1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sabiha Dastgir/
  4. Subh e Nao

Subh e Nao

صبح نو

بلندوبالا دیواروں اور سرخ اینٹوں سے بنی خان حویلی خاندانی روایتوں کی امین تھی۔ وسیع وعریض حویلی کے مکینوں میں دو بھائیوں کے خاندان آباد تھے۔ لیکن خاندان کا ہر چھوٹا بڑا فیصلہ جہانگیر خان کے حکم اور فیصلے کا پابند تھا۔ شاہ میرخان زمین جائیداد، شادی بیاہ، غرض ہرمعاملے میں بڑے بھائی کی فرمانبرداری کرتے آئے تھے۔ حویلی کے فیصلے بدلتے وقت کے تقاضوں سے قطعا بے نیاز تھے۔ یہاں جھکنے سے ٹوٹ جانے کو بہتر سمجھا جاتا تھا۔ روایتوں کی بقا کے لئے اپنی خوشیوں کو دان کردینا بہت معمولی خراج سمجھا جاتا تھا۔

جہانگیر خان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی امینہ تھی۔ جب کہ شاہ میرخان کی اکلوتی اولاد رضا سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔ امینہ بھی کچھ کم لاڈ نہ اٹھواتی تھی، کہ دونوں گھرانوں کی اکلوتی بیٹی جو ٹھہری۔ امینہ کے دونوں بھائیوں کی شادی اپنی برادری میں ہو چکی تھی۔ بچپن میں جب بھی امینہ ہنڈ کلہیا اور گڑیا گڈے کا بیاہ رچاتی، تو ایسے میں رضا ہی گڈا بن کر اس کی گڑیا کا گھرآباد کرتا۔ وہ سج دھج کر گڑیا کے ساتھ براجمان ہوجاتا، اور اس سے تین سال بڑی امینہ پورے گھر میں اترائی پھرتی کہ اسکی گڑیا کو بہت اچھا دولہا ملا ہے۔

وقت پر لگا کر اڑ گیا، امینہ انٹر کرنے کے بعد گھر ہی میں امور خانہ داری سیکھنے میں مشغول ہوگئی تھی۔ رضا کو بارہویں کے بعد اعلی تعلیم کے لئے انگلینڈ بھیج دیا گیا۔ امینہ کے لئے خاندان میں کوئی موزوں رشتہ موجود نہیں تھا۔ اور خاندان سے باہر شادی خان حویلی کے لئے شجر ممنوعہ تھی۔ آج رضا چار سال کے بعد اپنی ڈگری لے کر واپس آرہا تھا۔ حویلی میں جشن کا سا سماں تھا۔ رات کے کھانے کے بعد سب جہانگیر خان کے کمرے میں جمع ہوگئے۔ جب ہی انہوں نے چند اہم فیصلوں کا اعلان کیا۔ جس میں ایک وہ جو کسی بم دھماکے سے کم نہیں تھا، اور اسے سن کر رضا کو اپنا مستقبل اور خواب ریزہ ریزہ نظر آنے لگے۔ فیصلہ رضا اور امینہ کی شادی کا تھا۔ جہانگیر خان خاندانی رکھ رکھاؤ، جدّی پشتی املاک اور زمینوں کے تحفظ کا اس سے بہتر سجھاؤ، نہیں ڈھونڈ سکے۔ اس فیصلے سے کوئی بھی خوش نہیں تھا۔ وہ رات حویلی کے مکینوں پر بہت بھاری تھی۔

اگلے دن صبح کا سورج طلوع ہونے پہلے رضا حویلی چھوڑ کر واپس انگلینڈ لوٹ چکا تھا۔ امینہ کے دل سے جیسے منوں بو جھ ہٹ گیا۔ اگرچہ کسی نے اس سے پوچھنا اہم نہیں سمجھا تھا، لیکن وہ رضا کے فیصلے سے متفق تھی۔ ڈر، خوف اور مصلحت کے تحت کیے گئے رشتوں کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔ زندہ انسانوں اور ان کے جذبات و احساسات کے ملبے پر فرسودہ روایات اور نئے رشتوں کی عمارت ممکن نہیں۔ اس کا دل اور دماغ دونوں ہی اس کے حق میں نہیں تھے۔ دن مہینوں اور پھرسالوں میں بدلتے گئے۔ جہانگیر خاں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔

امینہ نے باپ سے اجازت لے کر اپنی زمینوں پر لڑکیوں کے لئے سکول اور مفت ڈسپنسری کی بنیاد رکھی۔ امینہ کی زندگی کو مقصد مل گیا تھا۔ جو زمینیں دو لوگوں کی خوشیوں میں حائل ہونے والی تھیں، آج ان کی وجہ سے بے شمار لوگ تعلیم اور صحت سے فیض یاب ہو رہے تھے۔ وہ ہر لحاظ سے مطمئن تھی اور ہمیشہ رضا کے لئے دعا گو رہتی کہ وہ جہاں بھی ہو، خیریت سے ہو۔ گاؤں سے کچھ لڑکے انگلینڈ گئے تو انہیں رضا کے بارے میں بھی پتہ چلا۔ انہوں نے امینہ سے رابطہ کیا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس نے رضا کو فون کرکے سب کچھ بھلا کر حویلی آنے کی دعوت دی۔ چند مہینوں بعد رضا اپنی فیملی کے ساتھ حویلی پہنچا۔

پورے خاندان نے پر جوش استقبال کیا۔ باپ کی قبر پر پہنچا، ڈھیروں آنسو بہائے، بغیر بتائے گھر چھوڑنے پر معافی کا خواستگار ہوا۔ بابا، آپ کے ڈر سے کچھ کہہ نہیں سکا، اور جو آپ نے کہا وہ ماننا میرے بس میں نہیں تھا۔ تو حویلی چھوڑنا ہی سمجھ میں آیا۔ واپسی کے خیال پر پشیمانی پاؤں پکڑ لیتی تھی۔ سب کچھ کہنے کے بعد کہیں جا کر دل کا بوجھ ہلکا ہوا۔ امینہ تو اس کے بچوں کو دیکھ کر نہال اور ان پر صدقے واری جا رہی تھی۔ سب نے رضا کو لوٹ آنے پر زور دیا۔ جس پر اس نے کہا کہ اس کے بچے اب وہاں کے تعلیمی نظام میں سیٹ ہو چکے ہیں۔ لیکن اس نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان آتا رہے گا۔

آج صبح سویرے رضا کی فیملی کو واپس انگلینڈ جانا تھا۔ حویلی کے درود یوار پر پھر سے اداسی چھانے والی تھی۔ امینہ تو اس کے بچوں کی جدائی کے خیال سے ہولائی جا رہی تھی۔ رضا کی بیٹی کو رخصت کرتے وقت امینہ نے اپنی گڑیا اس کو دیتے ہوئے کہا کہ میں حویلی سے جڑی اپنی ایک خوبصورت یاد آپ کے حوالے کر رہی ہوں۔ میرے سارے بچپن میں میری گڑیا کے لئے آپ کے بابا سے اچھا گڈا کبھی نہیں ملا، لیکن اب یہ آپ کے ساتھ جا رہی ہے۔ آپ اس کے لئےانگلینڈ سے کوئی اچھا سا گڈا ڈھونڈ کر اس کی شادی کرنا۔

رضا نے کہا کہ صرف ایک شرط پر جب آپ بھی اس شادی میں آئیں گی؟ امینہ نے مسکراتے ہوئے مان لیا۔ حویلی میں آج ایک نئی صبح کا آغاز تھا۔ پرانے فیصلوں اور پچھتاووں کی گرد چھٹ چکی تھی۔ رضا اور امینہ کو یوں لگا جیسے دور کھڑے جہانگیر خاں ان دونوں کو دیکھ کر بہت خوش ہیں، اور ان کے لئے دعا گو ہیں۔

Check Also

Gustakhi Ki Talash Aur Hum

By Qasim Asif Jami