1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Hum Tabahi Ke Dahane Par Hain

Hum Tabahi Ke Dahane Par Hain

ہم تباہی کے دہانے پر ہیں

انگریزوں کے بارے میں دل سے دُعائیں بھی نکلتی ہیں اور بد دُعائیں بھی۔ اللہ اِن کا بھلا کرے، انھوں نے ہمیں ٹیکنالوجی سے متعارف کروایا۔ مسلمانوں میں تو ایجاد و دریافت کا سلسلہ صدیوں سے موقوف ہے۔ اب ہم انگریزوں کی پاسبانی اور نگہبانی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ ہمارے بزرگوں نے ڈیڑھ سو برس کی محنتِ شاقہ سے ان انگریزوں سے جسمانی آزادی حاصل کی تھی۔ اس جسمانی آزادی سے سرحد کے دونوں طرف بیس لاکھ کے قریب انسانوں کا قتلِ عام ہوا تھا۔

حیرت کا مقام ہے، جنھوں نے ہم پر حکومت کی، وہ پتلی گلی نکل گئے اور جنھوں نے آزادی لی تھی وہ ایک دوسرے کو مار، مار کر تھکتے رہے۔ برصغیر کی زمین نے اس بڑا انسانی جان کے ضیاع کا سانحہ نہیں دیکھا۔ اس موضوع پہ پھر کسی دن آنسو بہائیں گے۔ آج بات انگریزوں کی ایجادات کے حوالے سے کرتے ہیں۔

انگریزوں نے ایجادات کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا۔ دُنیا میں آج جتنی آسانیاں اور سہولتیں موجود ہیں، ان کا سہرا، انگریزوں کے سر جاتا ہے۔ انگریزوں نے بلاشبہ ٹیکنالوجی کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں جس کی داد دینا ہم پر لازم ہے۔ ایک وہ بھی وقت تھا جب لوہا ایجاد ہوا تھا تو لوگوں نے دُنیا کا رنگ و آہنگ بدل کر رکھ دیا۔ پہیے کی ایجاد سے دُنیا دوڑنے لگی، اسٹیم انجن کی ایجاد سے سفر سمٹ کر منزل منزل ہوگیا۔ اس سے آگے آتے جائیے اور حیران ہوتے جائیے۔ بات جب کمپیوٹر کی ایجاد تک پہنچی تو گویا ایک طوفان برپا ہوگیا۔ ہر چیز کا تیور بدل گیا۔ جینے کے انداز سے لےکر کاروبار کی ہر نوع تک، ہر چیز میں کمپیوٹر کی مداخلت رگوں میں خون کی طرح سرائیت کی گئی۔

بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز پر دُنیا کو انٹرنیٹ کا تحفہ نصیب ہوا۔ انٹرنیٹ کی آمد سے دُنیا گلوبل ولیج بن گئی۔ دُنیا میں وہ کچھ ممکن ہوگیا جس کا پیشتر قوموں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اب ہم 2024 میں داخل ہونے والے ہیں۔ اکیسویں صدی کے پہلے دو عشروں میں موبائل فون کی آمد سے لے کر 4 جی کا سفر ہمارے لیے خوش قسمتی کے دروازے کھولنے کے مترادف ثابت ہوا۔ آج ہم سوشل میڈیا میں جی رہے ہیں۔ روابط کے ہزار ہا ذرائع موجود ہیں۔ جب جی چاہے دُنیا کےکسی کونے میں بیٹھے انسان سے روبرو بات بھی ہو سکتی ہے، اسے چلتے پھرتے بات کرتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

کہتے ہیں دُنیا اس سے بھی آگے جائے گی۔ اللہ ہی جانے اور کیاکیا دیکھنے کو ملے گا۔ اب سہلوتوں کی برق دستیابی سے ہمارا تو دم گُھٹنے لگا ہے۔ ان ایجادات کا دوسرا رُخ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ جہاں یہ سہولتیں آسانیاں لے کر آئی ہیں، وہیں اِنھوں نے انسانی محنت اور انسانی وجود کی اہمیت کو گھٹایا بھی ہے۔ پہلے ایک کام پر بیس افراد متعین ہوتے تھے، اب فقط ایک کمپیوٹر بیس ہزار آدمیوں کا کام اکیلا کرتا ہے۔ کمپیوٹر نے آہستہ آہستہ بڑی چالاکی سے انسانوں کی ضرور ت کوختم کیا ہے۔ اس بات کا ہمیں اِدراک بھی نہیں ہوا۔ ان ایجادات کے بارے میں ہمارا روئیہ اور طرح کا ہے۔ ہم جب تک ہر چیز کو اُدھیڑ کر، اچھی طرح استعمال کرکے، اس کے حصے بکھرے جب تک دیکھ نہ لیں، اس کے غلط اور صحیح ہونے کے بارے میں رائے نہیں دیتے۔

سُنا ہے کمپیوٹر کی بے جا مداخلت نے انسانی زندگی کا پورا نظام درہم برہم کر دیا ہے۔ انسانوں کو انسانوں نے لڑوا رہا ہے، انسان کی بنیادی ضرورتوں کو چھین رہا ہے۔ انسانوں کی جبلّت اور اس کے تعقل کو مفلوج کر رہا ہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے مثبت استعمال اپنی جگہ، اس کے منفی نقصانات کے تدارُک کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آرہے۔ پاکستانی معاشرے میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت کو ابھی محض انٹرنیٹنگ کے تناظر میں لیا جا رہا ہے۔ حکومتِ پاکستان بھی اس کے زہر رساں اثرات سے بے خبر ہے۔ پاکستانی عوام تو سرے سے اس سازش سے نابلد ہے کہ اس مشین نے پاکستانی اذہان کے ساتھ کیسی کیسی زیادتی کر ڈالی ہے۔

آج پاکستان میں پیدا ہونے والے شِیر خوار سے لے کر قبر میں ٹانگیں لُڑکھائے مُعمّر تک ہر شخص موبائل اور انٹرنیٹ کی آن لائن ایڈکشن کا مریض ہے۔ تین سال سے لے کر تیس سال تک کے نوجوان پر انٹرنیٹ کے منفی اثرات کےایسے ہولناک نتائج سامنے آرہے ہیں کہ اس نوجوان کو پتہ ہی نہیں کہ اس کے ساتھ کیا کچھ ہوگیا ہے۔ اس کی ذہنی صلاحیت کو انٹرنیٹ نے مفلوج کر دیا ہے۔ اس کا ڈوپامنن ایڈکشن کا شکار ہے جس کے سرنٹانن کی فیصدی شرح مایوس کُن حالت تک گِرچکی ہے۔ بالغ اور نابالغ بچوں میں موبائل فون کے بے جا استعمال اور از حد منفی استعمال سے میموری لاک ہو چکی ہے۔

پاکستان میں موبائل، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور اس سے متصل ہزار ہا ایپ نے جو تباہی مچا رکھی ہے، اس کی تفصیل میں جاؤں تو منہ چھپانے کے لیے جگہ نہ ملے۔ ہمارے نوجوان تو ایک عمر میں آکر اخلاقی قباحتوں کا شکار ہوتے ہیں جن کا کسی حد تک سدباب کیا جاسکتا ہے۔ تین چار سال کا بچہ پورن دیکھتا ہے اور سترسالہ بزرگ بھی اسی لت میں مبتلا دیکھا گیا ہے۔ پورن سایٹس کی واچنگ اور سرچنگ لسٹ میں پاکستان پہلی تین پوزیشن پر مستحکم رہتا ہے۔ گویا، یہ ایسا اعزاز ہے جس پر ہم پھولے نہیں سما رہے۔ ہمیں یہ علم نہیں کہ ان غیر اخلاقی سائٹس اور غیر اخلاقی مواد کے حصول کی راہ ہمارے ہاں اتنی آسان اور برمحل کیوں ہے؟

غیر مسلم کبھی مسلمان کا دوست، ساتھی اور محب نہیں ہو سکتا۔ دُنیا کی جہالت کو روشنی میں اہلِ اسلام نے تبدیل کیا ہے۔ عرب کے صحراؤں میں حق کانقارہ اہلِ اسلام کے داعیوں نے بجایاتھا۔ دُنیا بھر میں جتنی ایجادات ہو رہی ہیں، اس کی بنیادی معلومات مسلمان سائنسدانوں نے اپنی کُتب میں فراہم کی ہیں۔ جب تک مسلمانوں کا یقین خدائے واحد پر پختہ رہا، اللہ تعالیٰ نے انھیں عزت دی، جب سے ہم بے وفا ہوئے، ترقی و خوشحالی اور درست راہ کی نعمت سلب ہوگئی۔ رب تعالیٰ کا قانونِ مُحکم ہے۔ وہ اپنے نظام قدرت میں ہر چیز کو میرٹ کی بنیاد پر دیکھتا ہے۔ جو محنت کرتا ہے، اُسے پھل ملتا ہے، جو اکڑتا ہے وہ مردُود قرار پاتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت جو سیاسی، سماجی اور مذہبی صورتحال ہے، وہ انتہائی دِگرگوں ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے اعمال کو درست کریں، اپنی نیتوں کا قبلہ درست کریں، رب تعالٰی سے اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی معافی ما نگیں۔ نواز، آصف، خان اور ان ایسے چند کرداروں نے ملک کو جتنا بھی لوٹ لیا، ان کی تعداد چند سو کی ہے۔ آپ نے جو لوٹ مچائی ہے، اس کا حساب فقط آپ نے دینا ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنے کرتوت پر نگاہ کریں۔ کسی کو بُرا کہنے سے پیشتر اپنے آپ سے سوال کریں کہ میں کیا کرتا پھر رہا ہوں۔

پاکستان پر اس وقت مجموعی زوال کا غلبہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے لیے ہم سب نے حصہ ڈالا ہے۔ اگر آپ میری رائے سے اختلاف رکھتے ہیں اور آپ اتنے سچے، اچھے، اور ایمان کے پکے ہیں تو پھر صداقت کی شمع جلائیے اور اپنے کرتوت سے باز آجائیے۔ آپ جس کاروبار سے، ملازمت سے، پیشے سے منسلک ہیں وہاں اپنی حد متعین کر لیجیے اور دکھا دیجئے کہ آج سے آپ کی زبان اور ہاتھ اور نیتوں کے فتور سے ہر دوسرا انسان، پیشہ، کاروبار اور نظامِ حیات محفوظ رہے گا۔

ہم سب یہ عہد کر لیں تو پانچ منٹ میں یہ پورا ملک خود بہ خود سیدھا ہو جائے گا۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں ایسے ہی رہوں اور دوسرے ٹھیک، درست اور ایمان دار ہو جائیں تو یہ نہیں ہوسکتا۔ آپ کے کرتوت کی وجہ سے نوجوان نسل بگڑ چکی۔ نوجوان نسل کی حرکات کو دیکھ شِیر خوار ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ آوے کا آوا بگڑ ہوا ہے۔ اس ملک کو رب تعالیٰ نے ہر نعمت سے نوازا ہے لیکن ہم نے یہ ٹھان رکھی ہے کہ اس ملک کو ایک دفعہ اپنے ہاتھوں سے تباہ کرکے چھوڑنا ہے۔

پاکستان میں آج ہر دوسرا بندہ تیسرے سے یہ کہہ رہا ہےکہ ملک سے بھاگ جاؤ۔ گوروں کے دیس میں ٹھکانہ ڈھونڈو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمار ے بزرگ بے وقوف، جاہل اور حواس سے عاری تھے کہ انھوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر ہمیں آزادی کی نعمت عطا کی۔ وہ تو اپنا کام کرگئے، آج ہم خود بہ حیثیت قوم کیا کر رہے ہیں؟ دِگرگُونی اور تَنُزلی و بے حِسی کی یہ حالت یونہی روا رہی توبہت جلد ہم اپنی دیواروں کے بوجھ سے زمین میں دب جائیں گے۔

کمپیوٹر، موبائل فون، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور اس سے آگے کی سبھی سہولتیں ہمارے لیے قباحتیں اور تباہی کے ہتھیار اسی لیے بن گئی ہیں کہ ان سہولتوں کو درست اور مناسب استعمال کرنے کی تربیت نہیں ہوئی۔ انگریز کے ہاں ڈبہ موبائل ہوتا ہے اور آپ نے اپنی اولاد کو آئی فون پرو میکس لے کر دیا ہے کہ جا بچے، عیش کر، میں ہوں نا، کمانے والا، بس تو پیسہ اُڑا، میں پیسہ اکھٹا کرتا ہوں۔ اپنے اپنے گھونسلے بنائے جا رہے ہیں، بینک میں سونے چاندی کے پہاڑ کھڑے کر رہے ہیں۔ نفسانفسی کا عالم ہے۔

دجال تو آچکا ہے بھیا! ہم اپنے ایمان سے اور ایقان سے ہاتھ دُھو بیٹھے ہیں۔ تباہی کب آئے گی، جب یہ مکانات ملبے کا ڈھیر بن جائیں گے۔ آنکھیں کھولیں اور دیکھیں، تباہی آچکی ہے، ان قریب ہم اِس تباہی کے ملبے کا ڈھیر بننے والے ہیں۔ اغیار نے ہمیں کیا مارنا ہے کہ ہم تو خود اُن کے قدموں کی دُھول چاٹنے کے لیے اُ ن کے در پر سوالی بنے ویزوں کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ خدا کے لیے ہوش میں آئیں اور نیتوں کا قبلہ درست کریں۔ جو ہو چکا، سو ہوچکا۔ مزید یہ ملک اس صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہم سب نے مل کر اس ملک کو یہاں پہنچایا ہے، ہم مل کر ہی اس کو درست راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

Check Also

Imandari Aur Dayanatdari

By Qamar Naqeeb Khan