Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Rubina Faisal/
  4. Doghli Aurat (1)

Doghli Aurat (1)

دوغلی عورت (1)

یہ تحریر اس حیرت کے بعد لکھی گئی ہے جو مجھے کشور ناہید کے اس مضمون کو پڑھ کر ملی جس کا تذکرہ ہمارے معروف صحافی حامد میر نے اپنے کالم میں بھی کیا ہے جس میں بقول حامد انہوں نے عمران خان کے خلاف مردانہ وار قلم چلایا ہے۔۔

طوالت کے باعث اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ آپ مکمل ارتکاز کے ساتھ وہ جھوٹ، وہ تضاد، وہ دو غلے رویے دریافت کر سکیں جو ہمارے معاشرے کی تباہی کی اصل جڑ ہیں۔

احمد بشیر مرحوم (نیلم احمد بشیر، بشری انصاری، سنبل اور اسما کے والد محترم) اس لئے میرے پسندیدہ لکھاری ہیں کہ ان کی سادگی اور خلوص کی مٹھاس ان کے لکھے ایک ایک تلخ لفظ سے بھی ٹپکتی ہے۔ مجھے بن ملے ہی ان کی سچائی پر ایمان اس لئے ہے کہ میں ان کی بیٹی نیلم احمد بشیر سے مل چکی ہوں۔ اتنی بڑی مصنفہ ہو نے کے باوجود جتنی"سادگی اور سچائی" ان میں ہے وہ احمد بشیر کا ہی عکس ہو سکتا ہے۔

احمد بشیر کی ایک خاکوں کی کتاب ہے"جو ملے تھے راستے میں"، اس میں سب ہی خاکے پڑھنے لائق ہیں مگر ایک خاکہ چھپن چھری ضرور پڑھئیے گا۔۔ اس کو پڑھنے کے بعد بھی میں دل و جان سے اس بات پر ایمان رکھتی تھی کہ میری یا دوسرے لوگوں کی ذاتی پسند ناپسند ایک طرف مگر محترمہ کشور ناہید صاحبہ حقوقِ نسواں، جابر حکمرانوں پر بے لاگ تنقید، برا بر انسانی حقوق کے لئے ایک بلند آواز ہیں مگر۔۔

اس مگر کو فی الحال میں یہیں چھوڑتی ہوں اور بات کر تی ہوں احمد بشیر کی چھپن چھری کی۔۔

وہ لکھتے ہیں کہ جب پہلی دفعہ کشور ناہید نے انہیں اپنی دوسری کتاب کا تعارف لکھنے کو کہا تو وہ حیران ہو ئے کہ تب تک وہ ان کو اتنا نہیں جانتے تھے۔ انہوں سادگی سے پو چھا میں ہی کیوں لکھوں اور کیا لکھوں تو محترمہ نے فرمایا "چونکہ تم مجھے زیادہ جانتے نہیں اس لئے مجھ پر لکھنے کے لئے تمہیں گپیں ہانکنی پڑیں گی اس سے تقریب دلچسپ ہو جائے گی، میں ان لوگوں کے نام بھی بتا دوں گی جن کے ساتھ میرے سیکنڈل قابل قبول ہوں گے"۔

احمد بشیر، مگر میں سیکنڈل نہیں گھڑنا چاہتا، لوگوں کی بیویاں طلاقیں لینے لگیں گی۔ کشور ناہید، ارے نہیں، کوئی طلاق نہیں لیتا نہ دیتا ہے، بس بوریت دور ہو جاتی ہے، بلکہ سیکنڈل میں فائدہ ہی ہوتا ہے۔

احمد بشیر، نہ بھائی میں کسی کے خلاف سیکنڈل نہیں گھڑتا۔

کشور، تو اپنے ساتھ گھڑا لو۔

احمد بشیر، کوئی بات بھی تو ہو میرے ساتھ خواہ مخواہ؟

کشور، بات کا کیا ہے میں تمہارے دفتر آکر تمہارے زانو سہلا دوں گی، تم فوٹو گرافر تیار رکھنا۔۔ "

مجھ ناچیز نے بہت سال پہلے جب یہ خاکہ پڑھا تو یوں پڑھا کہ آزاد انسان ایسے ہی سوچتے ہو ں گے۔۔ یہ آزاد منش خاتون ہیں یقینا انہیں زندگی میں بہت تنقید سننے کو ملی ہوگی تب ہی تو انہوں نے اپنی آپ بیتی کو طنزاً "بری عورت کی کتھا" کہا ہے۔

اپنی اِس کتھا میں، وہ ایسے انسانوں کا عمومی اور ایسی عورتوں کا خصوصی دکھ لکھتی ہیں جو زندگی آزادی سے، اپنے حساب کتاب سے، اپنی سوچ سے جینا چاہتے ہیں اور زمانہ کیسے کیسے ان پر انگلیاں اٹھاتا ہے۔۔

اپنی کتھا میں وہ لکھتی ہیں۔۔ "چھت پر چڑھ جانا تو شور، اے ہے کوئی بلا بھوت چمٹ جائے گا، اے ہے لمبی چٹیا کوئی جن بھوت دیکھے گا تو عاشق ہو جائے گا۔۔ اے ہے شادی خود کرلی (پسند کی شادی تھی) شرع منع کرتی ہے۔ میں دودھ نہیں بخشوں گی۔۔ اماں نے کئی سال تک میرا چہرہ نہیں دیکھا اور جب دیکھا تو کلیجے سے لگا کر پیار نہیں کیا۔۔ اے ہے شوہر کے مرنے کے پندرہ دن کے بعد وہ دفتر جا رہی ہے۔ عدت بھی پوری نہیں کر رہی۔۔ توبہ توبہ کیا زمانہ آگیا ہے"۔

اس معاشرے کو یہ بے باکی پسند ہو یا نہ ہو، مجھے یہ سب اچھا لگتا ہے یا نہیں مگر میں یہ تسلیم کر چکی تھی کہ کشور ناہید بوسیدہ رسم و رواج کی ایک باغی عورت ہے۔ اور انہیں اس بات کا کر یڈٹ دینا میں اپنا فرض سمجھتی تھی۔۔

آہ! یہ کتنا بڑا جھوٹ تھا جو ہماری نسل کو ان نام نہاد لبرلز نے گڑتی کے نام پر چٹایا گیا تھا۔ میں کتنی غلط تھی اس لئے نہیں کہ میں ناسمجھ تھی اس لئے کہ جنہیں ہماری نسل صحیح سمجھتی رہی وہ کتنے غلط نکلے۔۔

پھر اس کتھا میں کچھ ایسے واقعات بھی تحریر ہیں جس میں کبھی کوئی استانی یا کبھی کسی کولیگ یا کسی سہیلی نے کشور ناہید کو گندی نظروں سے دیکھا مگر وہ اپنا دامن صاف بچا گئیں اور ہم جنس پرستی کی اس لعنت سے محفوظ رہیں۔

وہ ایم اسلم، تیسی رام پوری، اس طرح کے ناولوں میں ہیرو ہیروئن کے ملاپ، شب عروسی کے قصے بار بار اور چھپ کر پڑھنے اور اس کے بعد لمبے لمبے سانس لے کر لطف اٹھانے تک ہی محدود تھیں۔۔ حالانکہ لکھتی ہیں کہ ان کے سکول میں استانیوں اور لڑکیوں کے عاشقانہ قصے عام تھے۔

پھر اس باغی لڑکی نے سکول میں ہیڈ مسٹریس اور سیکنڈ ہیڈ مسٹریس کو بھی مطالعہ کے بڑے کمرے میں سرگوشیوں اور قہقوں کے درمیان ایک دوسرے کی گود میں دریافت کیا۔ اور وہاں سے بھی بھاگ گئیں۔۔

لکھتی ہیں، میرے لئے تو بے لطفی بھی اس لئے تھی کہ میں تو خود اسی ذائقے کے پاس سے بھاگی تھی"۔۔

اس بات کا ملال شائید انہیں عمر بھر رہا، اسی لئے تو اِس عمر میں جب وہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ہڑپ کر چکی ہیں، ایسی باتوں کے متعلق سوچتی رہتی ہیں اور اپنے ذہن میں قصے بناتی رہتی ہیں ورنہ وہ ایک قومی ہیرو کے بارے میں ایسا فضول بہتان بغیر ثبوت کے نہیں لگاسکتی تھیں۔

اور سنئیے۔۔ وہ، برقعہ کے بارے میں لکھتی ہیں۔۔ "ہاں برقعہ تو سات سال کی عمر سے سر پر چڑھا اور یو نیورسٹی تک رہا۔ کالج یونیورسٹی کے زمانے میں لیڈیز روم میں برقعہ رکھ کر مباحثے اور مشاعرے میں حصہ لیتی پھر واپس برقعہ اوڑھ کر گھر پہنچ جا تی۔۔ "

اس ایک عمل میں کشور ناہید صاحبہ کی نسل کی منافقت نظر آجانی چاہیئے تھی مگر ہم لاتوں کے بھوت ہیں ایسی باتوں سے کہاں مانتے ہیں۔

ان کی کتھا میں ہر اس بزرگ یا سنئیر شاعر کا کچا چٹھا کھولا گیا ہے جس نے شاعری کی اصلاح کی آڑ میں محترمہ پر ہاتھ صاف کرنا چاہا اور پبلک میں کہتے سنا کہ، "ارے یار اٹھنے ہی نہیں دیتی تھی، بڑی مشکل سے اٹھ کر آیا ہوں۔۔ " مگر ساتھ ساتھ ایسے کئی بزرگ شاعروں کا بھی تذکرہ ہے جس کی رہنمائی میں انہوں نے بہت کچھ سیکھا مگر تب یہ نہیں بتایا کہ وہ بزرگ اول الذکر سے کیسے مختلف تھے؟

عورت مرد کی برابری کی بات لکھنے والی جب اپنی کتاب میں یہ لکھے کہ ہم نے اپنے افسروں سے دفتر کے سارے رکے ہوئے کام، ان کی خوبصورتی، ٹائی، اور ان کی جوانی کے رعب کے قصے ان سے سن کر مزے سے کروائے ہیں۔۔ تو بات تو سمجھ آجانی چاہیئے تھی کہ احمد بشیر چھپن چھری میں اس کے لئے یہ کیوں لکھ رہے ہیں۔

"اسے یہ معلوم ہوگیا ہے کہ برسر اقتدار لوگوں سے ذاتی تعلقات کے بغیر پاکستان میں زندہ رہنا مشکل ہے۔ اور ایسے لوگوں سے ذاتی تعلقات قائم کرنا اسے آتے ہیں۔ وہ بیک وقت نصرت بھٹو اور شفیقہ ضیا سے ذاتی تعلقات قائم کر سکتی ہے۔ جنرل مجیب الرحمن اور اعتزاز احسن سے برابر تعلقات رکھتی ہے"۔

احمد بشیر کو چھپن چھری لکھ کر دو ضمیمے لکھنے پڑے۔۔ کیوں؟ یہ میں آگے چل کر بتاتی ہوں ابھی ضمیمہ ب سے یہ پڑھئیے اور جان لیجئے کہ جتنی گھٹیا زبان انہوں نے عمران خان کے بارے میں استعمال کی اس کے پیچھے یہی نفسیات ہوگی۔۔

"کشور کی زندگی کا مرکزی جذبہ اپنے منفی امیج کا ابھار ہے۔ وہ احساسِ کمتری کی وجہ سے اچھے بھلے مڈل کلاس اشرافوں اور عزت داروں کو، اگر وہ بڑے عہدوں پر فائز ہوں تو بجلی کے جھٹکے دے دے کر اپنی طرف کھینچتی ہے۔ مگر ان کے بڑے عہدے ختم ہو جائیں تو ان کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتی"۔

اسی خاکہ، وہ میں کشور کی دنیا داری کومزید اجاگر کرتے ہیں، "مثبت امیج کے لئے کشور کے پلے کچھ بھی نہیں ہے۔۔ میں تو اسے خوش کرنا چاہتا ہوں اس لئے میں کہتا ہوں کہ وہ بڑی ذلیل عورت ہے۔ سنگدل ہے، چھوٹوں کو تھپڑ مارتی ہے، بڑوں کے آگے گھوڑی بن جاتی ہے۔ وہ انتہائی دنیا دار ہے۔ ہر قیمت پر آگے بڑھنا چاہتی ہے (یہ نقطہ دھیان سے پڑھاجائے)۔ اس کی کہنی سیمنٹ کی بنی ہوئی ہے۔ وہ سسٹم کو خوب سمجھتی ہے"۔

اب سمجھ جائیے کشور ناہید وغیرہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود کو جبر کے نظام کا باغی کہا مگر درحقیقت پس پردہ اسی نظام سے ہاتھ ملائے رکھے، ورنہ کسی ظالم میں یہ جرات نہ ہو تی کہ وہ ایسے مالشئیوں، پالشئیوں کے بغیر یہ نظام برقرار رکھ سکتا، یہ درحقیقت لنکا کے راون کے وہ ہزاروں ہاتھ ہیں جوایک کاٹو تو دوسرا آپ کو مار گرانے کو آجاتا ہے۔

احمد بشیر نے چھپن چھری میں جب کشور ناہید کو"گشتی عورت" لکھا تو ایک طوفان برپا ہوگیا۔ حقوق نسواں کے علمبردار اپنی اپنی چھریاں نکال کر ان کے پیچھے لگ گئے۔۔ ایک دانشور عورت کو گشتی کیوں لکھ دیا؟

خود کو مردوں کے برابر کہنے والی اور خود کو بے شرم، انوکھی اور بولڈ کہلائی جانے والی، مرد دوستوں کو گالیاں دینے اور ان کی گالیوں سے لطف اندوز ہونے والی کشور ناہید، احمد بشیر کے اسے"گشتی" لکھنے پر ناراض ہوگئی۔۔ اور میں احمد بشیر کی سادگی کی یونہی قائل نہیں۔ وہ اس بات کی وضاحت میں جو دو ضمیمے لکھتے ہیں وہ اس گالی کی نفی نہیں کرتے بلکہ اس کو مذید استقامت اور جلا بخشتے ہیں۔ وضاحتی فقرہ صرف ایک یہی ہے کہ کشور ناہید کو "گشتی" میں نے نہیں اس کے شوہر یوسف کامران نے کہا تھا میں نے تو صرف اس کے کہے کو خاکے میں لکھ دیا تھا۔۔

گشتی والا پیرا گراف بھی لکھ ہی دوں۔۔

احمد بشیر لکھتے ہیں"یوسف کو یوسف کی حیثیت سے جاننے والا واحد شخص میں ہوں۔ ہم دونوں یوسف کی گاڑی میں جارہے تھے۔ آگے ٹانگے پر کشور بیٹھی نظر آئی، میں نے اسے اشارے سے متوجہ کیا اور جلتا ہوا سگریٹ اس پر پھینکا، میں نے ڈھیٹ ہو کر یو سف سے کہا "اس نے نہیں دیکھا"۔

یوسف (کشور کا شوہر، احمد بشیر اس بات سے تب تک واقف نہیں تھے) رکھائی سے بولا "دیکھ لیا ہے بڑی گشتی عورت ہے تم اس کو نہیں جانتے"۔

احمد بشیر کے خاکے میں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ محترمہ کو مرد خاص کرکے بڑی عمر کے مرد لبھانے رجھانے کا بہت شوق تھا، ان کے بارے فرماتی ہیں۔۔ "یہ لوگ بڑے خوب صورت استعارے ایجاد کرتے ہیں، اور اپنے اندر کی کان میں اتر کر آہستہ آہستہ چوری چوری تصورات کے خزینے لا کر میرے قدموں میں ڈھیر لگاتے رہتے ہیں۔ دوسروں سے جلتے نہیں بلکہ ڈرتے ہیں۔ سیکنڈل سے ان کی جان ہوا ہوتی ہے"۔

احمد بشیر لکھتے ہیں، "مگر وہ (وہی بڑی عمر کے مرد) کشور کی بدعادتوں کو جانتے ہیں، اپنی نیاز مندی کے ثبوت میں اس کو اپنا قیمتی سے قیمتی راز بتا کر وسکی پینے چلے جاتے ہیں اور پھر کشور ان کو خوب بدنام کرتی ہے۔ اس کے دل میں ان کے ملامت کے ڈھیر لگے ہو تے ہیں، وہ ان کی جذباتی پرورش کرتی ہے اور پیٹھ پیچھے ان کا مذاق اڑاتے نہیں تھکتی"۔

یہ سب باتیں پڑھ کر، آپ کو یقین ہو جائے گا کہ یہ خاتون بہت آزاد خیال اور آزاد منش ہیں اور ایسی طبعیت کے لوگ نہ صرف اپنے لئے جینے کا مکمل حق چاہتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کو بھی وسعت النظری سے دیکھتے ہیں۔۔ مگر یہ بُت تب پاش پاش ہوتا ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ اپنی آزادی کی خاطر جس منافقانہ سماج کے خلاف جنگ لڑتے رہتے ہیں، اصل میں وہ اسی کا حصہ بن چکے ہو تے ہیں اور ان کی ذات میں دہرا اور دوغلا پن اس قدر پیدا ہو چکا ہوتا ہے کہ ان کی موجودگی معاشروں میں آزادی نہیں بلکہ گھٹن لاتی ہے۔

چھپن چھری میں احمد بشیر مذید لکھتے ہیں"اپنی ہم عمر عورتوں سے اسے نفرت ہے۔ وہ ہر ایک کو چوٹ لگانے اور شکست دینے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ ان کے سامنے ان کے خاوندوں پر اچھل اچھل کر گرتی ہے جن کو اپنے خاوندوں پر ناز ہو ان کے سامنے خاص طور پر۔۔ جب تک ان گھروں میں باقاعدہ فساد نہیں شروع ہو جاتا وہ وہاں جاتی رہتی ہے۔۔ "

احمد بشیر کہتے ہیں"اس نے خود سچ کا چہرہ کبھی نہیں دیکھا۔۔ " احمد بشیر کے اس خاکے کی وجہ سے میاں بیوی کا جھگڑا ہوگیا اور احمد بشیر پریشان ہو گئے۔۔ " وہ مرد دوستوں کے زانووں پر ہاتھ مار مار کر قہقہے لگاتی تھی اور اس پر یوسف کامران جلا کٹا رہتا تھا۔۔ پھر بھی میرا خاکہ نزاع کی وجہ نہیں بننا چاہیئے تھا۔ میں ابھی خاکہ لکھ ہی رہا تھا کہ میرا ایک دوست اپنی بیگم کے ساتھ آگیا، پوچھنے پر بتایا کہ کشور ناہید پر خاکہ لکھ رہا ہوں۔۔

بھابھی بولیں، کشور ناہید؟ اس پر لکھنے والی کون سی بات ہے؟ پھر آہستہ سے بولیں، حرامزادی، مشٹنڈی، منڈیاں دی کھیڈ"۔۔

اور میں سوچنے لگا واقعی کشور ناہید کے بارے میں لکھنے والی کون سی بات ہے؟"

جاری ہے۔۔

Check Also

Tar Tareen April

By Zafar Iqbal Wattoo