1.  Home
  2. Blog
  3. Sadiq Anwar Mian
  4. Dunya Ke Peeche Kab Tak

Dunya Ke Peeche Kab Tak

دنیا کے پیچھے کب تک

ہر شخص دنیا کے پچھے لگ چکا ہے۔ ہم میں سے کسی کو آج یہ معلوم نہیں کہ ہم کہاں تک آگئے۔ دیکھیں یہ دنیا جو کہ ختم ہونے والی ہے۔ یہ ہم سب کا ایمان اور عقیدہ ہے۔ ہم نے دیکھا کہ بہت سے چہرے اس دنیا میں آئے ہیں بہت سے با اثر شخصیات اس دنیا میں آئے اور چلے گئے۔ کچھ واقعات ہمارے نظروں کے سامنے ہوئے اور کچھ واقعات ایسے ہیں جو کہ پہلے زمانے میں ہوئے ہیں۔

قران میں بھی کچھ واقعات کا ذکر ہے اور مختلف علماء کرام اور تابعین نے بھی پرانے اوقات کے کچھ شخصیات پر مختلف کتابیں لکھیں ہیں۔ یہ واقعے ہم سب کیلئے ایک سبق آموز واقعے ہیں اور حقیقت پر مبنی ہے۔ یہ واقعات خاص طور پر ہم مسلمانوں کیلئے ایک سبق ہے کہ سدھر جاؤ ورنہ حشر ایسا ہوگا جو کہ پہلے لوگوں کا ہوا تھا۔ ہم مسلمان اصل میں ہر کسی کے ساتھ جانا چاہتے ہیں ہر کسی سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ہر کسی کو شکست دینا چاہتے ہیں لیکن ہماری جو سوچ ہے ہمارے جو مقاصد ہیں اور ہم جس سے جس میدان میں جس طریقے سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں وہ ہمارے لئے ٹھیک نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جن سے مقابلہ چاہتے ہیں وہ یہودی، عیسائی، ہندوووں، اور مختلف دیگر مذاہب کے لوگ ہیں جن کی صرف یہی دنیا زندگی ہے یعنی آخرت میں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے جو اس دنیا سے بے ایمان چلا وہ آخرت میں ساری عمر دوزخ میں اور عذاب میں رہے گے۔ اور ان لوگوں کو پتہ بھی ہے کہ ہم غلط راستے پر چل رہے ہیں لیکن ضد کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لا رہے۔

دیگر مذاہب کے لوگوں کی یہ بھی کوشش ہے کہ کیسے ہم مسلمانوں کو اپنے مذہب کے طرف راغب کرے اور اس کوشش میں کافی حد تک یہ لوگ کامیاب ہوچکے ہیں۔ ہم مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ مسلمانوں کیلئے یہ دنیا ایک جیل کی مانند ہے۔ مسلمان اس دنیا میں ایسی زندگی گزارے بے جیسے کوئی قیدی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم تو دنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ہماری سوچ آج کل کچھ اور ہے۔ ہم نے اپنے دین کو پیچھے رکھا ہے۔ ہم دین کے کاموں کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ ہم نے دنیا کو اہمیت دی ہے۔ ہم نے پیسے کو اہمیت دی ہے۔ ہم نے اس مصنوعی دنیا کی مصنوعی رنگینیوں کو اہمیت دی ہے۔ یہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔

قارون جیسا امیر شخصیت کوئی نہیں تھا اس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ قارون اتنا امیر تھا کہ ان کے خزانوں کے چابیاں اونٹوں پر لے جایا کرتے تھے۔ تو آپ سوچے کہ کسی کے پاس اتنی دولت ہوں اور کوئی اتنا بھی امیر ہوں اور وہ پھر بھی کہے کہ یہ کچھ نہیں مجھے پوری دنیا چاہیئے تو کیا خیال ہے۔ قارون جیسا شخص دنیا کی خواہشات پوری نہ کرسکا۔ قارون کو اتنے خزانے کچھ دے نہ سکا اور قارون کچھ حاصل نہ کرسکا تو ہم کون ہیں۔ ہم کون ہیں کہ ہم کچھ دولت حاصل کرکے اس دنیا کی خوشی حاصل کریں گے کبھی نہیں یہ ہم سب کا وہم ہے۔

میں اگر آج کے دور کی مثال آپ کو دو تو سیاستدانوں کی دے سکتا ہو جو کہ بلکل ہمارے نظروں کے سامنے ہیں۔ نواز شریف، زرداری، عمران خان، ان سب کے پاس کم سے کم اتنا دولت ضرور ہے کہ وہ دنیا کی ساری ضروریات ساری خواہشات پوری کرسکتے ہیں لیکن پھر۔ بھی وہ یہ سب کچھ کم سمجھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ کتنی بڑی بے وقوفی ہے کہ بلا وجہ بلا ضرورت اپنے اوپر اتنے بوجھ ڈال رہے ہیں۔ کیوں اپنے کندھوں پر ملک کا بوجھ ڈال رہے ہیں اس دنیا کو حاصل کرنے کیلئے اور دنیا ہاتھ میں آنے والی نہیں ہے۔ تو اس سے اور بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہے جتنے بے وقوف ہم ہیں اور ہمارے ملک کے سیاست دان ہیں۔

دنیا کے پچھے بھاگنا مسلمانوں کی سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ ہم مسلمانوں کیلئے زندگی بس ضروریات کے مطابق گزارنے چاہیئے۔ ضرورت سے زیادہ کسی چیز کی جستجو کرنا ہمارے لئے اچھا نہیں ہے۔ ہمارے لئے تو اصل میں آخرت کی زندگی ہے۔ ہم یہاں زندگی گزارے گے دنیا کے پیچھے نہیں لگے گے۔ ہم دنیا کے پیچھے لگ جائے گے تو دنیا بھی ہاتھ سے جائے گی اور آخرت کی زندگی بھی ہاتھ سے جائے گی۔ تو ہم سب کو دنیا پیچھے رکھنی چاہئیے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے دنیا اپنے آگے کی ہے اور ہم اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اسی لئے تو ہم مسلمان ناکام ہیں۔

Check Also

21 Topon Ki Salami To Banti Hai

By Muhammad Waris Dinari