Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Shadi Aik Imtihaan Hoti Hai (3)

Shadi Aik Imtihaan Hoti Hai (3)

شادی ایک امتحان ہوتی ہے (3)

رخصتی کے معین دن سے ٹھیک دو ہفتے قبل میرا نکاح ہوا تھا۔ نکاح کی تقریب انتہائی سادہ تھی۔ چند احباب جمع تھے۔ میری جانب سے چار پانچ افراد تھے جن میں دو گواہ اور دو خواتین تھیں۔ گواہان میں ایک خالو اور ان کا بیٹا یعنی اکلوتے دُلہے کا اکلوتا کزن۔ خواتین میں ایک خالہ اور دوسری خالہ کی نند صاحبہ۔ پانچواں اہم رُکن میں خود تھا۔ میرا خاندان چونکہ فقہ جعفریہ پر کاربند تھا لہذا خاندان کی جانب سے یہ طے پایا کہ نکاح سنی شیعہ دونوں کے مطابق پڑھا جائے گا۔ میں ذاتی طور پر ان دونوں سے باغی انسان ہوں۔ جو احباب مجھے جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ

نہ میں سنی نہ میں شیعہ میرا دوہاں تو دل سڑیا ہُو

مُک گئے سب خشکی دے پینڈے دریائے وحدت وڑیا ہُو

میری جانب سے نکاح پاسٹر مائیکل جوزف اینڈریو پڑھا لیتے مگر مجھے نکال کر دونوں جوانب کے لوگ اپنے اپنے مسلک کے ڈنڈا بردار پہرے دار تھے۔ لہذا میرا کام چُپ چاپ گلے میں ہار ڈالے تقریب کا حصہ بننا تھا۔

پہلے اہلسنت کے مولانا آئے اور چھوٹتے ہی کان کے قریب آ کر بولے " آپ کو فرض وضو و غسل کا سنت طریقہ آتا ہے؟" میں نے جواب دیا " مولانا میں شاور کے نیچے پندرہ منٹ نہا لیتا ہوں اور وضو بھی آتا ہے"۔۔ مولانا نے مجھے گھور کے دیکھا اور اونچی بولے " چھ کلمیں سنائیں"۔۔ اب یہ حملہ غیر متوقع تھا۔۔ محفل میں موجود سب لوگ بھی متوجہ ہو گئے۔۔ میں نے پہلے تین کلمے سنا دیئے۔۔ سچ بات ہے کہ آتے بھی تین ہی تھے آخری تین مشکل بھی ہیں اور لمبے بھی ہیں اور معمول میں پڑھے بھی نہیں جاتے لہذا میں بھول چکا تھا۔۔ تین سنانے کے بعد میں بولا " مولانا باقی تین آپ سنا دیں میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوں"۔۔ مولانا قرآت کے ساتھ پڑھنے لگے اور میں پیچھے پیچھے دہرانے لگا۔۔

کلمے ختم ہوئے تو مولانا نے خطبہ نکاح کھڑے ہو کر شروع کر دیا۔۔ خطبے کے بعد گلے ملے تو پھر کان میں بولے "پانچ سو نکاح فارموں کی فیس اور باقی نکاح مبارک"۔۔ میں نے ہنستے ہوئے جیب سے پچپن سو نکالے اور مولانا کے ہاتھ تھما دیئے۔۔ مولانا خوش ہو کر پھر سے مبارک دے کر رخصت ہو گئے۔۔

اب باری آ گئی اہل تشیع مولانا کی۔۔ انہوں نے عبا و عمامہ درست کیا۔۔ ایک کھنگورا مارا اور بیٹھے بیٹھے دو منٹ میں خطبہ نکاح پڑھ کر میرے منہ کو تکنے لگے۔۔ میں سمجھا کہ ابھی شاید خطبہ باقی ہے اور مولانا صاحب شاید خطبہ بھول گئے ہیں لہذا میں پریشان ہو کر ان کے منہ کو تکنے لگا اور دل میں دعا کرنے لگا کہ یا اللہ مولوی کو باقی کا خطبہ یاد آ جائے ورنہ بڑا ٹنڈا نکاح ہونا ہے یہ۔۔ مگر ایسا نہیں تھا وہ میرے منہ کو اس لئے تک رہے تھے کہ خطبہ ختم ہو چکا تھا اور وہ منتظر تھے کہ میں مبارک دوں یا لوں۔۔ صورت حال کا ادراک کرکے میں کھڑا ہوا تو انہوں نے مجھے گلے سے لگا کر مبارک دی۔۔ میں نے سوچا پہلے والے مولانا کو بھی پانچ ہزار دیئے تو انصاف یہی ہے ان کو بھی اتنے دے دوں چنانچہ میں نے ان کو مبارک دے دی۔

کل ملا کر دس ہزار پانچ سو مولانا صاحبان لے گئے پر میرا نکاح ڈبل کوویلنٹ بانڈ جیسا پکا کر گئے۔۔ اب نہ سنی عقیدے کے مطابق کوئی راہ فرار بچی تھی نہ شیعہ عقیدے کی مطابق۔۔

رخصتی والے دن سٹیج پر براجمان میں اپنی بارات کے سبب چُلو بھر پانی کی تلاش میں تھا۔ دُلہن کی دھیمی دھیمی ہنسی چھُوٹ رہی تھی۔ اصول مشرقیت کی رُو سے بیگم کو سٹیج پر بیٹھے بس مسلسل شرماتے رہنا چاہیئے تھا مگر وہ بھی کیا کرتی؟ آس پاس سرکس لگی ہوئی تھی۔

میری بھوک اُڑ چکی تھی۔ سامنے کھانا دھرا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ ذلالت کی یہ گھڑیاں کب اختتام کو پہنچیں گی۔ میرا دل چاہنے لگا کہ ہار اُتار کر پتی پتی کر دوں اور ہزار میٹر کی میراتھن ریس لے لوں یا کوئی نو گز کی ڈانگ مل جائے تو لانگ جمپ کا مظاہرہ کرتے شادی ہال سے اُڑ کر باہر نکلوں اور سڑک پر لمبے لمبے تازہ سانس کھینچوں۔ اتنے میں دُلہن کی بڑی بہن اور میرے ہم زلف سٹیج پر آئے۔ انہوں نے کھانا پلیٹ میں ڈالا۔ ہم زلف بھائی نے کھانا پڑوستے مجھے کہا

"مہدی بھائی، چلیں کھانا تو کھائیں ناں۔ بھلا کھانے سے کاہے کی ناراضگی؟ اب شرمانے کو تو عمر پڑی ہے"

ٹھیک کہتے تھے۔ اب تو شرمانے کو عمر پڑی تھی۔ میں نے مسکراتے ہوئے ان کے ہمراہ دو لقمے لئیے۔ وہ تسلی کرکے اٹھ گئے کہ دلہا دلہن کھانا کھا رہے ہیں۔ یکایک عادل نمودار ہوا۔

"شاہ جی۔ عقیل کھانا نہیں کھا رہا۔ اس کا پیٹ خراب ہوگیا ہے۔ وہ گھر جانا چاہتا ہے"

عقیل کون تھا مجھے کیا معلوم۔ یہ اندازہ تھا کہ عقیل بھائی باراتیوں کی قسم میں سے ایک قسم ہوں گے۔ مگر عقیل اتنا اہم کیوں تھا مجھے کیا لگے عقیل سے، میری بلا سے وہ کھائے یا نہ کھائے۔ میں نے عادل کو کہا " تو؟ اب کیا مجھے عقیل کو منانا ہے؟ جانے دو گھر اگر طبیعت خراب ہے"۔ عادل نے یہ سُن کر ایک لمحہ کو سوچا پھر بولا

"عقیل آپ کی گاڑی کا ڈرائیور ہے شاہ جی۔ وہ چلا گیا تو گاڑی کون چلائے گا؟ رخصتی کے بعد یہاں سے ہوٹل تک کون چھوڑے گا؟"

" تو یار کیا بھری بارات میں عقیل ہی واحد ڈرائیور تھا؟ اتنے لوگ ہیں کسی کی ڈیوٹی لگا دو "۔ میں نے بیزاری سے جواب دیا۔

"ہمممم۔ شاہ جی! بات یہ ہے کہ آپ کی بارات کھانا کھا کر رخصت ہوگئی ہے۔ اب صرف آپ اور میں بچے ہیں۔ سارے بچے نکل لئیے۔ اور میری گاڑی میں ایک ہی بندہ ہے اسے ڈرائیونگ نہیں آتی"۔

یہ سن کر میرے حلق میں ننگی گالی پھنس گئی۔ اس وقت مجھے کائنات زہر لگ رہی تھی۔ سارے باراتی ہَوا ہو چکے تھے۔ چلو یہ اک طرح سے خوشی کی بات بھی تھی کہ اب مزید کوئی حرکات و سکنات واقع نہیں ہوں گی مگر دوسری جانب میں یہ سوچ رہا تھا کہ رخصتی کے وقت دُلہن، خالہ، ایک کزن اور عادل ہی بچے ہیں بس۔ عادل تو اپنی گاڑی لے جائے گا۔ میرا کزن بھی گاڑی نہیں چلا سکتا تو کیا اب مجھے خود ہی اپنی گاڑی چلانا پڑے گی۔ مسئلہ یہ نہیں تھا۔ سوچ یہ رہا تھا کہ لڑکی والے کیا سوچیں گے کہ یہ کیسی ناگہانی سی بارات تھی جس میں سب عجب ڈھنگ سے آئے اور کرتب دکھا کر غائب ہو گئے۔ نیز یہ سوچ کر میرا دل دہل رہا تھا کہ لڑکی والوں کے بزرگ مرد و خواتین دمِ رخصت دُلہن کی وداعی کے ساتھ ساتھ کہیں میری غربت و مسکین پن پر بھی نہ رونے لگیں۔ مجھے کسی سے مزید ہمدردی نہیں چاہئیے تھی۔

اتنے میں میرے ہم زلف آئے۔ میں نے ان کو دیکھا۔ وہ اچھے انسان ہیں۔ میں نے ماجرا بیان کیا تو سُن کر بولے "یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ میں چلا لوں گا۔ ٹینشن نہیں لیتے۔ "

دُلہن کی جانب سے لوگ آ آ کر ملتے رہے۔ سلامیوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ میں ذہنی کوفت سے نڈھال ہوتا رہا۔ پھر رخصتی کا وقت بھی آ گیا۔ خواتین کی آہیں نکلنا شروع ہوئیں۔ دُلہن کو اس کی رشتہ داری خواتین گلے لگ لگ کر تسلیاں دینے لگیں۔ کوئی کوئی میری جانب بھی آ کر کہتی " ہماری بیٹی کا دھیان رکھنا گو کہ تمہارا خود کا دھیان رکھنے والا کوئی نہیں! بس دو ہی جی ہو آپس میں خوش رہنا"۔ میں نے آزو بازو دیکھا تو مجھے نجانے کیوں لگا کہ خواتین کی اکثریت دُلہن کی جدائی کے سبب کم اور مجھے دیکھ دیکھ زیادہ آبدیدہ ہو رہی تھیں۔ ان کا دھیان میری جانب تھا۔ ان کی نظریں مسلسل مجھ پر ٹکی تھیں۔ کئیوں کی تو ہچکی بندھنے لگی تھی۔ بعضی بعضی خواتین کی دھاریں بلند ہو رہی تھیں۔ مجھے لگنے لگا کہ یہ شادی کی رخصتی نہیں دس محرم کے جلوس کی برآمدگی ہو رہی ہے۔ میری آنکھ بھی بھر آئی۔ مجمع میں کوئی شیعہ خاتون نہیں تھی وگرنہ شاید " وائے غربت" کا بین بھی بلند ہوتا۔

مجھ سمیت سب رو چکے تو بیگم گاڑی میں بیٹھ گئی۔ میں نے اپنے سب سسرالیوں سے باری باری رخصت لی۔ میرے ہم زلف ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے۔ عادل نے مجھے اشارے سے الگ بلایا تو میں گھبرا کر اس کی جانب چل دیا کہ اب کوئی نیا کٹا تو نہیں کھُلنے والا۔ عادل نے گلے ملتے اجازت چاہی اور کان میں بولا

"لو شاہ جی۔ میرا کام یہیں تک تھا۔ بارات بھُگت گئی۔ "۔ یہ کہتے اس کے قہقہہ لگایا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے کہا " عادل! جو ہوا سو ہوا مگر تم یاروں کے یار ہو۔ خوش رہو۔ "

وہ رخصت ہوا۔ میں رخصت ہوا۔ گاڑی کراچی کی سڑکوں پر تنہا چلتی رہی۔ شام ڈھل گئی۔ رات کے سائے پھیل رہے تھے۔ ہم زلف بھائی بولے " شکر ہے مہدی بھائی اس کار کی پھولوں سے سجاوٹ نہیں کروائی وگرنہ دُلہے کی سجی ہوئی تنہا کار کراچی میں محفوظ نہیں"۔ پتا نہیں وہ مجھے اپنے تئیں جگت لگا رہے تھے یا سچ میں مجھے مطلع کرتے ہوئی میری عقلمندی کے معترف ہو رہے تھے۔ گاڑی کی منزل پی سی ہوٹل تھی جہاں میرا قیام تھا۔ بیگم دُلہن بنی چپ چاپ بیٹھی تھی۔ دراصل وہ بہت کچھ ضبط کئیے ہوئے بیٹھی تھی۔ اگر گاڑی میرے ہم زلف اور اس کے بھائی جان نہ چلا رہے ہوتے تو شاید وہ بہت کچھ بولتی۔ صبح سے شام تلک میں نے جو بھگتا سو بھگتا۔ اب آگے نئی ذلالت منتظر تھی۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Jogi Aur Nehru

By Rauf Klasra