Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Rubina Faisal/
  4. Imran Khan Ki Zindagi Aik Mashal e Rah

Imran Khan Ki Zindagi Aik Mashal e Rah

عمران خان کی زندگی ایک مشعلِ راہ

میں عمران خان سے تین دفعہ مل چکی ہوں اور ان ملاقاتوں کا حال کالمز میں لکھ بھی چکی ہوں۔ 2008 میں ابھی مینار پاکستان والا جلسہ نہیں ہوا تھا اور سیاست میں خان صاحب کو ابھی ماننے والے بہت کم تھے اور کبھی وہ وزیرِ اعظم بھی بن سکتے ہیں یہ تو کسی کو گمان بھی نہیں تھا۔ اس لئے خان صاحب سے ملنا، ان سے باتیں کرنا، کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ مگر میرے لئے عمران خان اس وقت بھی ایسی پسندیدہ شخصیت تھے کہ جن کی خاطر میں اپنے مہینہ بھر کے بچے کو امی کی پاس چھوڑ کر ملنے چلی گئی تھی۔ اس وقت ایسی قربانیاں اپنے لوگ صرف بالی ووڈ کے فنکاروں کے لئے ہی دیا کرتے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب، عمران خان میرے نزدیک کوئی خاص قد کاٹھ کا سیاسی رہنما نہیں تھا۔ وہ میرے لئے صرف ایک ایسا انسان تھا جس کے دل میں پوری دنیا میں پاکستان کا نام بلند کرنے کا خواب اور غریب پاکستانی کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ بہت واضح طور پر نظر آتا تھا اور بس یہی چیز میرے نزدیک اسے ایک خاص انسان بناتی تھی۔ اس خاص انسان کو ملنے کے بعد دل میں اس کی قدر مزید بڑھ گئی۔ خان صاحب کی اسی ٹرپ میں انہیں ائیر پورٹ تک چھوڑنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا اور ان دو ملاقاتوں کی یادیں آج بھی تازہ دم ہیں یوں جیسے کل کی بات ہو۔

2012 میں دوسری ملاقات ہوئی۔ تب ان کا سیاسی قد بڑھ چکا تھا، اسی حساب سے یہاں کینیڈا میں ان کے گرد لوگوں کا ہجوم بھی سائز میں بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنا چہرہ بھی بدل چکا تھا۔ اس ملاقات میں صرف پریس کانفرس میں ان کے ساتھ سوالات کا موقع ملا اور ان کے قریب بیٹھ کر باتیں کرنے کی سعادت نہ حاصل ہو سکی۔ پہلے دورے کی نسبت اس والے میں ان کے چہرے پر خواب کم اور عزم زیادہ نظر آئے جس کی وجہ سے چہرے پر تناؤ کی لکیریں ابھر آئی تھیں۔

ان دو ملاقاتوں کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ اب جو بات میں کہنے جا رہی ہوں اس کا مقصد، خان صاحب کے بارے میں مخالفین کو کچھ نہیں بتانا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ان میں سے نوے فی صد ان کے حاسدین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خان صاحب کی خوبیوں کو ان کے حامیوں سے زیادہ جانتے ہیں اور اسی آگاہی نے ان کی راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں اور ان کو ایک مسلسل بغض اور حسد میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہاں مجھے چند باتیں خان صاحب کے حامیوں کو ان کے مریدوں کو بتانا بلکہ یاد دلانا ہے۔۔ عمران خان عمران خان کیوں ہے اور اب میرے جیسے انسانی اور پاکستانی تاریخ سے آگاہی رکھنے والے لوگ بھی انہیں مرشد کیوں کہنے لگے ہیں؟

پاکستانی مردوں کا اسلام جیسے چار شادیوں سے آگے نہیں بڑھتا اسی طرح یقین مانئیے خان صاحب کے مخالفین تو چھوڑیں ان کے مریدوں کا بھی خان صاحب کی سحر انگیز پر کشش شخصیت اوررومانوی افئیرز کی کہانیوں سے آگے نہیں بڑھتا۔ عمران خان کی ذات کو ان چیزوں سے ہٹ کر دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے کہ اس کی ذات سے آپ کیا کیا سبق سیکھ سکتے ہیں۔

سب سے پہلے آجائیں اللہ پر توکل۔۔ دل سے اس بات پر ایمان ہو تو بندہ، طاقتوروں کے آگے نہیں جھکتا۔ یہ سب سے پہلا سبق ہے جو خان صاحب کی ذات سے ملتا ہے۔

پھر آجائیں جسمانی فٹنس کی طرف۔۔ میں نے ایک دفعہ فیس بک سٹیٹس بھی لگایا تھا کہ میں جب ایکسرسائز سے تھکنے لگتی ہوں تو میرے سامنے عمران خان آجاتا ہے۔ یہاں تک کہ جم میں کچھ فرینڈز نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ تم اتنی سخت ایکسرسائز اتنی سہولت سے کیسے کرلیتی ہو؟ تو میں نے انہیں عمران خان کی دھرنے میں پش اپس لگانے کی ویڈیو دکھاتے ہوئے بتایا تھا کہ میری موٹیویشن یہ شخص ہے۔ اس کو فالو کرنے والے سخت جسمانی مشقت بھی نہ کر سکیں تو کیا فائدہ اسے فالو کرنے کا۔ خان سے محبت کرنے والے تن آسان نہیں ہو سکتے ہیں۔

عمران خان کی زندگی سے تیسری چیز جو سیکھی جا سکتی ہے وہ ہے خودداری اور عزت نفس۔ اس کی کرکٹ کی زندگی دیکھ لیں، گوروں کی آنکھیں میں آنکھیں ڈال کر بات کی اور اس احساسِ کمتری کو ختم کیا جو ہماری سکن میں یہ کہہ کہہ کر انجیکٹ کیا ہوا تھا کہ گوروں سے عزت سے ہارنا ہی بڑی بات ہے یعنی جیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس ماحول میں خان صاحب نے کہا کھیلنا ہے تو برابری کی سطح پر کھیلنا ہے۔ بوتھم، للی کون تھا جس کے چیلنج کا جواب نہیں دیا؟

میں خان کے ایسے فالورز کو دیکھتی ہوں جن میں عزت نفس نام کی چیز نہیں اور وہ اپنی ضرورتوں یا عیاشیوں کے لئے ہاتھ پھیلانے سے باز نہیں آتے تو میں سوچتی ہوں ایسے فالورز سے تو مخالفین ہی اچھے کم از کم وہ خان کی ذات پر ایمان تو نہیں رکھتے نا۔ یاد رکھیں خان صاحب کے ہی الفاظ ہیں کہ ہوش سنبھالتے ہی اپنے والد سے بھی جیب خرچ لینا گوارا نہیں ہوتا تھا۔

چوتھا نکتہ ہے "احساس" جب میں بے حس، خود ستائی اور خود نمائشی میں گھرے خان کا کوئی فالورز دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں ان ذاتی مفاد پرستوں نے خان کی ذات سے کیا سیکھا؟ خان تو وہ شخص ہے جس نے اپنی ماں کی بیماری کی تکلیف کو کتنے لوگوں کی تکلیف کا علاج کرنے کی وجہ بنا لیا تھا۔ جس شخص کو اپنی ذات کی خاطر اپنے باپ سے جیب خرچ مانگتے شرم آتی تھی اس نے غریبوں کے لئے کہاں کہاں ہاتھ نہیں پھیلائے۔ اسی احساس نے اس سے ہیلتھ کارڈ اور پناہ گاہیں اور احساس پروگرام بھی شروع کروایا۔

جب جمائما کو جعلی ٹائلوں میں اور کبھی کسی جھوٹے الزام میں ذلیل خوار کیا گیا تو اسی احساس نے عمران خان کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ جب اس جیسے نامی گرامی ہیرو کو اس ملک میں انصاف نہیں مل سکتا تو باقی عام غریب لوگوں کے لئے کیا ہی قیامت ہوگی۔ اس دن سے اس کی انصاف کے لئے لڑائی شروع ہوگئی۔ یہی دوسروں کا احساس ہمیں اچھا انسانی معاشرہ بنانے میں مدد دیتا ہے۔ یہ بات عمران خان کے فالورز کو پلے سے باندھ لینی چاہیئے۔

پاکستانی معاشرے میں کتب بینی تقریبا ناپید ہو چکی ہے۔ عمران خان کے فالورز کو ان کی ذات سے یہ سبق بھی لینا چاہیئے تھا لیکن نہیں لیا جارہا۔ عمران خان اس وقت شائید وہ واحد پاکستانی سیاسی لیڈر ہے جو کتاب پڑھتا ہے، جو قران پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھتا ہے۔ میں پھر دہراتی ہوں کہ عمران خان کی زندگی، اس کی شخصیت میں بہت سی روشنیاں ہیں جو ہم جذب نہیں کر پارہے اور مخالفین کے پراپگنڈے کے جواب دینے میں الجھے رہتے ہیں جس کا وجود ہی کوئی نہیں ہوتا۔ وہ مقابلہ اپنی جگہ مگر خان کی پیروی کرنا اپنی جگہ وہ ٹھیک سے نہیں ہو رہی۔ سبق بغیر پڑھے صفحات الٹ رہے ہیں۔

سادگی، اس کی ذات کا وصف ہے۔ بناوٹ سے لتھڑے معاشرے میں یقین جانئیے خان صاحب کی ذات کی یہ خوبی تقلید مانگتی ہے۔ اپنے مزاج کو سادہ رکھیں۔

ڈسپلن، یہ ایک ایسا وصف ہے جس نے خان صاحب کو جیل میں بھی متحرک اور اینرجیٹک رکھا ہوا ہے۔

خود اعتمادی، مستقل مزاجی اور بلند عظم رکھنا، یہ سب اوصاف خان کو چاہنے والوں میں موجود ہونے چاہیئے ورنہ یہ عشق پھیکا اور بے سواد ہے۔ جس کا فائدہ نہ خان کو ہوگا اور نہ چاہنے والوں کو یہ مشقت لایعنی ہی رہ جائے گی۔ اس ساری تحریک میں روح دیر پا اسی صورت برقرار رہے گی جب ہم مرشد کے رنگ میں رنگیں جائیں گے۔۔

اب وہ محض ایک سیاسی رہنما نہیں اب اس کی زندگی سے نسلوں کی زندگیاں روشن ہوسکتی ہیں۔ کردار سازی میں ایک عملی نمونہ آپ کے سامنے ہے۔ اس کا خاکہ ذہن میں رکھئیے، ہر شعبے میں رہنمائی مل جائے گی۔ خان آپ کو سر اٹھا کر زندگی جینا سکھاتا ہے۔ یہی سبق لیں اور یہی دشمن کی سب سے بڑی شکست ہوگی۔

جب ایک جسمانی طور پر مضبوط، باعزت، خوددار، دلیر، ایماندار، باشعور اور احساس کرنے والی نسل تیار ہو کر جھوٹ اور بے غیرتی کی مٹی سے گوندھی گئی بزدل، بکاو نسل کو ہرا دے گی تب عمران خان کی جیت ہوگی۔

Check Also

General Sahib Aur Razi Ba Raza (2)

By Muhammad Saqib