1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Pakistan Ki Dadi Mar Rahi Hai

Pakistan Ki Dadi Mar Rahi Hai

پاکستان کی دادی مر رہی ہے

میں اُسے دیکھ نہیں پا رہی تھی۔ میرے دل میں خیال آیا کہ میں دیوار کی اوٹ سے پاؤں کے نیچے اُپلے رکھ کر اُسے دیکھوں تو شاید میری نگاہ اُسے کے چہرے کو چھول لے۔ میں اسی اُدھیڑ بُن میں تھی کہ میری بہن یعنی تمہاری چھوٹی دادی نے مجھ سے کہا کہ پگلی! اب برات گزر گئی ہے۔ چلو پیچھے ہٹو۔ میں اُسے دیکھنے کی حسرت لیے دیوار سے ہٹ گئی اور کمرے میں آکر اُداس سی بیٹھ گئی۔ اس کے بعد میں اُسے کبھی دیکھ نہ پائی اور ہماری شادی ہوگئی۔

ہیں! یہ کیسے ہوگیا؟ آپ کی اُس سے شادی ہوگئی اور آپ نے اُسے دیکھا ہی نہیں۔ اُس زمانے میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ گھر والے جہاں چاہتے، نسبت طے کر دیتے تھے۔ ہم سے یعنی لڑکیوں سے پوچھا جاتا تھا اور نہ ہی اُنھیں بتایا جاتا تھا کہ شادی کہاں، کب اور کس سے ہوگی۔

میں نے کہا۔ دادی! آپ تو بہت معصوم ہیں اس معاملے میں۔ آپ نے اپنے دُلہا کو شادی کے بعد دیکھا۔ اب تو سب شادی سے پہلے دیکھتے ہیں۔ شادی سے پہلے باتیں بھی کرتے ہیں اور چوری چھپے مل بھی لیتے ہیں۔

توبہ، توبہ! اب تو زمانہ ہی خراب ہے بچے۔ ہمارے دور میں سختی کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی لڑکا مانگ نکال کر گلی سے گزر جاتا تو گلی کے بڑے بوڑھے اُس کے سر پر مٹی ڈال دیتے تھے اور لعن طعن کرتے ہوئے دھمکاتے تھےکہ آئندہ مانگ نکال کر گزرا تو ٹوٹے کر دیں گے۔

میں نے حیرت زدہ ہو کر کہا!آپ کے دور کے بڑے بزرگ تو بڑے سر پِھرے اور بدمعاش قسم کے تھے۔ نہیں یہ بات نہیں۔ اصل میں ہر زمانے کا ایک دستور ہوتا ہے، رواج کاچلن ہوتا ہے اور سماج کی مشترکہ اجارہ جاری ہوتی ہے۔ بہت کچھ باہمی اتحاد و مشاورت سے طے کر لیا جاتا ہے جس سے ایک دوسرے کی جان، مال، عزت اور گھر کی حفاظت و نگہبانی آسان ہو جاتی ہے۔

دادی اماں! اچھا اب مجھے بادشاہ والی کہانی سُناو۔ نہیں آج نہیں، بادشاہ والی کہانی کل سناو گی۔ پھر میں ضد کرتا اور دادی یہ کہہ کر کہانی شروع کر دیتی کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ایک بادشاہ تھا۔۔ اور میں کہانی سنتے سنتے سو جاتا۔ صبح آنکھ کُھلتی تو خود کو کسی اور چارپائی پر دیکھتا۔ آنکھیں ملتے ہوئے سوچتا کہ دادی کی گود سے اِس چارپائی پر کیسے پہنچ گیا۔ کیا یہ بادشاہ کی کہانی والے کانے جن نے کیا ہے؟ دادی سے پوچھوں گا کہ کیا کوئی جن رات کو سوتے میں چارپائی بدل سکتا ہے؟ ہماری دادی اور ہمارا بچپن ایک ساتھ رخصت ہوا۔ اس کے بعد نہ دادی میسر آسکی اور نہ بیتا ہوا بچپن پلٹ سکا۔ وقت گزر رہا ہے۔

پاکستانی معاشرت کی جملہ اقدار گزشتہ بیس برس میں اتنی سُرعت سے تبدیل ہوئی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارے دور کے ٹائم پیس کی سُوئیوں کو کسی نے زبردستی گھما کر آگے سِرکا دیا ہے۔ صبح کی خُنک ہوا میں مدہوش مسافر غروبِ آفتاب کی زردی میں نہا گئے ہیں۔ دادی کا کردار ہر انسان کی زندگی میں آتا ہے جس سے ہر انسان کا بچپن سر سبز و شاداب چمن کی صورت گزرتا ہے اور ناقابلِ فراموش یادیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ بچپن میں اس کردارکی انسانی شخصیت پر مثبت اثرات کی اہمیت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کردارکی عمر بھر کی کمائی ان کے تجربات ہیں جو اس کا سرمایہ حیات ہے۔ یہ کردار جس شخص کو نصیب ہوتا ہے وہ زندگی کے سردوگرم میں ہر طرح کی مصیبت، آزمائش اور مشکل وقت میں جینے کی اُمید کو نااُمیدی میں تبدیل نہیں ہونے دیتا۔ یہ کردار ایک انسان کی شخصیت کو تراشنے اور ہر طرح کے نقص سے مصفاکرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

بیسویں صدی کے اختتام تک دادی کی ہر خاندان میں کسی طور اہمیت رہی ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے دادی کی اہمیت اور وجود کو یوں فراموش کیا جارہا ہے۔ یہ رجحان انتہائی حوصلہ شکن ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد اور ٹیکنالوجی کی ہمارے معاشرے میں حد سے زیادہ مداخلت نے ان چار کرداروں کی مجموعی حیثیت کو روبہ زوال کر دیا ہے۔ اب ڈورے مون بتائے گا کہ کھانا کیسے کھانا ہے اور واش روم کیسے کرنا ہے۔ دوست کس طرح کے بنانے ہیں اور سکول میں پڑھائی کیسے کرنی ہے۔ کاروباری کمپنیوں نے کڈز ایپ کے ذریعے دادی کی ضرورت اوراہمیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے۔ نئی نویلی دُلہن کو ساس سے سابقہ پڑتا ہے جس سے جان چھڑانا ممکن نہیں۔ بچوں کی آمد کے ساتھ بیچاری دُلہن پر گرینڈ ساس یعنی دادی سوار ہو جاتی ہے جس کی بچوں میں حد سے زیادہ مداخلت اس کا جینا حرام کر رہی ہے۔

آخر وہ دن آپہنچتا ہے یعنی گھمسان کا رن پڑتا ہے اور فیصلے کا وقت آپ پہنچتا ہے۔ دُلہن فیصلہ کرتی ہے کہ ساس اور گرینڈ ساس میں ایک کو گھر میں رکھ لو اور ایک کو چلتا کرو، تبھی میں یہاں رہ سکتی ہوں ورنہ میں جار ہی ہوں اور بچے بھی لے کر جارہی ہوں۔ جو فیصلہ کرنا ہے، ابھی کرو۔ خاوند جو بیوی کی محبت میں مجنوں کی مجنونیت سے آگے بڑھا ہوا ہے۔ بیگم کے دروازے کی طرفقدم بڑھنے سے پیشتر فیصلہ سُنا دیتا ہے کہ اماں ہمارے ساتھ رہیں گی اور دادی کا میں ارینج کر لوں گا(ارینج سے آپ بخوبی واقف ہیں)۔ اب گھر مت چھوڑو، میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔

یہ کہانی جب انٹرول کو چھوتی ہے تو یہی جذباتی اور بلیک میلنگ جملہ دُہرایا جاتا ہے کہ اب تمہاری اماں یہاں رہے گی یا میں اِس گھر میں رہوں گی۔ مجھ سے یہ چخ چخ مزید برداشت نہیں ہوتی۔ میں سب کی نوکر نہیں ہوں۔ مجھے اس لیے بیاہ کر نہیں لایا گیا تھا کہ تمہارے بچوں کی نوکری کروں، ساتھ تمہاری اماں کی بھی چاکری بھی کروں۔ فیصلہ کر لو۔ یہ فرہاد جس نے شِیریں کے لیے کوہِ بتیسوں کاٹ کر دودھ کی نہر بہائی تھی، فوراً گویا ہوتا ہے کہ شیریں صاحبہ! آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ اماں کے رہنے کا میں بندوبست کر لروں گا۔ تم کہیں مت جاو، اب ہم ساتھ ساتھ رہیں گے۔ میں اِس عمر میں اکیلا نہیں رہ سکتا۔

یہ سب کرتوت گھولنے کے بعد خاوند صاحبان جگہ جگہ یہ رونا روتے ہیں کہ وقت بہت عجیب آگیا ہے۔ زمانہ بڑا خراب ہے۔ کوئی بات ہی نہیں سُنتا۔ گھر برباد ہو رہے ہیں۔ بچے بگڑتے جارہے ہیں۔ ساری کمائی غارت ہوگئی۔ جو کچھ کمایا تھا سب بےکار ہوگیا۔ زندگی جہنم بن گئی ہے۔ اب زندہ رہنے کا کیا فائدہ۔ مر جانا چاہیے۔ (ایسے خاوندوں کو واقعی مار جانا چاہیے۔)

پاکستانی معاشرے میں مغرب سے آنے والی ہر چیز کو اس قدر مداخلت ہوتی ہےکہ کچھ عرصہ بعد ہم اس کی زیادتی سے زچ ہو کر خود اپنے منہ پر ہم آپ تھپڑ مارتے ہیں۔ حیرت ہے! منہ پھر بھی سُرخ نہیں ہوتا۔ یہ ڈراما بازی اوررونا اب بند کرنا ہوگا۔ ہم نے مان لیا کہ دُنیا گلوبل ویلج بن چکی۔ اب کسی سے کچھ چھپا نہیں۔ اس پلینٹ ارتھ پر سائنس نے زندگی کو آسان اور پُر آسائش بنا دیا ہے۔ حیرت ہے بلکہ مہا حیرت ہے کہ ان سب سہولتوں اور آسائشوں کے باوجود تصویرِ کائنات میں رنگ بھرنے والی یہ زنِ اقبال خوش نہیں ہے۔

نالائق مرد یعنی خاوند اپنی نالائقی اور نکمے پن کی وجہ سے اس محترم و معتبر کردار یعنی دادی کی اہمیت وافادیت کو جان بوجھ کر اپنے بچوں سے دور کر رہے ہیں اور اسے اکیلا، اولڈ ہومز اور دیگر اقامتی اداروں میں سِسک سِسک کر مرنے کے لیے چھوڑ رہے ہیں۔

یاد رکھیئے! یہ معمولی ہستی نہیں ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر میں جس گھر کی تعمیر کر رہا ہوں وہ بہت مضبوط اور ناقابلِ شکست ہوگا تو یہ آپ کی خوش فہمی ہے۔ یہ گھر بظاہر مضبوط اور ناقابلِ شکست دکھائی دے گا لیکن حقیقت میں اندر سے انتہائی کھوکھلا اور ناپائدار ہوگا۔ شاخِ نازک پر بننے والا آشیانہ سبک جھونکے کی تاب نہیں لاسکے گا۔

اب بھی وقت ہے۔ خدارا! ہوش کے ناخن لیں۔ اس کردار کے وجود کو نظر انداز نہ کریں۔ اس سے ممکنہ حد تک فائدہ اُٹھائیں جس طرح گزشتہ اقوام نے فائدہ اُٹھایا ہے اور ایک مضبوط گھر کی تعمیر کو ممکن بنایا ہے۔

Check Also

Aik Crore Kunwari Khawateen

By Mubashir Aziz