Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mohsin Khalid Mohsin/
  4. Yes, We Are Slave

Yes, We Are Slave

یس، وی آر سلیو

پاکستان میں جنرل الیکشن 2024 ہو چکے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو واضح برتری مل چکی ہے۔ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ (ن) اور تیسرے نمبر پرپاکستان پپلرز پارٹی ہے۔ آنے والی مجوزہ حکومت کا سانچہ کچھ اس طرح سے بنتا دکھائی دے رہا ہےکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پی پی پی، بلوچستان میں پی پی پی اور خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی صوبائی حکومت بنانے کی واضح پوزیشن میں ہے۔

وفاق میں حکومت سازی کے لیے پی ٹی آئی کے پاس واضح اکثریت ہونے کے باوجود نمبر پورے نہیں ہو رہے جبکہ پی پی پی نے مسلم لیگ (ن) کو حکومت بنانے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے اور وزارتِ عظمی سے فی الحال خود کو علاحدہ کر لیا ہے۔ ایک ہفتہ میں ساری صورتحال واضح ہو جائے گی۔ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ مجھے کچھ اور عرض کرنا ہے۔

عرض یہ ہے کہ اس الیکشن میں پاکستانی عوام نے خود کو عوام کی سطح سے اُٹھا کر ایک متحد قوم (آپ گروہ یا جتھہ بھی کہ سکتے ہیں) کی حیثیت سے متعارف کروایا ہے۔ پاکستانی عوام نے عمران خان کے بیانیے کو (جس طرح کا بھی ہے) مِن و عن تسلیم کرتے ہوئے اپنا ووٹ تحریکِ انصاف کو دیا ہے۔ اگر پریذئڈنگ آفیسر کے جاری کردہ فارم 45 کے مطابق نتائج کو دیکھا جائے تو پاکستان تحریکِ انصاف سادہ اکثریت کے ساتھ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی بنتی ہے جسے حکومت بنانے کا پورا اختیار ہے، دوسرے نمبر پر پی پی پی اور تیسرے نمبر پر مسلم لیگ (ن)۔ الیکشن 2024 میں ملک کی سب سے بڑی دھاندلی کا تاثر ملک کے نمائندہ اداروں کی طرف سے سامنے آرہا ہے جس کا پوری دُنیا میں چرچا ہے اور اس روئیے پر اداروں کو سخت تنقید کا سامنا بھی ہے جس کا کوئی مدلل اور تشفی بخش جواب ان کے پاس فی الحال موجود نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستانی عوام نے باہم متحد ہو کر خواہ کسی بھی نظریے، بیانئے، عزم، مقصد، تاثر اور لالچ کے تحت ایک جماعت کو ووٹ دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ووٹ دینے کے پیچھے وہ کون سے محرکات ہیں جنھوں نے اس جنگل نما معاشرت کے بے شعور ہجوم کو باہم متحد کر دیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھٹو کے بعد خان صاحب واحد شخصیت ہیں جن کی پارٹی کو شخصیت کے ووٹ پڑے ہیں۔ پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے سیاسی منشور الیکشن سے پہلے جاری کیے جاتے ہیں۔ بھرپور الیکشن مہم جاری رہتی ہے، ووٹر کو بہلانے، پھسلانے اور قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ الیکشن کے دن جیتنے والی پارٹی صاف اور شفاف انتخابات کے قیام کی منتظم اداروں کو مبارکباد پیش کرتی ہے جبکہ ہارنے والی جماعتیں دھاندلی کا الزام لگا رونا دھونا اور واویلا کرتی ہیں۔ یہ سلسلہ قیامِ پاکستان سے ہنوز اسی طرح ایک سیاسی روایت کی صورت جاری ہے۔

الیکشن 2024 میں ہلکی پھلکی دھاندلی نہیں ہوئی بلکہ دھاندلی کے جملہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ یہ دھاندلی کیوں ہوتی ہے اور اس کے پیچھے وہ کون سی طاقتیں ہیں جو اداروں کو اس گھناؤنے فعل پر اُکساتی ہیں یا زبردستی ان سے یہ کام لیتی ہیں اور وہ خوشی خوشی یا مجبوراً یہ کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایک ادارہ ایسا ہے جس پر ہر الیکشن میں یہ الزام لگتا ہے اور وہ کبھی کُھل کر عوام کے سامنے آکر ثبوت کے ساتھ یہ ثابت نہیں کرتے کہ ہم اس فعل میں شریک ہیں یا نہیں ہیں۔ یہ ادارہ پاکستان کی پاک فوج کا ادارہ ہے۔ اس ادارہ کے بارے میں طرح طرح کے سوالات آئے روز اُٹھتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی جملہ سیاسی جماعتیں پاک فوج کی سیاست میں مداخلت کا برابر ذکر کرتی ہیں۔ یہ ذکرآخر ہوتا ہی کیوں ہوتا ہے۔ اس ذکرکے پیچھے کوئی سچائی ہے یا محض الزامات ہیں جن میں کوئی صداقت موجود نہیں ہے۔

الیکشن 2024 میں حیران کُن انکشافات سامنے آئے ہیں جو ایک عام سوچنے والے سے لے کر پڑھے لکھے اور باشعور انسان کو تذبذب میں ڈالے ہوئے ہیں کہ پاکستانی قوم کے ووٹ کی ساکھ اور ورتھ کیا ہے۔ پاکستان میں جنرل الیکشن کا انعقاد محض ایک ڈراما ہے یا یہ ایک حقیقت ہے جس کے نتیجے میں واقعی وہی حکومت بنتی ہے جسے پاکستانی عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتی ہے۔ سندھ میں گذشتہ پچیس برس سے پی پی پی کی حکومت چلی آتی ہے۔ سندھ پر پی پی پی کی اتنی مضبوط گرفت کی وجہ سے کسی اور جماعت کو حکومت بنانے کا سازگار ماحول کیوں فراہم نہیں ہوتا۔ یہ ایک سوال ہے جس کے ہزاروں جواب ہونے کے باوجود تاثر اُسی ادارہ پر جاتا ہے جس کے بارے میں بات کرنے سے سَر کے جانے کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے۔

پنجاب میں ہر طرح کا تجربہ کیا جاتا ہے، اس لیے اس صوبہ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہاں تسلسل سے کسی ایک جماعت کو حکومت کرنے نہیں دی جاتی۔ بلوچستان میں سندھ جیسی صورتحال ہے اور اس صوبہ کو ہم ویسے بھی سوتیلے بیٹے کی طرح نافرمان، بد قسمت، منحوس اور مردود قرار دے کر نظر انداز کیے رکھتے ہیں۔ یہاں کچھ بھی اچھا ہو جائے یا بُرا سے بُرا ہو جائے، کسی کو پروا نہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرنے والے اب تک پچھتا رہے ہیں اور بلوچستانی عوام خود پاکستان سے الحاق کرکے اُس دن کو کُوس رہی ہے جب ان کے بڑوں نے یقین دلانے والوں پر بھروسہ کرکے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔

خیبر پختون خوا کی صورتحال بھی عجیب وغریب ہے۔ یہ جذباتی قوم، اس صوبہ کی عوام کسی ایک سیاسی جماعت کو ہمیشہ واضح اکثریت سے حکومت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور وہ جماعت ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے یہ بھی دیکھنے کی چیز ہے۔ وفاق میں حکومت کا معاملہ کبھی سوئے اتفاق سے پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں ہوا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک یا دو مرتبہ کسی ایک سیاسی جماعت کو واضح اکثریت ملی ہے، ورنہ چُوں چُوں کا مربہ حکومت سازی کا عمل مکمل کرتا ہےجو مدت پوری ہونے سے پہلے سڑ جاتا ہے۔ الیکشن2024 میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک دو ہفتوں میں وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ الزامات لگانے والے ظلم و زیادتی کا مرثیہ پڑھ کر خاموش ہو جائیں گے۔ فاتحین اقتدار کے نشے میں دُھت اپنی دُنیا میں کھو جائیں گے، محروم رہ جانے والے گوشہ نشین ہو جائیں گے۔ صاحبِ ثروت ادارے اپنے اپنے لاوئج میں بیٹھ کر نشاط و سرور کی مدہوش کُن محافل سے لطف انداوز ہو ں گے۔ سب کچھ ٹھیک ٹھیک اور بڑھیا بڑھیا چلتا دکھائی دے گا۔ یہ سب درست ہے اور ایسے ہی ہوتا ہے اور گذشتہ پچھتر برس سے یہی کچھ اس ملک میں ہوتا آیاہے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستانی عوام کے لیے بار بار اقتدار میں آنے والے سیاسی جماعتوں نے کیا کیا؟ پاکستانی عوام کے ووٹ کو عزت کا نعرہ لگانے والوں نے کتنی عزت دی ہے۔ رات کو رزلٹ کچھ اور صبح کو رزلٹ کچھ۔ فارم 45 کے رزلٹ کچھ اور فارم47 کے رزلٹ کچھ۔ الیکشن سے پہلے کے سروے کچھ اور الیکشن کے بعد کے نتائج کچھ۔ اداروں کی مداخلت اور شفافیت کےنعرے کچھ اور اصلیت وحقیقت کچھ۔ کیا پاکستانی عوام آزاد ہے اور ا ن کا ووٹ بھی آزاد ہے، یا پاکستانی عوام حقیقی غلام ہے اور ان کا ووٹ بھی حقیقی غلام ہے۔ کیا پاکستان میں ووٹ کی کوئی عزت ہے یا نہیں۔ کیا الیکشن سے پہلے الیکشن ہو چکا تھا اور دُنیا کو دکھانے کے لیے ایک ریہرسل کروائی گئی ہے۔

ریٹرننگ آفیسران، الیکشن کمیشن، انتظامیہ کے اداروں اور سول مشینری نے الیکشن کے انعقاد سے لے کر الیکشن کی شفافیت کے نتائج تک اپنا فرض ایمانداری سے ادا کیا ہے اور کسی جبر اور دُھونس کو اپنے فرض پر غالب نہیں آنے دیا یا دھاندلی کے ڈنڈے مار مار کر الیکشن کی شفافیت کے تصور کے سر کو پوری طرح کُچل ڈالا ہے۔ ایک تاثر جو اس الیکشن کے نتیجے میں قائم ہوا ہے وہ یہ کہ پاکستانی عوام کو اس بات کا شعور اور ادراک ہو چکا ہے کہ ان کے ووٹ کی کوئی عزت نہیں ہے اور ان کی طرح ان کا ووٹ بھی حقیقی غلام ہے۔

پاکستانی عوام یہ جان چکی ہے کہ ان کی جان، مال، عزت اور بنیادی ضرورتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ پاکستانی عوام یہ تسلیم کر چکی ہے کہ انھوں نے ایک ظالم سماج کے بے حس آقاؤں کی سر پرستی میں زندگی گزارنی ہے۔ پاکستانی عوام یہ بھی تسلیم کر چکی کہ ان کی زندگی کو آسان کرنےکا دعویٰ کرنے والا ہر مسیحا دراصل ایک مفاد پرست ڈراما باز ہے جو اپنی ڈگڈگی بجا کر ہمدردی سمیٹ کر اپنا کام نکالتا ہے اور رفو چکر ہو جاتا ہے۔ پاکستانی عوام کو اس بات کا یقین ہے کہ ان کاخون اسی طرح نچوڑا جاتا رہے گا اور ان کے جسم پر کوڑے مارے جاتے رہیں گے۔

پاکستانی عوام یہ جان چکی ہے کہ انھیں ذات پات، رنگ، نسل، زبان، ماحول، اطوار، مذہب، مسلک، برادری اور انفرادی تشخص کی تفریق میں بانٹ کر ان کے وسائل پر قبضہ رکھا جائے گا، ان کو کبھی باہم متحد، متفق اور جاں نثار ہونے کا ماحول فراہم نہیں کیا جائے گا۔ پاکستانی عوام یہ جان چکی ہے کہ ان کے حقوق کو غضب کرنے والے درجہ بدرجہ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں، جنھیں ہر طرح سے رَد کر دینے سے بھی اس کی غلامی ختم نہیں ہوگی۔ پاکستانی عوام یہ جان چکی ہے کہ جب تک پاکستان میں رہنا ہے، غلامی کا طوق اور طوق کے ہزاروں اشکالی طوق پہن کر جینا پڑے گا۔

پاکستانی عوام برس ہا برس سے غلامی کی فضا میں سانس لینے سے غلامی کی اس قدر اسیر ہوچکی ہے کہ اب انھیں غلامی، غلامی نہیں لگتی بلکہ انھیں کوئی غلام کہتا ہے تو یہ غصہ کر جاتی ہے اور آزادی کا درس دینے والے اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے والے کا گلہ کاٹنے کو دوڑتی ہے۔ پاکستانی عوام دراصل اپنے حواس کھو بیٹھی ہے، ان کا شعور مختل ہونے کو ہے۔ لگتا یوں ہے کہ ان قریب یہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہونے والی ہے۔ یہ امر پاکستانی سیاست دانوں، سرکردہ اداروں، سر پھرےسربراہوں اورخود غرض راہبروں کے لیے خوشی اور تہنیت کا باعث ہے کہ ان کی سیکڑوں برس کی محنت ر نگ لے آئی ہے کہ چھبیس کروڑ ہجومِ ناہجار کے شعور کی خودکُشی کا سامان تیار ہے۔

مکھیوں کا یہ غضبناک جھلڑ بھوک و ننگ و افلاس سے عاجز آکراول خودکو مارے گا پھر اپنے ارد گرد موجود ہر چیز کو کاٹ کاٹ کر بے دم کر دے گا۔ نہ رہے گا بانس، نہ بجے کی بانسری۔

Check Also

Tar Tareen April

By Zafar Iqbal Wattoo