1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Election, Siasat Aur Naojawan

Election, Siasat Aur Naojawan

الیکشن، سیاست اور نوجوان

یہ وقت بھی دیکھ رہے ہیں، اس سے آگے کی صورت حال سے بھی سابقہ پڑنا ہے۔ میر تقی میر ؔنے کہا تھا:

راہِ دورِ عشق میں روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

2024 کا سال پاکستانیوں کے لیے سازگار ثابت ہوگا یا نہیں، اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا ایک طویل لاینحل مباحثہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر زور و شور سے جاری ہے۔ ٹی وی سکرین شب و روز پاکستانی سیاست کی کارفرمائیوں کے جملہ مظاہرات کی چشم دید گوا ہ ہے۔ دور ازکار کی لایعنی خبر کو بریکنگ نیوز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ایک شدید ہیجانی اور خلجانی کیفیت میں مبتلا کر دئیے گئے ہیں۔ الیکشن کے اس موسم میں ہر پارٹی کا موقف سامنے آرہا ہے۔

پاکستان میں پچاس کے قریب سیاسی جماعتیں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کے چارٹ آف ڈیمو کریسی یعنی نظریہ سیاست کو پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ سبھی کے ہاں بنیادی انسانی ضرورتوں پر سیاست کی بنیاد اُستوار ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان سے لے کر پانی، بجلی، آٹا، چینی تک آکر بات ختم ہو جاتی ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں گذشتہ چھیتر برس سے بنیادی انسانی ضرورتوں پر سیاست ہو رہی ہے۔ ستم یہ ہے کہ چھیتر برس گزرنے کے باوجود ان سہولتوں سے پاکستانی عوام محروم رہی ہے۔

پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں حصہ لینے کے لیے لیول پلینگ فیلڈ یعنی یکساں اختیاری وسائل کی خواہش رہتی ہے۔ گذشتہ چند مہینوں سے سیاسی جماعتوں سے تا دیر وابستہ رہنے والے سیاست دان سچ بولنے کی جرات کر رہے ہیں۔ یہ سچ انھیں بہت پہلے بول دینا چاہیے تھا۔ ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی جو پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، اُن کا فرمانا ہے کہ نواز شریف صاحب کو فوج کے سہارے حکومت میں آنے کی ضرورت نہیں ہے، اس سہارے سے بہتر ہے کہ وہ تیس سیٹ لے کر اپوزیشن میں بیٹھ جائیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے کمال جرات سے یہ کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں پاک فوج کے لیے Establishment کا لفظ استعمال کرتی ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ فوج کا نام لے کر اپنا مقدمہ اور موقف سامنے رکھیں۔ مفتاح اسماعیل صاحب نے کہا ہے کہ ن لیگ نے اپنے ذاتی مفاد کی غرض سے ملک کو دیوالیہ کے قریب لا کھڑا کیا، انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ شبر زیدی صاحب کہتے ہیں پاکستان میں ایک فیصد اشرافیہ نناوے فیصد عوام کے بنیادی حقوق کا مسلسل استیصال کر رہی ہے اور کوئی انھیں روکنے والا نہیں ہے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر کو اسی جرات کی پاداش میں جماعت سے علحدہ ہونا پڑا۔ یہ امثال اس لیے پیش کی ہیں تاکہ ان کے سیاق میں پاکستانی سیاست کی پالیسوں اور ذاتی مفادات کے ہتھکنڈوں کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔ پاکستان میں اس وقت سیاسی شعور بلوغت کو پہنچ چکا۔ ایک وقت تھا جب سیاسی جماعتیں عوام کو بہرہ، گونگا اور شعور سے عاری سمجھ کر ان کے ووٹ کا جس طرح چاہتی ہیں، استعمال کر لیتی تھیں، اب وہ وقت گزر چکا ہے۔ اب ووٹر کی باہمی تقسیم ہو چکی ہے۔

پاکستان میں ایک بدلاؤ جو تیسری طاقت بن کر سامنے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ اب پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کے ساتھ ووٹر کا ردعمل بھی ایک منظم نظریے کے تحت اُبھرا ہے۔ گذشتہ الیکشن میں بریانی، قیمے والا نان، سرکاری نوکری، پکی نالی، بجلی کی کُنڈی، تھانے میں غیر قانونی پرچے کی ایکسس وغیرہ کے ذریعے ووٹر کو خریدنے کی باتیں گردش کرتی رہیں۔ اب یہ رجحان اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ گلی محلے اور کوچے، بازار کی سیاست میں یکسر بدلاؤ آچکا ہے۔ نوجوان کے ہاتھ میں موبائل فون ہے، وہ ہر لمحہ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال اور ملک کی مجموعی گراوٹ کی تنزلی کو برابر دیکھ رہا ہے اور اس پر اپنی رائے کا اظہار بھی کر رہا ہے۔

یہ الیکشن سبھی جماعتوں کے لیے مشکل ثابت ہونے والا ہے۔ اب ایم اپی اے اور ایم این اے کے پاس کوئی طلسمی چھڑی نہیں ہے۔ ان کے پاس منت، سماجت اور بہلاوے کے نشتر بھی نہیں ہیں، ان کے پاس سیاسی نظریہ اور مستقبل کا کوئی پلان بھی نہیں ہے۔ پاکستانی عوام نے گذشتہ ایک برس سے سیاست میں ہونے والی جملہ کارگزاریوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ پاکستانی ووٹر اچھی طرح جانتا ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے، کس نے ظلم کیا ہے اور کس پر ظلم ہوا ہے، کون ظالم ہے اور کون مسیحا ہے، چور، ڈاکو، لیٹرے اور غدار کون ہیں، ہمدرد، راہنما اور راہبرِ کاررواں کو ن ہیں، حقیقت آئینے کی طرح عوام یعنی ووٹر کے سامنے واضح ہو چکی ہے۔ اب ووٹ لینے کے لیے سبز باغ دکھانے، وعدے کرلینے اور تسلیاں دے لینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اب وہی سامنے آئے گا جسے پاکستانی نوجوان منتخب کریں گے۔

اس بار نوجوان ووٹر کی تعداد پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔ یہ نوجوان اپنی مرضی کرتی ہے، انھیں ڈرایا، دھمکایا، لُبھایا اور ورغلایا نہیں جا سکتا۔ ان کے ہاں جس شخصیت کو مقبولیت مل گئی وہی ان کے ووٹ کا صحیح حقدار ہوگا۔ پاکستان کی عمر چھیتر برس ہے، یوں دیکھا جائے تو یہ ملک کچھ کیے بغیر بوڑھا ہوگیا ہے۔ اس ملک کو ایک فیصد طبقے نے ہاتھ پاؤں توڑ کر اپاہج کر ڈالا ہے۔ یہ اپاہج ملک جس کی ٹانگوں میں اپنے وجود کو سہارا دینے کی طاقت نہیں ہے، پچیس کروڑ آبادی کے وجود کو کیسے سنبھال سکتا ہے؟

اس ملک کوسیاست دانوں، محافظوں، جاگیر داروں، کاروباریوں، منصنفوں، حاذقوں اور قذاقوں نے اپنی مرضی سے جس طرح جس قدر جس انداز سے جتنا چاہا، لُوٹا ہے اور اپاہج کیا ہے، ان ظالموں نے اپاہج وجود کے سفید خلیوں سے لے کرفاسد مواد کے جرثوموں تک کو نہیں چھوڑا ہے۔ اس ملک کے ساتھ اِسی ملک کے باسیوں نے وہ سلوک کیا ہے جو ہلاکو خان، تیغو خان، منقو خان نے بھی نہیں کیا تھا۔

یہ ملک جواہرات کا خزینہ تھا جس میں اب فقط ریت بھری ہے، یہ ملک ایک کٹھ پُتلی ہے جس کی بھاگیں چند ناسوروں کے ہاتھوں میں ہیں جواپنے شغل کی خاطر اسے سرراہ رقصاتے ہیں اور اس کے عُریاں جسم پر کوڑے برساتے ہیں۔ یہ وہ بدمعاش بِلّے ہیں جنھوں نے دودھ پی کر دودھ والا کٹورا بھی کھا لیا ہے۔ ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ اس الیکشن میں ایک تیسری صورت سامنے آئے گی، جس کا کسی کو ہنوز ادراک نہیں ہے، وہ تیسری صورت کیا ہے، اس کے بارے میں الیکشن کی رات کو پتہ چلے گا۔

یہ تیسری صورت سب کو حیران کر دے گی۔ کچھ لوگ سٹپٹائیں گے، روئیں گے، کُرلائیں گے۔ کچھ خوشیاں منائیں گے، لُڈیاں ڈالیں گے۔ کچھ حیران و پریشان ہو کر چُپ سادھ لیں گے۔ یہ تیسری صورت بہت خطرناک ثابت ہوگی۔ اس صورت کے نافذ العمل ہونے کے بعد کسی کو کچھ بولنے، کہنے اور کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔

Check Also

The Shah Andy

By Rauf Klasra