Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mohsin Khalid Mohsin/
  4. Khula Lene Aur Talaq Dilwane Wali Char Aurtain

Khula Lene Aur Talaq Dilwane Wali Char Aurtain

خُلع لینے اور طلاق دَلوانے والی چار عورتیں

بڑے بھائی نہیں مانے اور میں نا اُمید ہو کر واپس لوٹ آیا۔ اگلے دن فیصلہ کیا کہ اب اِس گھر میں ایک ہی شخص رہے گا اور وہ کون ہوگا، اس کا فیصلہ حالات کریں گے۔ تلخی بڑھتی چلی گئی، باوجود ہر طرح کی کوشش کے، کوئی مصالحت کارگر نہ ہوئی اور ہم دونوں میں ہمیشہ کے لیے جدائی ہوگئی۔

آج اِس واقعہ کو تین برس گزر چکے ہیں اس کے باوجود یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ایک دوسرے کے لیے خود کو روک کر بیٹھے ہیں کہ شائد کوئی معجزہ ہو جائے اور ہم پھر ایک ہو جائیں۔ حالات کی سنگینی، عزیزوں کی طوطا چشمی اور خونی رشتوں کی بے وفائی انسان کو تباہ کر ڈالتی ہے۔ انسان خواہ کتنا ہی مضبوط اعصاب کا مالک ہو، اپنوں کی بے مروتی اور بے وفائی انسان کی ہمت کو توڑ دیتی ہے۔

جملہ مذاہب کی داستانوں اور فرمودات میں خونی رشتوں کو بطور آزمائش لکھا گیا ہے۔ اسلام میں بھی جان، مال، عزت، اور رشتوں کی بے وفائی کو بطور امتحان ذکر کیا گیا ہے۔ مذہب ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسانی شعور کے تشکیک پسند مزاج کے آگے مصالحت و سمجھوتہ کا پُل باھندتا ہے اور یہ حوصلہ دیتا ہے کہ کوئی بات نہیں جو ہوا، سو، ہوا، آگے بڑھ جاؤ اور ماضی کو بھول کر حال کو بہتر کرؤ۔

یہ دُنیا بھی عجب گورکھ دھندہ ہے، اس کی رونق اور چمک دمک ایسی چکا چوند رکھتی ہےکہ انسان سمجھتے اور جانتے ہوئے بھی(کہ نقصان فقط اِسی کا ہونا ہے) اس کے طلسم میں مبتلا ہو جاتا ہے، مزے کی بات یہ کہ آنکھیں تب کُھلتی ہے جب سب کچھ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ پاکستانی سماج کی مڈل کلاس 80 فیصد دیہات میں بستی ہے۔ دیہات کے رسم و رواج اور سوچ و افکار میں کم علمیت، ناتجربہ کاری، جہالت، شعور ی ادراک اور تعصب کا عنصر بہت گہرا پایا جاتا ہے۔ اس عناصرِ غارت گری کا زیادہ تر حصہ عورتوں کی طرف سے زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ہزاروں برس سے قائم اس سماج میں آج بھی عورت ہی عورت کو ٹف ٹائم دیتی آئی ہے اور عورت ہی عورت کی مدمقابل اور حریف ٹھہری ہے۔ مرد، ان عورتوں کے درمیان کبھی سانڈ، کبھی نکھٹو، کبھی پرائی برات کا دُلہا اور کبھی کرائے کا ٹٹو بن کر استعمال ہوتا رہا ہے اور ہنوز ہو رہا ہے۔ دیہات سے اُٹھ کر شہروں میں آباد ہونے والے خاندانوں کے ہاں شہر میں آکر بھی اسی چلن کو کار فرما دیکھا گیا ہے۔

عورت کو بیاہ کر جب مرد اپنے گھر لاتا ہے اور تو اِس بیاہی ہوئی عورت کو اللہ جانے اپنے خاوند سے کس واسطے کا بیر ہوجاتا ہے کہ وہ چُن چُن کر ایک ترتیب سے اپنے خاوند سے متصل رشتوں سے بدلہ لیتی ہے اور بدلہ کا انداز ایسا منطقی، مدلل اور بامعنی ہوتا ہے کہ مخالفت کرنے کی ہزار وجوہ ہونے کے باوجود مرد کو خواہی نا خواہی بیگم کے جبر کے آگے سر تسلیمِ خم کرنا پڑتا ہے اور اس کی منشا اور رضا کو اپنا منشور اور ازن قرار دینا پڑتا ہے۔

دُنیا بھر میں شاید کہیں بھی ایسا چلن نہیں ہے جہاں عورت مرد کو بیاہ کر اپنے گھر لائے، ہزاروں برس سے یہی دستور دیکھنے، سننے اور پڑھنے میں آیا ہے کہ مرد ہی عورت کو بیاہ کر اپنے گھر لاتا ہے۔ اب عورت کو کس بات کا غصہ ہے کہ ہزار سعی کے باوجود دُلہن کی اپنے سسرال سے نہیں بنتی۔ اس کے ذہن میں یہ ناسور آخر کون بھرتا ہے کہ تمہارے خاوند کے علاوہ اس گھر میں کوئی تمہارا حلیف نہیں بلکہ سبھی ظالم اور دُشمن ہیں اور ان سے چوکنا ہو کر رہنا ہے اور موقع ملتے ہی یہاں سے خود کو خاوند سمیت نکال کر کہیں اور جابسنا ہے۔

ایک نئی نویلی دُلہن جب اپنے سسرال میں آتی ہے تو ہر شخص کو غور سے گھور کر دیکھتی ہے اور جائزہ لیتی رہتی ہے۔ خاموش رہ کر گھر کے پورے ماحول کا نظام دیکھتی ہے اور ہر طرح کے نقص اور جھول کو بھانپ کر ایک دن بولتی ہے اور ایسا بولتی ہے کہ پھر کسی اور کو بولنے کا یارا نہیں رہتا۔ آپ سے تم اور تم سے تو ہونے کے بعد تم کون اور میں کون سے بات آگے بڑھتے بڑھتے ہوئے منہ ماری تک پہنچتی ہے، کھانا پینا علاحدہ ہوتا ہے، کچن تقسیم ہو جاتا ہے، رفتہ رفتہ ایک گھر میں کئی دیواریں نکل آتی ہیں اور ان دیواروں میں رشتوں کی قبریں بنا کر روزانہ صبح و شام ماتم کیا جاتا ہے، اس ماتم سے تنگ آکر گھر کے نکھٹو اور نکمے خاوند کو یہی سوجھتی ہے کہ جو کچھ ہاتھ آتا ہے اُسے بیچ کر یہاں سے کہیں اور دفعہ ہوا جائے اور ہمیشہ کے لیے بہن بھائیوں (جو بیوی کی کرم فرمائی سے اب تک دُشمنِ اول بن چکے ہوتے ہیں) سے ہر طرح کا رشتہ، تعلق اور میل ختم کر دیا جائے۔

یہ ایسی تباہ کُن ذہن سازی ہے جس نے لاکھوں گھروں کو تباہ کیا ہے۔ ایک ہنستے بستے گھر کی چنچل سی سلیقہ شعار لڑکی ایک دوسرے ہنستے بستے گھر کے شریف النفس، قربانی کا جذبہ رکھنے والے لڑکے کے ہاں کمال شوق و رغبت اور اہتمام سے بیاہ کر لائی جاتی ہے۔ دو، چاہ مہینوں میں ایسا کیا ہوتا ہے کہ ہنستا بستا گھر اُجڑ جاتا ہے۔ قصور کسی ایک کا نہیں ہے، دونوں طرف سے یہ صورتحال برابر کی ہوتی ہے۔

میں نے سیکڑوں گھروں کے خانگی مسائل کا تجزیہ کیا ہے اور خود بھی اس تجزیے کی بھینٹ چڑھ کر اپنا گھر برباد کیا ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ چار عورتیں ایک بننے والے اور تعمیر ہونے والے گھر کو منہدم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، یہ چار مشہورِ زمانہ اور لائقِ تحسین شخصیات لڑکے کی ماں اور اس کی بڑی بہن، لڑکی کی ماں اور اس کی بڑی بہن ہوتی ہیں۔ ان چاروں خواتین کو جب تک گھر پوری طرح برباد نہ ہوجائے، سکون نہیں آتا۔ باقی کردار، ان چاروں کے تراشے ہوئے جال میں اپنا چھوٹا موٹا رول پلے کرکے پتلی گلی نکل جاتے ہی۔

آگ سُلگانے کا فریضہ یہی چار عورتوں میں سے کسی ایک سے ادا ہوتا ہے۔ یہ چنگاری جب پھوٹ پڑی ہے تو پھر لاوا نما ایسا الاؤ دہکتا ہے کہ گھر کے گھر اس کی لپیٹ میں آتے ہیں جسے ایک دُنیا راکھ ہونے سے بچانے میں اپنا وقت، پیسہ، طاقت، صلاحیت، اختیار اور جبر استعمال کرتی ہے لیکن یہ گھر تباہ ہو کر ہی رہتے ہیں۔

ہماری بیگم صاحبہ کے کان میں بھی انھیں چاروں میں سے کسی ایک یہ ناسور پھونکا تھا کہ چار مرلہ کا گھر بہت چھوٹا ہے اور یہ دو بھائیوں کی ملکیت ہے اور یہ گھر ہے بھی لوکل علاقے میں اور یہاں کے لوگ اچھے نہیں ہیں اور یہ محلہ اور ارد گرد کا ماحول بھی سازگار نہیں ہیں۔ آپ کو یہاں سے سوسائٹی میں چلے جانا چاہیے اور آپ پڑھے لکھے ہو اور آپ دونوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ یہاں رہو وغیرہ وغیرہ۔ اس ناسور بیگم صاحبہ کے ذہن میں اس قدر گہرا اثر کیا کہ دیکھتے دیکھتے گھر برباد ہوگیا۔ اس گھر کی بربادی میں انھیں چاروں کرداروں نے برابر حصہ لیا۔ ستم یہ کہ اس کار ہائے نمایاں کا ان چاروں کرداروں نے زمانے سے دادو تحسین کا کلماتی انعام بھی وصول کیا اور بغلیں بجا کر خلوت و جلوت میں ماتم نما تفاخر کا اظہار بھی کیا۔

چار مرلہ کا گھر دو مرلہ میں تقسیم ہوا، پھر اِس میں دیوار ہوئی، دیوار کے بعد پھر دیوار ہوئی۔ اوپر، نیچے، اندر، باہر ہر جگہ ہر چیز میں خھندقیں کھودی گئیں۔ بات یہاں نہ رُکی، اس کے بعد بڑے بھائی کے حصے میں آنے والے دو مرلہ کے لیے سازشوں، توہمتوں اور الزامات کا ایک جال بُنا گیا اور اس جال میں ہر رشتے کو کسوٹی پر چڑھا کر حظ اُٹھانے کا تختہ مشق بنایا گیا۔ اس دنگل کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیگم صاحبہ نے ببانگِ دُہل یہ اعلانِ بغاوت کیا کہ اب اس گھر میں مجھ کو ہرگز نہیں رہنا اور پھر تمہارے ساتھ نہیں رہنا اور پھر کسی کو بھی یہاں نہیں رہنے دینا اور کسی کو کسی کے ساتھ بھی نہیں رہنے دینا۔ بانس اور بانسری کی باہمی چپلقش نے بارات میں بھنگڑا ڈالنے والوں کو دن میں تارے دکھا دئیے۔

کورٹ، تھانہ، پنچایت سے لے کر سرِ بازار رُسوائی کے تذکروں کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ سماج ہم پر تھوکتا تھا اور ہم سماج کو تُو، تُواور تُھو تُھو کہتے تھے اور اپنے تئیں یہی سمجھتے تھے کہ ہم ہی سچے، اچھے اور سب سے زیادہ مظلوم ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ہی چھوٹے، بے ایمان، دغاباز، مکار، فریبی اور لالچی تھے جنھوں نے اپنا گھر بچانے کی بجائے مذکورہ چاروں کرداروں کے پھیلائے ہوئے جال میں خود کو ایسا پھانسا کہ سب کچھ تباہ کر لینے کے بعد پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔

یہ میری کہانی نہیں ہے، یہ پاکستانی سماج کے ہرمڈل کلاس گھر کی کہانی ہے۔ ہزاروں برس سے عورتیں مردوں کا استحصال کرتی آئی ہیں اور ہنوز کر رہی ہیں۔ مرد عورتوں کے ہاتھ کٹھ پُتلی کی طرح بیٹا، بھائی، باپ کی صورت استعمال ہوتا آیا ہے اور ہنوز ہو رہا ہے۔ عورت پیدا ہوتی ہے تو باپ کی چھتر چھایہ میں رہتی ہے، پل کر جوان ہوجاتی ہے تو ایک مرد اسے دوسرے ایک دوسرے مرد سے بیاہ دیتا ہے۔ یہ عورت خاوند کو اُس وقت تک استعمال کرتی ہے جب تک اس کا پیدا کیا ہوا بیٹا جوان ہو کر اس کا سہارا بننے کی پوزیشن میں نہ آجائے۔ جس دن اسے یہ احساس ہوجائےکہ میرا بیٹا اب اس قابل ہوگیا کہ اپنےباپ کی جگہ لے سکتا ہے اور ہر طرح کے فیصلے کر سکتا ہے اور ممتا کے آگے سر نگوں ہو کر اپنا تن من اور دھن نثار کر سکتا ہے، اُس دن خاوند کو گھر سے عاق کر دیا جاتا ہے۔

رشتوں کے استحصال کا یہ تماشہ عورت کے قبر میں اُترنے تلک جاری رہتا ہے۔ حضرت آدمؑ سے یہ سلسلہ شروع ہواتھا، آدمؑ بھی اماں حوا کے لیے خوار ہوئے اور جنت سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہماری ماں نے ہمارے باپ کو جنت سے نکلوا کر دم لیا تھا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہماری بیگم ہمیں اپنے خون پسینے سے بنائے ہوئے گھر اور رشتوں سے نہ نکالے۔ سنتِ حوا کو پورا تو کرنا ہے، سلیقہ شعار اور حیا کی پیکر مخلوق اپنی بڑی ماں کی یہ سنت ضرور ادا کرتی ہے۔

دُنیا کی معلوم تاریخ میں پس پردہ جتنا ذہنی ظلم عورت نے مرد پر کیا ہے، اتنا ظلم مرد کی طرف سے عورت پر نہیں ہوا۔ عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے رونا آتا ہے اور سچی ہونے کے ہزار بہانے اور حیلے آتے ہیں۔ مرد روتا نہیں ہے، یہ اپنا حق چھوڑ دینے اور مصالحت کی ہر ممکنہ کوشش کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مرد اور عورت کے علاوہ تیسری مخلوق پاکستانی سماج میں نہیں بستی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہزاروں برس کی اس چپلقش سے عورت خود کو نکال لے اور اپنی اصلاح کرے۔ آپ کا جھگڑا مرد سے نہیں ہے بلکہ مذہب کے قوانین سے ہیں۔ مذہب کے قوانین انسان یعنی مرد نے نہیں بنائے، خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں، آپ کی گواہی آدھی اور آپ کو ایک نکاح سے زیادہ نہ کرنے کی ممانت اور مرد کے ہاں رہنے کی پابندی اور اس طرح کی دیگر پابندیاں اور دستور جو آپ کو جہالت اور قباحتیں معلوم ہوتی ہیں، یہ مذاہب کی دین ہیں۔

خدا کے لیے مردوں کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول اور انَا کی تسکین کے لیے استعمال کرنے کی روش کو ترک کر دیں۔ آپ روتی ہیں اور سچی ہو جاتی ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب مجھ ایسے ہزاروں مظلوم چُپ کیے ہوئے مرد بھی رونے لگ جائیں گے تو پھر آپ کے رو، روکر سچے ہونے اور مظلوم ٹھہرنے کا جواز ختم ہو جائے گا۔

Check Also

Khoonkhar Kuttay Aur Hum

By Mubashir Aziz