Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mohsin Khalid Mohsin/
  4. Dunya Ke Baray Mein Shayron Ke Khayalat

Dunya Ke Baray Mein Shayron Ke Khayalat

دُنیا کے بارے میں شاعروں کے خیالات

انسان دُنیا میں آیا، اس نے دُنیا کو اپنے رہنے کا مستقل ٹھکانہ سمجھ لیا، اس کارخانہ قدرت میں انسان کا ڈالا ہوا حصہ خواہ جتنا بھی ہو، اس کی مستقل اقامت کا مدار کسی صورت دوام اختیار نہیں کر سکتا۔ انسان دُنیا کو خوبصورت بناتا ہے اور خوبصورتی سے معمور اس خطے کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اس کا پلٹ کر نہ آنا ایک حیرت کُشا عمل ہے جس کی تعبیر خواب کی مانند کسی کو میسر نہ آسکی۔ انسان اس حیرت کدے کو باوجود اپنی فنایت کے چھوڑنا گوارا نہیں کرتا، انسان دُنیا میں مستقل اقامت کے لیے اپنی صلاحیتوں کا جملہ عرق دُنیا کی خوبصورتی کو بڑھاوا دینے میں صرف کر دیتا ہے۔

(میر تقی میر)؎

بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو

ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

(بشیر بدر)؎

یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں

مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے

(جون ایلیا)؎

نہیں دُنیا جو جب پروا ہماری

تو پھر دُنیاکی پروا کیوں کریں ہم

دُنیا خوبصورت ہے اور اس کی خوبصورتی ہمیشہ سے یونہی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گری کے مظاہر دکھاتی چلی آتی ہے۔ دُنیا کے جملہ انسانوں نے دُنیا کو رہنے کا مناسب ٹھکانہ سمجھا، اس کی آب و ہوا اور گِل و مورت کو اپنے تئیں بہتر سے بہترین بنانے میں اپنا فن صرف کیا اس کے باوجود دُنیا کی اس رنگینی اور خوبصورتی میں بد صورتی کے عناصر کو ختم نہیں کر سکا۔

(اکبر الہ آبادی)؎

دُنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

(علامہ اقبال)؎

دُنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

دُنیا میں آنے والا ہر شخص جب شعور سنبھالتا ہے تو پہلے سے موجود اشیا کی ہیت اور ناک نقشے کو تبدیل کرنے کی جستجو میں غرق ہو جاتا ہے۔ پہلے سے بنی ہوئی مستحکم چیزوں کو توڑ پھوڑ کر ایک نئی شکل میں ڈھالنے کے جتن کرتا ہے۔ معمر افراد کی مزاحمت کو مُول لیتا ہے، جوانی کے نشے میں مست کسی کی پروا نہ کرتے ہوئے ہر چیز کو درہم برہم کر دیتا ہے، توڑ پھوڑ اور تاراج کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دُنیا کی خوبصورتی مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔

(خواجہ میر درد)؎

سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں

زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں

(عبدالحمید عدم)؎

تھوڑی سی عقل لائے تھے ہم بھی مگر عدمؔ

دُنیا کے حادثات نے دیوانہ کر دیا

کہا جاتا ہے کہ دو سانڈ کی لڑائی میں بےچاری گھاس ہی کچلی جاتی ہے۔ اس گھاس کے کچلے جانے میں اس کی افزائش کا عنصر مضمر ہوتا ہے، گویا مہمیز ہونا بھی اپنے آپ میں نمو کا ایک طاقتور عنصر ہے۔ انسان کی ہمیشہ سے یہ کوشش اور خواہش رہی ہے کہ اسے جو میسر ہے وہ کم تر ہے اور مزید کی تلاش میں اسے چین سے نہیں بیٹھنا ہے۔ رب تعالیٰ نے انسان کے ذہن و قلب میں مزید سے مزید تر کی تلاش کا عنصر فطرتاً ودیعت کیا ہے جو اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔

(احمد مشتاق)؎

کیسے آسکتی ہے ایسی دل نشیں دُنیا کو موت

کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا

(شہاب جعفری)؎

چلے تو پاؤں کے نیچے کُچل گئی کوئی شے

نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دُنیا ہے

انسان جب دُنیا کی رنگینی اور رعنائی دیکھتا ہے تو پاگل ہو جاتا ہے۔ دُنیا کے بار ےمیں جملہ مفکر و مدبر شخصیات نے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ دُنیا کو کسی نے بے وفا اور کسی نے وفا کی مورتی قرار دیا۔ شعرا نے بطورِ خاص دُنیا کو بے ثباتی، ناپائداری اور بے وفائی کا مرقع قرار دینے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا ئے ہیں۔

(فنا نظامی کانپوری)؎

دُنیا پہ ایسا وقت پڑے گا کہ ایک دن

انسان کی تلاش میں انسان جائے گا

(جلیل عالی)؎

دُنیا تو ہے دُنیا کہ وہ دُشمن ہے سدا کی

سو بار ترے عشق میں ہم خود سے لڑے ہیں

دُنیا کو تسخیر کرنا اور اس گھوڑی پر سوار ہو کر اس کے ناک میں نکیل ڈالنا کسی کسی کو نصیب ہوا ہے۔ لاکھوں کروڑوں انسا ن دُنیا میں آئے اور چلے گئے، گویا ان کے آنے نہ آنے سے بظاہر دُنیا کے حُسن و جمال اور رعنائی و دلکشی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ دُنیا چالا ک مٹیار ہے جو یہ جانتی ہے کہ اس کی جوانی کو نکیل ڈالنے والا گھبرو جوان اس کی دسترس میں آ کر رہتا ہے۔ یہ ایسے شخص کی خود تلاش کرتی ہے جو اس کی حُسن پر مرتا ہواور اس کی گود میں سر رکھنے کو تڑپتا ہو۔

(شہریار)؎

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

(اسعد بدایونی)؎

گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا

ایک ہی رنگ ہے دُنیا کو جدھر سے دیکھا

(جمال احسانی)؎

دُنیا پسند آنے لگی دل کو اب بہت

سمجھو کہ اب یہ باغ بھی مرجھانے والا ہے

دُنیا کو بے وفا کہنے والے اس کی ایفائی کا دم بھرتے دیکھے گئے، دُنیا کو وفادار کہنے والے اس کی بے وفائی کے صدمے اُٹھاتے دیکھے گئے۔ دُنیا اپنے اندر متضاد پہلو لیے ہوئے ہے، اس کا پتہ نہیں چلتا، پل میں کچھ ہے اور پل میں کچھ، اس کے رنگ، طور، طریقے، قرینے، وضع اور رنگ ڈھنگ عجیب و غریب ہیں، اس کے ہو جایئے یا اس کو اپنا بنا لیجیے، یہ بھی انسان پر منحصر نہیں بلکہ اس کی منشا ور رضا پر دلالت کرتا ہے۔

دُنیا عجب گورکھ دھندہ ہے، دُنیا پیسے کی ہے اور پیسہ دُنیا کا ہے اور دُنیا کس کی ہے، یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ فقیر کو دُنیا سے کوئی غرض نہیں، امیر کو دُنیا کی پروا نہیں، غریب دُنیا سے نفرت کرتا ہے، بھکاری دُنیا سے بھیک مانگتا ہے۔ دُنیا کے ہزاروں رنگ اور چہرے ہیں، اس کے مکھوٹے کبھی ختم نہیں ہوتے، اس کا سوانگ طلسم کے ہزاروں پرتو رکھتا ہے، یہ جس پر کھلتا ہے وہ کُھلی کتاب کی صورت دُنیا کی رنگینی و رعنائی کا ترجمان و نمونہ بن کر رہ جاتا ہے۔

(مرزا غالب)؎

بازیچۂ اطفال ہے دُنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

(ندا فاصلی)؎

جتنی بُری کہی جاتی ہے اِتنی بُری نہیں ہے دُنیا

بچوں کے اسکول میں شاید تم سے ملی نہیں ہے دُنیا

(افتخار عارف)؎

راس آنے لگی دُنیا تو دل نے کہا کہ جا

اب تجھے دردکی دولت نہیں ملنے والی

دُنیا کی لذت اور مسرت اپنے اندر تمام نشوں کی تمازت اور حدت کو لیے ہوئے ہے۔ دُنیا عجب سرائے ہے، یہاں قیام کرنے والے دُھتکار دیا جاتا ہے اور پاؤں نہ رکھنے والے کے پاؤں پکڑے جاتے ہیں۔ دُنیا کو سمجھنا نہایت آسان ہے اور انسان کو دُنیا نہیں سمجھ سکتی، انسان اور دُنیا کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن یہ چولی کبھی دامن سے پیوست دکھائی نہیں دیتی۔ دُنیا کو حاصل کرنے والے اور اس کی دسترس کا دعویٰ کرنے والے خود دُنیا کے پاؤں تلے ہمیشہ کے لیے نا بود ہوگئے۔ دُنیا مسیحا ہے، ظالم ہے، رحیم ہے یا متکبر، اس کی جلوہ گری اور کسا د بازاری کسی نے دیکھی اور کسی نے سہی۔

(فیض احمد فیض)؎

دُنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا

تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

(حبیب جالب)؎

دُنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں

دُنیا کے مشوروں پہ نہ جا اِس گلی میں چل

(اِسرار الحق مجاز)؎

بہت مشکل ہے دُنیا کا سنورنا

تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے

مختصر یہ کہ دُنیا جادو کا کھلونا ہے جس کے مل جانے پر خوشی اور کھو جانے پر غمناکی ملتی ہے۔ دُنیا خوبصورت ہے اور یہ خوبصورت لوگوں کو پسند کرتی ہے، خوبصوتی خود خوبصورتی کو جنم دیتی ہے، جمال اپنے جمال کا پرستار ہے، پرستاری کا معیار اور تقاضا یہی ہے کہ اس کے آگے سرنگوں ہو کر اپنا تن من دھن قربان کر دیا جائے کہ قربانی ہی بقا اور مداومت کا حسین جواز ہے جس نے نامعلوم عہد سے خود کو سراب کے طلسمی تصور سے مرصع و مقیش کر رکھا ہے۔

(ندا فاضلی)؎

دُنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے

مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے

Check Also

Bachon Ki Tarbiyat Ke Liye Maar Peet Zaroori Nahi Hai

By Asma Hassan