری جانب سے کمرے کی سجاوٹ اچھی لگی ہوگی۔ وہ کمپلیمنٹری ہے۔ آج آپ کی شادی ہے ہمیں معلوم ہے"۔ یہ سُنتے ہی مجھے راحت ملی اور میرے اندر گونجتے سائرن شانت ہو گئے۔ لڑکی اب زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔

رات بارہ ایک بجے ہم زلف اپنی بیگم کے ہمراہ رخصت ہوئے۔ جاتے جاتے بولے " مہدی بھائی، اس کو (بیگم کے بارے) میں نے اور میری بیوی نے بیٹی کی طرح پالا ہے۔ اس کے والدین کے گزرنے کے بعد اس کی پرورش کی ذمہ داری تمہاری آپا نے اٹھائی تھی اور ہم دونوں نے آج اپنا فرض نبھا دیا۔ کبھی اس سے کوئی شکایت ہوئی تو مجھے بتانا ہے میں اس کا والد ہوں اب"۔ ان کا جذباتی خطبہ سُن کر میں ان کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جذباتی ہوتا رہا اور ان دونوں کو گاڑی تک چھوڑنے نیچے آیا۔ وقتِ رخصت میں نے ان کو کہا" اگر اس کو مجھ سے کوئی شکایت ہو تو اسے کہیں کہ صرف مجھے ہی بتائے آپ دونوں کو نہیں۔ میں خود ہی اپنا والد ہوں اور خود کی خود ہی پرورش کی ہے"۔ وہ دونوں قہقہے لگاتے رخصت ہو گئے۔

بیگم حسبِ روائیت گھونگھٹ نکالے دلہن بنی بیٹھی تھی۔ حسبِ روائیت میں نے بھی شرماتے ہوئے واسکٹ کی جیب سے بطور سلامی لاکٹ نکالا اور اس کی جانب لہراتے بولا " یہ آپ کے لیے ہے"۔ گھونگھٹ کے پیچھے سے مجھے پھسپھسی ہنسی کی آواز آئی اور دلہن بھی تھرتھراتی محسوس ہوئی۔

"میں نے کچھ غلط کہہ دیا؟"

"نہیں۔ میں اس لیے ہنس رہی ہوں کہ منہ دکھائی کا تحفہ گھونگھٹ اٹھانے کے بعد دیتے ہیں۔ آپ ایسے ہی دے رہے"۔

"اوہ۔ اچھا اچھا۔ میں سمجھ گیا"۔

اس سے پہلے کہ میں گھونگھٹ اٹھاتا اس کی پھر ہنسی چھُوٹی

"یہ آپ کی دوسری شادی ہے اور آپ کو رسم کا نہیں معلوم"۔

یہ سن کر میری بتی گُل ہوگئی۔ میں نے کہا " بیگم صاحبہ! میں کونسا پروفیشنل دُلہا ہوں جس کو سب رسم و رواج ازبر ہوں؟ آپ ایک بار کھُل کر ہنس ہی لیں میں ذرا باہر سے سگریٹ پی کر آیا اور اتنی دیر یہ ڈھائی ٹن وزنی لہنگا بمعہ زیورات بھی سمیٹ لیں۔ کوئی نارمل لباس پہن لیں۔ ختم ہوگیا فنکشن۔ مُک گیا ویاہ"۔

وہ ہنستی رہی اور میں کمرے سے ملحقہ بالکونی میں سگریٹ پھونکنے نکل گیا۔ سگریٹ سلگاتے سارا دن بیتی ذلالت یاد آتی رہی۔ دو تین سگریٹ پھونکے۔ واپس آیا تو وہ نارمل لباس میں آ چکی تھی۔ چونکہ نکاح ہمارا پہلے ہوگیا تھا اس لیے اس سے شناسائی یا گفتگو میں کوئی ہچکچاہٹ باقی نہیں رہی تھی۔ فون پر گفتگو ہوتی رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی بولی

"ویسے کیا مزے کی بارات لائے آپ۔ میں نے لائف میں کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میری شادی اس قدر انٹرٹینمنٹ بھری ہوگی۔ مجھے لگتا تھا کہ شادی کا دن انتہائی بکواس اور بورنگ اور رونے دھونے والا ہوتا ہے۔ مجھ سے کھانا بھی نہیں کھایا گیا۔ آپ کے دوستوں کی حرکتیں دیکھ کر مجھ سے سٹیج پر بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔ یہ آپ کے دوست کیسے بنے؟"

" ہاہاہاہاہاہا۔ وہ بس بیگم میں نے سوچا کہ روایات کو توڑتے ہوئے کچھ انوکھا کرنا چاہئیے۔ چلو آپ کو پسند آیا تو سب ٹھیک ہے"۔

"مگر یہ آپ کے دوست کیسے بنے؟ اور وہ کون لڑکا تھا جو دودھ پلائی کی رسم کے وقت میری آپا کو آگے بڑھ بڑھ کر کہہ رہا تھا کہ آپ یہ دودھ کا گلاس اپنے پاس رکھیں مہدی بھائی باہر سے ملک پیک لے کر پی لیں گے"

اب میں اسے کیا بتاتا کہ وہ کون تھا۔ مجھے خود نہیں معلوم کہ وہ کون تھا۔ بھانت بھانت کے باراتی تھے۔ مجھے کچھ اور جواب تو نہ سُوجھا میں نے کہا

"مجھے آپ اس کا لہجہ بتائیں کیسا تھا؟ پنجابی پوٹھوہاری یا پشتو یا میمنی یا مکرانی یا سندھی؟"

" کراچی کا ہی لگ رہا تھا جیسے بول رہا تھا ایسا لگ رہا تھا منہ میں گٹکا رکھ کر بول رہا ہے اور ابھی پِیک پھینکے گا"۔

اللہ جانے کون تھا۔ کوئی ایک ہوتا تو عادل جدون کو کال کرکے اس کا نام پوچھ لیتا۔ میں چپ رہا۔

" اور وہ کون تھا جو بدتمیز سا تھا؟ جو رسم کے موقعہ پر آگے بڑھ بڑھ کر بول رہا تھا کہ دلہا ہمارا شریف بندہ ہے آپ نے کیا لوٹ مچا رکھی ہے۔ ہم اپنا دلہا واپس لے جاتے ہیں"۔

یہ سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اللہ جانے کون تھا۔ میں پھر چُپ رہا۔ خاموشی کو دیکھ کر بیگم نے پھر سوال داغ دیا۔

"اور وہ کون تھا جو کھانا کھاتے متنجن کے اوپر فرنی ڈال کر کھا رہا تھا؟"

میرا ضبط جواب دے گیا۔ ساری رات کس کس کی انکوائری بھگتتا لہذا میں نے سچ بولنے کا فیصلہ کیا اور اسے کہا " بیگم ان سب کو میں نہیں جانتا۔ میں نے اپنے دوست عادل کو کہا تھا کہ بارات لے جانی ہے۔ یہ سب اس کے شناسا تھے وہی بارات مینیجر تھا۔ اب کیا کرتا کیا اکیلا ہی چلا آتا؟

وہ ہنستے ہنستے دہری ہوگئی۔ میں اس کی ہنسی پر اندر سے شرمندہ ہوتا رہا۔ جب اس کی ہنسی کا دورہ تھما تو سنجیدہ ہوتے بولی "بھائی جان اور سب گھر والے کہہ رہے تھے کہ آپ کی بارات میں صرف ایک ہی فیملی آئی اور وہی سب سے ڈیسنٹ تھے۔ انہوں نے چپ چاپ ایونٹ اٹینڈ کیا۔ کھانا کھایا اور چلے گئے۔ وہ کون تھے؟ میاں بیوی اور ان کے ساتھ دو بچے؟"

مجھے نہیں یاد کہ میری بارات میں کوئی فیملی تھی اور بچے تھے۔ میں نے کہہ دیا کہ وہ میری جانب سے نہیں ہوں گے آپ کے ہی ہوں گے مگر بولی " نہیں وہ بارات میں تھے۔ ہماری جانب والوں کو تو ہم سب جانتے ہیں۔ ہمارا سارا خاندان تھا۔ بھائی جان اور گھر والے اسی لیے تو پوچھ رہے تھے کہ بارات میں وہ فیملی ڈیسنٹ تھی۔ آپ کو نہیں معلوم کہ وہ کون تھے؟"

اس وقت میں نے عادل کو کال ملا دی اور اس سے استسفار کیا۔ اس نے کہا کہ شاہ جی ہم میں تو کوئی فیملی والا تھا ہی نہیں۔ اللہ جانے کون تھے۔ کراچی ہے۔ کوئی ویسے ہی کھانا کھا گیا ہوگا!

صاحبو، جو ہوا سو ہوا۔ شادی کے آٹھ سال گزر جانے کے بعد بھی آج تک ہم اس فیملی کے بارے نہیں جانتے جو میری بارات میں شامل تھی اور سسرال کے بقول وہی ڈیسنٹ فیملی تھی۔ وقت کے ساتھ بہت انکوائری کی مگر کوئی سراغ نہ مل پایا۔ شادی کی تصاویر دیکھیں، ویڈیو دیکھی۔ وہ فیملی سسرال کی جانب سے تو نہیں تھی اور میری جانب سے بھی نہیں تھی۔ آج بھی جب بارات سے متعلقہ کچھ یاد آئے تو بیگم اور سسرال کے ہاسے چھُوٹ جاتے ہیں۔ کراچی شہر ہی نامعلوم افراد کا ہے۔ مگر میں اس نامعلوم فیملی کا شکرگزار ہوں کہ ان کے سبب میری کچھ عزت رہ گئی تھی۔ وہ جہاں جہاں جس جس کی شادی اٹینڈ کرتے ہوں خوش رہیں۔

اب یوں ہوتا ہے کہ سسرال میں کسی شادی یا کسی کے رشتے کی بات ہو تو وہ مجھے محفل میں بٹھا کر رشتہ طے کرتے ہنس کے اگلے کو بتاتے ہیں" بارات تو بس مہدی بھائی کی تھی"۔

شادی کے اگلے روز ہم کراچی سے فلائٹ لے کر گھر لاہور آ گئے۔ بارات کو آٹھ سال بیت گئے۔ بیگم نے میری خدمت میں کوئی کسر روا نہیں رکھی۔ میں بھی اس کا خیال رکھتا ہوں۔ ایک اس کے والدین نہیں رہے دوجا میرے نہیں رہے تو ہم دنوں کا اصل میں ایک دوسرے کے سوا کوئی ہے بھی نہیں۔ مجھے کافی، چائے، سنیکس اور کبھی کچھ کبھی کچھ وقتاً فوقتاً چاہئے ہوتا ہے۔ ایکدم شوگر لو ہو جاتی ہے تو اسے کہتا ہوں کہ کچھ دے دو۔ ایک بار گھر میں معمولی نوک جھونک کے دوران مجھے کہنے لگی" شاہ صاحب! آپ تیسری کر لیں اور شوگر ہنڈانے والی کوئی لے آئیں"۔ میں نے آگے سے کہہ دیا " گڈ آئیڈیا، اس طرح گھر کے کاموں میں وہ تمہاری مدد بھی کر دیا کرے گی اور تم پر سے ورک لوڈ کم ہو جائے گا"۔

بولی " ہاں مگر پہلے اپنے باراتی تو بنا لیں! "۔ میں نے کہا " بیگم، وہ زمانہ اور تھا۔ اب میں خود اپنے باراتی منتخب کر سکتا ہوں۔ ایکدم سلیکٹڈ اور بہترین بارات بن سکتی ہے"۔ کہنے لگی " جو آپ نے سلیکٹ کرنی ہے وہ سنجیدہ لوگوں کی ہوگی۔ ویسی بورنگ بارات کا میری بارات سے کیا مقابلہ؟"۔ سچ کہتی ہے۔ اس بارات سے کیا مقابلہ۔

Check Also

Aik Aur Yakum May

By Sajid Ali Shmmas