1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Khamosh Inqilab Aya Chahta Hai

Khamosh Inqilab Aya Chahta Hai

خاموش انقلاب آیا چاہتا ہے

تاریخ گواہ ہے، دُنیا میں جتنے بھی جابر حکمران گزرے ہیں، اُنھوں نے قلم کو ہمیشہ اپنے تابع کرنے کی کوشش کی ہے۔ قلم کی طاقت سے جابر حکمرانوں کو ہمیشہ خوف لاحق رہتا تھا۔ یہ قلم کی طاقت کو کسی صورت پروان نہیں چڑھنے دیتے تھے۔ قلم ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے جس کے آگے سلطنتوں کے مضبوط سے مضبوط ترین حصار بھی ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔ قلم کا درست استعمال جہاں انسانوں کی فلاح و ترقی اور خوشحالی کے درَ وا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، وہاں اس کے استعمال سے انسانیت کا قلع قمع ہوتے بارہا دیکھا گیا ہے۔ قلم کی طاقت سے سلطنتوں کو ٹکڑوں میں منقسم کرنے کا رجحان ہزاروں برس پرانا ہے۔

ایک وقت تھا، بادشاہوں کے وزرا میں وزیر عاقل ہوا کرتا تھا، اس کے فرائض میں قلم کی طاقت کو نگوں رکھنا اور اپنے مفاد کے احیا کے لیے اس کا ناجائز استعمال کرنا شامل تھا۔ وزیر عاقل کی نظر عقل و دانش کے معماروں پر ہر وقت ہوتی تھی جہاں اسے کسی بغاوت کا اندیشہ پیدا ہوا، وہاں کے جملہ حاذقین کو بلا کر تحقیق کروائی جاتی تھی کہ یہاں ایسا کون سا رتن چھپا ہوا ہے جو ہمارے نظام کے خلاف رعایا کو اُکسا رہا ہے، بالاآخر اِس باغی کو ڈھونڈ کر تختہ دا رپر لٹکا دیا جاتا تھا۔

سقراط کا قصہ تو سب نے سُنا ہے کہ اس نے اپنے نظریات پر سمجھوتہ کرنے کی بجائے زہر کا پیالہ پینے کو ترجیح دی تھی۔ سقراط سے پہلے اور سقراط کے بعد ہزاروں سقراط پیدا ہوئے جنھوں نے راستی اور سچائی کے فروغ اور انسانی فلاح و ترقی کے پیغام کو واضح کرنے کی پاداش میں زہر کا پیالہ نوش کیا ہے۔ مرورِ وقت کے ساتھ قلم کی طاقت نے نطق کی شکل میں خود کو جدت سے ہمکنار کیا۔ قلم کی طاقت کی سطوت ہنوز برقرار ہے تاہم اب قلم سے زیادہ بولنے کو ترجیح دی جاتی ہے اور بولنے سے زیادہ سامنے آکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کی جرات دکھائی جاتی ہے تاکہ سننے والے اور کہنے والے کے درمیان کسی بات میں کوئی التباس اور شک کی گنجائش نہ رہے اور دونوں طرف سے اختلافِ رائے کُھل کر سامنے آسکے۔

یہ سلسلہ بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے پہلے دو عشروں کی تکمیل پر اپنے عروج کو پہنچا ہوا نظر آتا ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں ہر چیز تب پہنچتی ہے جب وہ پہلی دُنیا یعنی ترقی یافتہ ممالک میں باسی ہو کر سرانڈ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ پاکستان میں پرنٹ میڈیا کی اجارہ داری ایک زمانے تک قائم رہی۔ پرنٹ میڈیا کو سیاست دانوں اور محافظوں نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے عرصہ دراز تک یرغمال بنائے رکھا۔ کسی قلمکار کو اتنی جرات نہ تھی کہ آئین بنانے والوں اور آئین توڑنے والوں کے خلاف اعلانِ بغاوت کر سکے اور اپنے نکتہ نظر کا ببانگِ دُہل اظہار کر سکے۔

ہزاروں باغیانِ شعور کی گردنیں اس جرم کی پاداش میں ماری گئیں اور سیکڑوں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ کہتے ہیں جس کے قلب سے دُنیا کی حرص ختم ہو جاتی ہے اور موت پر کامل یقین کے ساتھ رب تعالیٰ کے موجود ہونے کا تیقن اس کی روح میں اُتر جاتا ہے، اُسے کسی صور ت خاموش نہیں کروایا جاسکتا۔ شعور، تعقل، ادراک، سوچ، سمجھ اور حقیقت سے شناسائی کا عمل ہر دور میں جاری رہتا ہے۔

پاکستان میں آج جو سیاسی، تہذبی، سماجی، معاشرتی اور اخلاقی صورتحال کی ارزانی ہے، یہ اِس سے قبل اس حد تک تَنُزل کا شکار نہیں تھی۔ پرنٹ میڈیا کا دور اب ختم ہونے کو ہےجبکہ الیکٹرانک میڈیا کی ہر طرف پُکار اور مانگ ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی آمد سے جہاں دُنیا بھر کی سیاسی و سماجی صورتحال یکسر تبدیل ہوئی ہے وہیں پاکستان میں بھی قدامت پسندی کی روایت کے جمود کو توڑنے میں اس کا کلیدی کردار اُبھر کر سامنے آیا ہے، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے غیر محسوس طریقے سے پاکستانی رعایا کو شعور، تدبر، تفکر اور تعقل کی روشنی سے منور کیا ہے۔

کمپیوٹر کی آمد نے دُنیا کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولے اور انٹرنیٹ کی آمد کے بعد تو دُنیا گلوبل ولیج بن گئی۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے ملکی سرحدوں کا بیانیہ دم توڑ گیا ہے۔ اب کوئی کہاں بیٹھا ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ آپ آنلائن ہیں تو پوری دُنیا کی ایکسس آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ جس سے بات کرنا چاہتے ہیں، جسے دیکھنا چاہتے ہیں، جس سے ملاقات کی خواہش ہے، جس سے کاروبار کرنا ہے اور معاملات کو آگے بڑھانا ہے، آپ نے بس کلک کرنا ہے اور سب کام ہو جاتے ہیں۔ بدلاؤ کا یہ عمل اتنی تیزی سے وقوع پذیر ہوا ہے کہ دُنیا خود حیرت زدہ ہے۔

پاکستان میں انٹرنیٹ کی سہولت کو پاکستانی سیاست اور پاکستانی اشرافیہ کس طرح دیکھ رہی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے لیے یہ طویل تمید باندھی گئی ہے۔ پاکستانی سیاست کے جملہ کردار اس بات سے بے خبر ہیں کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ان کے بیانیہ بے سود ہو چکا ہے۔ اب ان کے پاس گھسے پٹے نعروں اور کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں کے سوا کچھ بیچنے کو باقی نہیں رہا۔ پرنٹ میڈیا کے دور میں تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا گیاتھا جسے ایک نسل نے جوں کا توں سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ ہر طرح کی کتاب اور ہر طرح کے حقائق پر مشتمل تحقیق آسانی سے دستیاب ہے۔ اب کسی کو ماموں اور بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ وہ وقت گزر چکا، جب قلم کو جبرکے ذریعے اپنے تابع کر لیا جاتا تھا اور کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہوتی تھی۔

یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ مین اسٹریم میڈیا تو بکاؤ کا مال ہے جو زیادہ بولی لگاتا ہے، اُس کا راگ الاپنا شروع کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا کو کسی نے ابھی تک ہاتھ نہیں ڈالا۔ اس کی بظاہر وجہ یہی سمجھ میں آرہی ہے کہ یہ ایک سمندر ہے اور بڑی وہیل ہے جس کو اپنی دسترس میں لینا اتنا آسان نہیں ہے جتنا اس کے بارے میں خوش فہمی پائی جاتی ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں نے ماضی میں جو کچھ کیا ہے اُس کا تمام کچا چٹھا اب عوام کے سامنے پوڈ کاسٹ، وی لاگز، ویب سریز، انٹرویوز، ڈاکو مینٹریز کی صورت سامنے آرہا ہے۔

اب ہمیں یہ پتہ چل رہا ہے کہ تقسیمِ پاکستان کے اصل محرکات کیا تھے، دو قومی نظریہ کو کس نے لانچ کیا، تینوں جنگیں پہلے کس نے شروع کیں، سرحد پار مختلف سرگرمیوں میں کون ملوث ہے، سمندر پار ہماری کیا اوقات ہے، بھکاری ملکوں کی فہرست میں ہمارا نمبر کون ساہے، اپنے محافظوں اور نگہبانوں پر اعتماد کے کلمے رعایا سےکس نے پڑھوائے، قدرتی وسائل کو کس نے لوٹا، معدنیات کو کس نے بیچا، ایٹم بم کی کہانی کیا ہے، سوفٹ وئیر اپ ڈیٹ کیسے ہوتا ہے، پاکستان کے پاس کیا کچھ ہے اور کیا نہیں ہے، نظریاتی بیانیے کیسے گھڑے جاتے ہیں، پارٹیاں کیسے توڑی اور بنائی جاتی ہیں، فنڈ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں، اداروں کی نجکاری کیوں ہوتی ہے، ڈالر، پونڈ اور یورو کا چکر کیا ہے، آف شور کمپنیوں میں کس کا کتنا حصہ ہے، غلامی کی راہ کون ہموار کرتا ہے، مصالحت کا چمپین کس کا پٹھو ہے، پاکستانی رعایا کو اندھیرے میں کیوں رکھا جاتا ہے، تعلیم کوشجر ممنوعہ کیوں بنایا گیا ہے، فرقہ ورانہ فسادات سے کس کی دُکان چلتی ہے، بندوق کی نالی سے کس کی گردن ماری جاتی ہے، باہر سے اندر اور اندر سے باہر پیسہ کیسے آتا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

حقائق کی اس پوٹلی کی گرہ کو سوشل میڈیا دھیرے دھیرے کھول رہا ہے اور ہمیں ایجوکیٹ کر رہا ہے۔ آپ کو یا تو سب پتہ ہے یا بالکل علم نہیں کہ یوٹیوب نے آ پ کے سبھی کالے کرتوت اور سیاہ سفید قصے رعایا کے سامنے طشت از بام کر دئیے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ سوشل میڈیا نے اتنی خاموشی سے یہ کام کیا ہے کہ کانوں کان ہمارے سیاست دانوں، اشرافیہ اور فیصلہ سازوں کو یہ خبر نہ ہوئی (یا یہ پوری طرح آگاہ ہیں اور ڈرے ہوئے ہوئے ہیں) کہ ان کا کام تمام ہو چکا ہے۔ ان کے سیاسی ایجنڈے پِٹ چکے ہیں۔ ان کے خودساختہ وضع کیے ہوئے مصنوعی نظریات رَد ہو چکے اور ان کی جملہ سیاسی واردات کا پنڈورا باکس بیچ چوراہے تار تار ہوگیا ہے۔

سوشل میڈیا نے جس تیزی اور برق رفتاری سے پاکستانی عوام کو تاریخ، مذہبی، معاشرت، سیاست اور تہذیب کے مثبت منفی پہلوؤں کی صداقت اور کھوٹ کے واضح فرق سے متعارف کروایا ہے، یہ گویا ایک حیران کُن عمل ہے۔ یعنی جنھیں ہم اپنا دشمن سمجھتے ہیں وہ ہمیں پیسے(مونیٹائیشنز کی مد میں) بھی دئیے ہیں اور حقیقت اور اصلیت سے متصل حقائق کو سامنے لانے میں وسائل بھی بہم پہنچائے ہیں۔ یوٹیوب، فیس بک، انسٹا گرام اور دیگر ذرایع پر سیکڑوں کی تعداد میں آپ کے گھر کے لوگ آپ کی لنکا کو دن رات پاکستانی عوام کے سامنے ڈھا کر آپ کی اصل چہروں سے متعارف کروا رہے ہیں اور تاریخ کے گمنام جھرکوں کی سیر کروا رہے ہیں۔ یہ بتلا رہے کہ کون کتنا سچا اور کتنا جھوٹا ہے، کس کے پاس کیا ہے اور کس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

ماضی میں کیا کچھ ہوا اور آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ بازی اب آپ کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ شعور پر لگی قدغن ہٹ چکی ہیں، جہالت اور لاعلمی کا دور ختم ہونے کو ہے۔ پاکستانی رعایا آج اسٹیج ڈرامے نہیں دیکھتی، فلموں اور کھیل تماشوں میں وقت ضائع نہیں کرتی۔ یہ تین تین گھٹنے کی پوڈ کاسٹ دیکھ رہی ہے، سوال اُٹھا رہی ہے، جواب ڈھونڈ رہی ہے، حقیقت اور کھوٹ کے فرق کو سمجھ رہی ہے۔ مجھے یقین ہے اگر یہ سلسلہ چند سال مزید یونہی چلتا رہا تو خاموشی سے خون کا ایک قطرہ بہائے اور گملا توڑے بغیر ایسا انقلاب آئے گا جسے دُنیا کی تاریخ نےکبھی نہ دیکھا ہوگا۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کی طرح آپ ہمیں بھی ذہنی غلامی میں مبتلا رکھیں، بنیادی انسانی ضرورتوں کی ازلی محرومی میں ہمارے اعصاب کو شل کر دیں، ہمیں کیڑے مکوڑے سمجھ کر اپنے محلات کی بنیاد میں دفن کر دیں، ہمارا خون نچوڑ کر اپنی اولادوں کو پُر افتخار طرزِ زیست بہم پہنچائیں تو پھر آپ کو خاموشی سے پنپتے ہوئے اس شعور کے انقلاب کی نس کو کاٹنا ہوگی ورنہ یہ سیلاب سب سے پہلے آپ کی بستیوں سے گزرے گا اور ہر چیز کو نیست و نابود کرتا ہوا حق اور سچ کے عَلم کو تھامے ایک نئی دُنیا کی بنیاد ڈالے گا، جہاں کالے اور گورے، عربی اور عجمی، امیر اور غریب، چھوٹے اور بڑے میں کوئی فرق روا نہ رکھا جائے گا اور کوئی کسی پر کسی لحاظ سے فوقیت اور برتری کا دعویٰ نہ کر سکے گا۔

Check Also

21 Topon Ki Salami To Banti Hai

By Muhammad Waris Dinari