1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Barhti Abadi Ke Mohlik Rujhanat

Barhti Abadi Ke Mohlik Rujhanat

بڑھتی آبادی کے مہلک رجحانات

آپ جھگڑ کیوں رہے ہیں۔ اللہ نے آ پ کو چاند ایسا بیٹا دیا ہے۔ اس کا خیال رکھو اور اس کے کھانے پینے کا بندوبست کرو۔ یہی تو رونا ہے کہ ہر سال ایک چاند ہمارے گھر پیدا ہوجاتا ہے۔ بھابھی نے یہ کہہ کر مجھے حیرت میں مبتلا کر دیا۔ میں نے کہا: یوں نہیں کہتے۔ جو دُنیا میں آتا ہے، اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے، فکر نہ کریں، بھیا، محنتی ہیں، کما لیں گے اور پال لیں گے، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

بھابھی نے کہا: تمہارے کزن بھیا! سارا دن چارپائی توڑتے ہیں اور رات بھر مجھے توڑتے ہیں۔ چارپائی اور مجھ میں یہ فرق ہے کہ میں ٹوٹتی ہوں تو ایک چاند پیدا ہوتا ہے اور یہ ٹوٹتی ہے تو مزید مجھے توڑنے کی خاوندِ محترم میں طاقت آتی ہے۔ میں تو شرم سے شرابور ہوگیا۔ اچھا، میں چلتا ہوں۔ پھر کسی دن آؤں گا۔ یہ کہہ کر میں نے راہِ فرار اختیار کی۔ گھر سے باہر نکل کر سانس بحال کیا۔

ایک خیال اچانک ذہن میں گردش کرنے لگا۔ پاکستان کی آبادی میں کتنے ایسے چاند ہر دن پیدا ہوتے ہیں جن کے پیدا کرنے والے انھیں پیدا تو کر لیتے ہیں لیکن ان کے پیدا کرنے کے مقصد سے بے نیاز اور لا تعلق ہوتے ہیں۔ میرے تشنہ سوالوں کےجواب مل گئے۔ آبادی میں ہوش رُبا اضافے کا سبب مڈل کلاس اور تھرڈ کلاس کے میاں بیوی ہیں جنھیں چارپائی توڑنے سے لے کر عورت کا جسم توڑنے تک کا قومی اور مذہبی فریضہ ملا ہے۔ یہ ایک گھر کی کہانی نہیں ہے۔ یہ پاکستان بھر کی مڈل اور تھرڈ کلاس طبقے کی کہانی ہے۔

پاکستانی سماج کو کلاس سسٹم میں تقسیم کرنے کا پلان جس نے بھی ترتیب دیا ہے، وہ ایسا شاطر دماغ، ذہین اور ملک دُشمن شخص یا طاقت ہے جس نے اس ملک کو اپنے بوجھ تلے دب کر مر کھپ جانے کا پورا بندوبست کر دیا ہے۔ پاکستان کی آبادی چھبیس کروڑ کے قریب ہے۔ 2023 کی مردم شماری میں ہر طرح کی شفافیت کے باوجود دو کروڑ کے قریب آبادی کو مردم شماری میں شمار نہیں کیا گیا۔ پاکستان کی اصل آبادی علاوہ پاکستانی باسیوں کے شمار کی جائے تو تیس کروڑ کے نزدیک جا پہنچتی ہے۔

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی کا بے تحاشہ اضافہ ہے۔ یہ اضافہ کس کلاس یا طبقے میں ہو رہا ہے۔ اس کے بارے میں حکومتی سطح پر کبھی کام نہیں ہوا۔ اس طرح کے سروے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ پاکستان میں اشرافیہ کی کل تعداد پانچ سے بارہ لاکھ افراد کے قریب ہے جنھوں نے پاکستان کے 90 فیصد وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ دس فیصد بقیہ وسائل 90 فیصد آبادی کے لیے وقف ہیں۔ سیدھا سا حساب ہے۔ ہم جسے اشرافیہ کہتے ہیں یا ایلیٹ کلاس میں شمار کرتے ہیں، اُن کے ہاں بچوں کی پیدائش صفر بٹا صفر ہے یعنی دو بچوں سے زیادہ پیدا کرنے کی ہمت اور جرات گوارا نہیں کی جاتی۔

مڈل کلاس کی تین مزید کلاسزز ہیں۔ اپر مڈل کلاس، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس۔ اپر مڈل کلاس کے ہاں بھی بچوں کی پیدائش پر خصوصی توجہ ملتی ہے۔ مڈل کلاس بھی کسی حد تک بچوں کے معاملے میں سنجیدہ ہے۔ لوئر مڈل کلاس اور تھرڈ مڈل کلاس کی مزید تین درجاتی کلاسزز میں بچوں کی پیدائش کو ہی زندگی کا حاصل کُل سمجھا اور تصور کیا جاتا ہے۔ تھرڈ کلاس تو بھیک مانگنے والے ہیں، ان کے ہاں بھی بچوں کی پیدائش کم ہے جبکہ تھرڈ، اپر کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے ہاں سب سے زیادہ بچوں کی پیدائش کا رجحان نظر آتا ہے۔

آبادی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیچھے کئی عوارض کارفرما ہیں جن میں زیادہ تر نفسیاتی ہیں۔ بھوک، ننگ، افلاس اور بنیادی انسانی ضرورتوں کی عدم دستیابی کا تعلق بچوں کی پیدائش سے ہرگز نہیں ہے۔ پاکستانی سماج میں شادی کو جنسی آسودگی کی تسکین کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی سماج میں جہاں اور بہت سی قباحتیں گہری جڑیں پیوست کیے ہوئے ہیں، وہاں بچوں کی پیدائش سے متصل سماجی و مذہبی عقائد کا ایک خطرناک تصور ملک کی مجموعی صورتحال کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔

پاکستانی سماج میں تعلیم نہ ہونے کی وجہ والدین اپنے بچوں کی تربیت نہیں کرتے۔ والدین کی پچانوے فیصد تعداد ان پڑھ، جاہل اور قدیم تصوراتِ زیست کی پیرو ہے۔ اس ذہنیت کے حامل افراد کی نزدیک ملک کی ترقی اور خوشحالی میں تعمیری کردار ادا کرنے کی کوئی صورت ذہنی، جسمانی اور تخیلی اور عملی سطح پر دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستانی سماج میں بارہ برس سے لے کر اٹھارہ برس تک لڑکی لڑکے کی شادی کرنے کی فیصدی شرح 72 فیصد ہے۔ یہ جوڑا ٹھیک نو ماہ بعد ایک بچہ پیدا کر لیتا ہے، یوں سمجھ لیجیے کہ سہاگ رات کو کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور بچہ پیدا کرکے باہر نکلتے ہیں۔

پہلے بچے کی پیدائش پر معاشرہ باپ بننے والے لڑکے کو پورا مرد کا خطاب دیتا ہے اور ساس اپنی بہو کو وفادار بہو تصور کرکے سینے سے لگاتی ہے اور گھر کی چابی دے کر عزت کی چادر اوڑاھتی ہے۔ اس عزت افزائی کے بعد یہ جوڑا مہمیز ہو کر سات آٹھ بچے پیدا کرکے اپنا مذہبی اور قومی فریضہ انجام دیتا ہے۔ اس جوڑے سے پوچھا جائےکہ آجکل کیا کر رہے ہیں؟ فخر سے اکڑ کر بتاتے ہیں۔ میاں! بچے پیدا کر رہے ہیں، فیملی پوری ہو جائے تو پھر کام وام کا سوچا جائے گا۔ دیہات اور کچی آبادیوں میں اس ذہنیت کے حامل افراد کی شرح 97 فیصد ہے۔

آبادی میں اضافہ کا دوسرا پہلو دینی تصور ہے۔ اُمت محمدی ﷺ میں اضافہ کے لیے یہ صاحبان دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ تیسرا پہلو غربت سے خاندان کو نکالنے کے لیے بچے پیدا کرنا ہے۔ یہ رجحان خاندان کو مزید غربت کی اتھاہ وادی میں منہ کے بل اوندھا گِرا دیتا ہے۔ چوتھا رجحان شریکوں کو لڑکا پیدا کرکے دکھانے کی ضد کا ہے، اس ضد کی وجہ سے 69 فیصد مرَدوں نے دس سے بارہ بچیوں کو پیدا کرکے ملک کی خوشحالی میں شاندار اضافہ کیا ہے۔ ستم یہ کہ تمام تر مردانگی کے دعوں کے باوجود لڑکا پھر بھی پیدا نہیں ہوا۔

پانچواں رجحان خطرناک ہے اور وہ یہ کہ دو بیٹیاں کیوں پیدا ہوئی ہیں، تیسرا بیٹا پیدا ہونا چاہیے اور ہو کر رہے گا۔ یہ صاحبان رب تعالیٰ سے ضد لگا لیتے ہیں اور پھر بیٹیاں پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دسیوں اور رجحانات ہیں جو آبادی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ ایک رجحان ایسا ہے جس پر آپ کو ہنسی آئے گی اور وہ یہ کہ میاں بیوی کی لڑائی میں جز وقتی صلح کا فارمولہ۔ یہ فارمولہ ایسا کارگر ہے کہ اس کے آزمودہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

پاکستانی سماج میں میاں بیوی کی 67 فیصد ایسی شرح ہے جو مباشرت کے عین عروج کے لمحے معمولی بات پر جھگڑ پڑتے ہیں۔ لڑتے لڑتے جب تھک جاتے ہیں تو ایک دوسرے کو خاموش کرنے کے لیے مباشرت کے عمل سے گزرتے ہیں، یہ عمل بظاہر غصے کی حالت میں اس وقت کی نزاعات کو ختم کرنے کے لیے ہوتا ہے لیکن تین ماہ بعد پتہ چلتا ہے کہ مزید پانچوں بچہ آنے والا ہے۔

ایک رجحان اس سے بھی پُرلطف ہے اور وہ یہ کہ عورتیں خاموشی سے نیم حکیموں سے حمل رُکوانے کی گولیاں لے آتی ہیں اور خاموشی سے خاوند کو بتائے بغیر کھا لیتی ہیں اور حمل ٹھہرنے کے عمل سے بے نیاز ہو کر مباشرت کا لطف اُٹھاتی ہیں، چار ماہ بعد پتہ چلتا ہے کہ حمل ٹھہر گیا ہے، گولیوں نے کام نہیں کیا۔ آبادی میں اضافہ کے ایسے ایسے ہولناک اور تباہ کُن رجحانات ہیں جن پر کیس سٹڈی کرنے اور سروے کرنے سے آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ اپنے دامن میں کیسے کیسے زہر رساں اور تباہ کُن اثرات لیے ہوئے ہیں۔

گذشتہ پانچ برس میں ملک عزیز کی آبادی تین کروڑ بڑھ چکی ہے۔ آبادی میں اضافہ ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ آبادی میں اضافہ ہونے سے ملک کی جو صورت حال آج ہے، یہی ہوتا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا بچہ اسی ملک کے وسائل کو استعمال کرے گا اور یہی عمر گزارے گا۔ پاکستان کی مثال یوں ہے کہ ایک محدود آمدنی والے چھوٹے گھر میں قحط کے مارے بیس افراد نے مہمان بن کر دھاوا بول دیا ہے اور مستقل اقامت کی ضد میں گھر کی ہر چیز کو رہن رکھوا ڈالا ہے۔

اللہ رازق ہے اوروہ بہترین رزق فراہم کرنے والا ہے۔ سب کچھ اللہ پر ڈال دینے سے مُول لی ہوئی اس تباہی سے نجات نہیں مل سکتی۔ بہ حیثیتِ پاکستانی آبادی کے بڑھتے رجحان کے تدارک کے بارے میں ہمیں سوچنا ہوگا۔ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ وہ آبادی بڑھنے کے ا ن رجحانات کے علاوہ دیگر اسباب کی روٹ پر کیس سٹڈی کرے اور بچے پیدا کرنے والے افراد کو اس بات کا احساس دلائے کہ آپ کا بچہ نہ صرف آپ پر بوجھ ہے بلکہ اس ریاست پر بھی بوجھ ہے جس نے بظاہر اس کی تعلیم، صحت، روزگار اور اچھی زندگی کی ضمانت نہیں دی۔

یہ ملک اگر یونہی آبادی کے بڑھتے رجحان کی ضد میں صفِ آرا رہا، تو چند برسوں میں یہ سماج آدم خور سماج بن جائے گا جہاں بھوک کی شہوت کے مارے اپنے بچوں کو کھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

Check Also

21 Topon Ki Salami To Banti Hai

By Muhammad Waris Dinari