Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Rehmat Aziz Khan/
  4. Sarfraz Azmi Ki Hamdiya Shayari

Sarfraz Azmi Ki Hamdiya Shayari

سرفراز بزمی کی حمدیہ شاعری

سرفراز بزمی کا تعلق بھارت کی ریاست راجستھان کے سوائی مادھوپور ضلع سے ہے علوم دینیہ میں فارغ التحصیل اور عصری علوم میں انگریزی ادب میں پوسٹ گریجویٹ سرفراز بزمی کے تین شعری مجموعے ہیں نوائے صحرا اور رود ریگزار ان کی غزلوں اور نظموں کے مجموعے ہیں۔

عصری اور دینی ہر دو قسم کے علوم سے بہرہ ور سرفراز بزمی نعت، غزل، نظم، قطعات کے ساتھ ساتھ حمدیہ شاعری بھی کمال کی کرتے ہیں، آپ کی "حمدیہ شاعری" میں روحانی تعظیم اور الوہیت کے تئیں خوف کی گہری تحقیق کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ خوبصورت اشعار کے ذریعے، سرفراز بزمی وجود کے جوہر کو تلاش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، تخلیق اور مہارت کو ایک واحد الٰہی ہستی سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ نظم تشکر، عاجزی، اور کائنات کے پیچیدہ باہمی ربط کے موضوعات پر مبنی ہے۔

بزمی کی شاعرانہ کاریگری ان کی بہترین منظر کشی اور استعاراتی زبان کے استعمال سے چمکتی ہے۔ وہ فطرت کی شان و شوکت کی ایک خوبصورت تصویر پینٹ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، چہچہاتے پرندوں سے لے کر دیو قامت پہاڑوں تک ہر عنصر کو الٰہی تخلیق کے مظہر کے طور پر ہر موضوع کو شاعری میں سمویا ہے۔ خاموشی اور راگ، روشنی اور تاریکی کا امتزاج، سرفراز بزمی کے خدائی صفات پر غور و فکر کی گہرائی کو مزید واضح کرتا ہے۔

پوری نظم میں، بزمی قارئین کو الٰہی قدرت کی ہمہ گیریت پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہوئے لگتے ہیں، خواہ نرم ہوا میں ہو یا آسمان کی وسعتوں میں۔ ہر بند ایک روحانی سفر کی طرح کھلتا چلا جاتا ہے، جو قاری کو کائنات کے پیچیدہ ڈیزائن کی گہرائی سے سمجھنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

نظم کا ایک سب سے متاثر کن پہلو کائنات کے اتحاد باہمی اور مکمل ہم آہنگی پر زور دینا ہے۔ بزمی خوبصورتی سے تمام جانداروں اور بےجانوں کے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور مربوط ہونے کو یعنی پھول سے لے کر اُڑتی ہوئی تتلیوں تک کو، توحید ربوبیت کے مظہر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اتحاد کا یہ موضوع الٰہی اور ایک دوسرے سے انسانیت کے موروثی تعلق کی یاد دہانی کا کام کرتا ہے۔

مزید برآں، بزمی کی رحمت الٰہی اور حکمت کی کھوج قارئین کے دل میں گہرائیوں سے اثر کرتی ہے۔ تمام نعمتوں کے منبع کے طور پر الٰہی احسان کی تصویر کشی شکر اور عاجزی کا احساس پیدا کرتی ہے۔ قدرت کی نعمتیں ہوں یا زندگی کی آزمائشوں کے ذریعے، بزمی قارئین کو وجود کے ہر پہلو میں موجود گہری حکمت کی یاد دلاتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ سرفراز بزمی کی "حمدیہ شاعری" روحانی غور و فکر اور شاعرانہ اظہار کا شاہکار ہے۔ اپنی بھرپور تصویر کشی اور گہرے موضوعات کے ذریعے، نظم قارئین کو خود شناسی اور الہی تعظیم کے سفر پر مدعو کرتی ہے۔ بزمی کی شاعرانہ ذہانت ان کی شاعری میں خوب چمکتی ہے، شاعر وجود کی خوبصورتی اور پیچیدگی کو تشکر اور خوف کی عینک سے روشن کرتا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے سرفراز بزمی کی حمد شریف پیش خدمت ہے۔

*

حمد

*

خالق ہے تو خدایا! مالک ہے تو خدایا!
اک لفظ کن سے تونے سارا جہاں بنایا

بلبل کو بیکلی دی کلیوں کو خامشی دی
مہکے ہوئے گلوں کو خاموش دل کشی دی

آب رواں بنایا موجوں کو خود سری دی
ماہ تمام‌ دے کر ٹھنڈی سی روشنی دی

سورج کو دی تمازت بخشا شجر کو سایہ
اک لفظ کن سے تونے سارا جہاں بنایا

سجدے کریں زمیں پر جب پربتوں کےسائے
بے نور ہوکے سورج صحرا میں ڈوب جائے

پھولوں کو آکے شبنم‌ جس دم وضو کرائے
سارا نظام قدرت وحدت کی لے سنائے

ثانی ہے کون تیرا یکتا ہے تو خدایا!
اک لفظ کن سے تونے سارا جہاں بنایا

یہ مرغزار تیرے یہ کوہسار تیرے
نغمات گار ہے ہیں یہ آبشار تیرے

چڑیوں کے چہچہوں میں نغمے ہزار تیرے
قربان سارا عالم پروردگار تیرے

تیرا رہین رحمت کیا خویش کیا پرایا
اک لفظ کن سے تونے سارا جہاں بنایا

کاشانہء چمن میں شاداب رنگ تیرے
سب گوسفند تیرے ' آہو پلنگ تیرے

شاہ و وزیر تیرے مست و ملنگ تیرے
اے کن فکان والے سب رنگ ڈھنگ تیرے

مالک ہے تو خدایا! خالق ہے تو خدایا
اک لفظ کن سے تونے سارا جہاں بنایا

وہ جھیل کے افق پر مرغابیوں کے ٹولے
سورج اتر رہا ہے دھرتی پہ ہولے ہولے

چھائے فسوں فضا پر جب رات زلف کھولے
"سبحان تیری قدرت " سارا جہان بولے

ہر شئے پہ لوٹ آئے تیرے کرم کا سایہ
اک لفظ کن سے تونے سارا جہاں بنایا

دے دے تو تیری نعمت نہ دے تو تیری حکمت
اور دے کے چھین لے تو مولی تری مشیت

سر پر گدا کے رکھے دستار ما بدولت
صدقہ تیرے کرم کا شاہوں کی بادشاہت

تیری عطا سے پایا دنیا نے جو بھی پایا
اک لفظ کن سے تونے سارا جہاں بنایا

Check Also

Shah Dane Ke Bagh Mein Chekhov Aur Olga Ka Raqs

By Tahira Kazmi