Wednesday, 08 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mohsin Khalid Mohsin/
  4. Academy Mafia Ki Munafa Khori Se Taleemi Nizam Ki Tabahi Tak

Academy Mafia Ki Munafa Khori Se Taleemi Nizam Ki Tabahi Tak

اکیڈمی مافیا کی منافع خوری سے تعلیمی نظام کی تباہی تک

آپ ہمارے بچے کا داخلہ بھجوا دیں، جو کمی رہ جائے گی، اکیڈمی سے پوری ہو جائے، اکیڈمی کے نام پر مجھ سمیت بیشتر ایڈمیشن آفیسر کو چِڑ ہوتی ہے، ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ایسے بچے سکولز اور کالجز میں داخلہ لیتے ہیں جنھیں بوقتِ داخلہ دیکھنا نصیب ہوتا ہے اس کے بعد سارا سال وہ دکھائی نہیں دیتے۔ ایسے بچے گھوسٹ نہیں ہوتے، گمنام نہیں ہوتے اور نہ ہی جِن ہوتے ہیں تاہم یہ سکولز اور کالجز میں فقط ریگولر داخلہ کی غرض سے آتے ہیں، مزے کی بات یہ کہ ان کی باقاعدہ حاضری لگتی ہے، ٹیسٹ سیشن میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ ایڈمیشن آفیسر زبورڈ کے سالانہ امتحان کے فارم کی تصدیق کے لیے نہایت عزت سے مدعو کرتے ہیں اور ان کا ریگولر داخلہ بغیر کسی اضافی فیس اور سرزنش کے بھجوا دیتے ہیں۔

ایک کثیر تعداد ان بچوں کی ہے جو، ان اثر ورسوخ والے مہان طالب علموں کی پیروی میں سارا سال سکولز اور کالجز میں نہیں آتے، اِن کا داخلہ بھی روایتی انداز میں چلا جاتا ہے۔ سکولز، کالجز میں باقاعدہ پڑھنے والے اور ریگولر  آنے والے طلبا کی حیران کُن اوریج سامنے آئی ہے۔ مثال کے طور پر اگر پانچ سو بچوں کا داخلہ ہوا ہے، ان میں پہلے دن تین سو بچے کلاسز لینے آئیں گے، ہفتہ بعد ان کی تعداد دو سو رہ جائے گی، مہینہ بعد یہی تعداد گھٹ کر سو پر آجائے گی، تین چار ماہ میں یہ تعداد پچاس رہ جائے گی، دسمبر جنوری آتے آتے یہ پچاس بھی غائب ہو جائیں گے اور سکول کی نسبت کالجز میں اُلو تو ہی تو کا راگ الاپتے نظر آئیں گے۔ تعلیم سے عدم دلچسپی اور اداروں میں صبح کے اوقات میں پڑھنے سے بیزاری کا عنصر کیوں پروان چڑھایا گیا ہے، اس کے پیچھے اکیڈمی مافیا کا پورا ہاتھ ہے۔ 2000 کے بعد سے اکیڈمی مافیا کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

اس ناسور نے لاہور سے جڑ پکڑی تھی اور آج پورے پاکستان میں اس ناسور نے اپنی دسترس جما رکھی ہے۔ لاہور شہر میں 2000 کے اوائل میں جی سی اور ایف سی کالج کا بڑا شہرہ تھا، ایم اے او کالج، سول لائن، دیال سنگھ اور اسلامیہ کالج ریلوے روڑ کی بھی ایسی ہی شہرت تھی جہاں پاکستان بھر سے طالب علم پڑھنے کے لیے آتے تھے اور ہوسٹلز میں قیام کرتے تھے۔ کالجز سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پنجاب یونیورسٹی، جی سی یونی ورسٹی اور دیگر اکا دُکا یونی ورسٹی تھی جہاں یہ طالب علم اعلیٰ تعلیم کے لیے داخل ہوتے تھے۔ جماعت نہم سے بارھیوں تک کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ سکول اور کالج میں صبح کے اوقات میں پڑھنے کے بعد مزید تیاری کے لیے اکیڈمی نامی قباحت سے بھی واسطہ پڑے گا۔

2005 کے بعد لاہور میں تیزی سے ایک نام اُبھرا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پریپریشن کے نام سے برانڈ بنایا، دو، تین سال میں لاہور کے مختلف علاقوں میں اپنی فرنچائز بنا کر تعلیم کے نام پر کاروبار کرنے لگا۔ یہ اکیڈمی مافیہ کا سرغنہ دیکھتے ہی دیکھتے مثالی ادارہ بن کر سامنے آیا جس کی دیکھا دیکھی مزید کئی برانڈ سامنے آئے۔ پندرہ سترہ برسوں میں لاہور سمیت پنجاب بھر میں اکیڈمیز کا جال بچھ چکا ہے، حکومتی حلقوں سمیت کسی میں یہ جرات نہیں کہ ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا جائے اور اس نحوست کا قلع قمع کیا جائے۔ اکیڈمی میں پڑھنے سے بچوں کا نقصان کس نوعیت کا ہو رہا ہے؟ یہ سوال بہت معمولی ہے اور غیر معمولی بھی۔ ہوتا یہ ہے کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں بچےسکولز اور کالجز میں نہم اور گیارہیوں جماعت میں داخل ہوتے ہیں۔ ان لاکھوں بچوں میں 70 فیصد تعداد صبح کے اوقات میں پڑھنے کے لیے سکولز اور کالجز میں نہیں آتی بلکہ اکیڈمیز میں شام کے وقت جاتی ہے۔

جو بچے صبح کے اوقات میں آتے ہیں وہ کمرہ جماعت میں بیٹھ کر اکیڈمی کا ٹیسٹ یاد کرتے ہیں، ٹک ٹاک کی وڈیو بناتے ہیں، فیس بک پر لائکس اور کمنٹ دیکھتے ہیں، کیفے ٹیریا میں ادھار چائے کوک پیتے ہیں اور شیشہ پینے آتے جینے گاتے ہوئے اکیڈمیز چلے جاتے ہیں۔ ان بچوں کا داخلہ آسانی سے بورڈ میں چلا جاتا ہے، اس لیے رسماً یہ صبح کے اوقات میں وقفے وقفے سے آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہ بظاہر کوئی نقصان دہ بات نہیں، بچہ جہاں چاہتا ہے، پڑھ سکتا ہے، نمبر آنے چاہیے۔ جنابِ عالی! بات یہ ہے کہ سکولز، کالجز کے اساتذہ اس کارِ تخریب میں ساجھے دار ہیں۔

اکیڈمیز بنانے والے بیشتر سکولز اور کالجز کے اساتذہ ہی ہیں جو بچوں کو زبردستی ڈرا، دھمکا کر اور لالچ دے کر اپنی اکیڈمیز میں لاتے ہیں، اکیڈمیز مافیا کے سربراہان سوشل میڈیا پر تشہیر کے ذریعے اور تعلیم کی گِرتی ہوئی عمارت کو مزید منہدم کرنے کے لیے باقاعدہ یہ مہم شروع کر رکھی ہے اور زہر نما واعظ و نصیحت والدین کے ذہن میں ہر وقت ٹھونسی جاتی ہےکہ سکولز، کالجز میں کوئی نہیں پڑھاتا، آپ اپنے بچوں کو ہمارے پاس بھیجیں، ہم ان کے اچھے نمبر کی گارنٹی دیتے ہیں، اس کے داخلہ کے بارے میں آپ بے فکر رہیں، ہماری رسائی پرنسپل صاحبان تک ہے، سب مینج ہو جائے گا۔ چلے یہ مان لیتے ہیں کہ اساتذہ سکولز اور کالجز میں نہیں پڑھاتے، صبح کے اوقات میں پڑھائی کا معیار بہت گھٹیا ہے، برائے نام یہ ادارے چل رہے ہیں، بچوں کا مستقبل اکیڈمیز کی پڑھائی سے ہی وابستہ ہے۔

ذرایہ بتائیے! کیا اکیڈمیز میں بچہ بغیر فیس کے پڑھتا ہے، نہیں جناب! لاہور کی مختلف برانڈڈ اکیڈمیز کی فیس پانچ ہزار سے بیس ہزار ماہنامہ ہے، سیکورٹی فیس، امتحانی فیس، ہم نصابی سرگرمیوں میں شرکت کی فیس، دسمبر ٹیسٹ کی فیس اور اس طرح کی دسیوں فیسز کو ملا کر ایک بچے کی لاکھوں میں فیس بنتی ہے جو والدین مجبوراً ادا کرتے ہیں کیونکہ ان کے دل و دماغ میں یہ ڈر انڈیل دیا گیا ہے کہ اکیڈمیز میں پڑھے بغیر آپ کا بچہ اچھے نمبر نہیں لے سکتا۔ والدین کا کیا قصور ہے کہ وہ صبح کے اوقات کی سکول، کالجز میں فیس ادا کریں اور شام کو اکیڈمیز کی فیس بھی ادا کریں، اس کے علاوہ دو وقت بچوں کو لانے اور لے جانے کے لیے رکشہ، ویگن کا کرایہ ادا کریں۔

بچے دو دو جگہوں میں پڑھتے ہیں اور دو دو جگہوں پر والدین کی خون پسینے کی کمائی خرچ ہوتی ہے، اس کے باوجود پڑھائی ان کی تسلی بخش پڑھائی نہیں ہوتی۔ اکیڈمیز میں پڑھنے والے بچوں کو اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ہمارے والدین ہمارے لیے کس طرح مینج کر رہے ہیں اور وہ کیسی مشکل سے گزر کر ہمیں یہ سہولت فراہم کرتے ہیں۔ اکیڈمیز میں پڑھنے والے بچوں کی کثیر تعداد محض وقت گزاری کے لیے اکیڈمیز میں آتی ہے، بیشتر اکیڈمیز میں میل اور فی میل بچوں کو ایک جگہ بٹھایا جاتا ہے، عمر کے اس جذباتی دور میں دونوں طرف سے نگاہیں ٹھنڈی کرنے اور دل کے ارمان بہلانے کا سامانِ فراواں موجود ہونے کو غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ موبائل فون ساتھ لاتے ہیں اور اکثر و بیشتر چھٹی کے وقت روابط استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، سیکڑوں واقعات اس نوعیت کے آئے روز رپورٹ ہوتے ہیں کہ کوئی بھاگ رہا ہے اور کوئی بھگا کر لے جارہا ہے، کسی کی جیب سے پکی سگریٹ نکل رہی ہے تو کوئی شیشہ لے کر آیا ہے تو کسی نے پسٹل بیگ میں ڈال رکھا ہے۔

اکیڈمیز مافیا کے سربراہان ان واقعات سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن کمال مہارت اور چالاکی سے ان واقعات کو منافع خوری کےپیشِ نظر دبا دیتے ہیں۔ اکیڈمیز میں پڑھانے والے اساتذہ اس قدر خوفزدہ ہوتے ہیں کہ ان کی جرات نہیں ہوتی کہ بچے کو ڈانٹ دیں اور اس کی سرزنش کریں، اگر کوئی ارسطو بننے کی کوشش کرے تو بچے کی شکایت کو ہمیشہ کے لیے استاد کو بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے اور بتلایا جاتا ہے کہ بچے کو کچھ نہیں کہنایہ ہمارا کسمٹر ہے۔ اکیڈمیز میں پڑھنے والے بچوں کی اکثریت نالائق، کام چور اور مختلف ذہنی و جسمانی عوارض کا شکار ہوتی ہے جو خود کو اور والدین کو پڑھائی کے نام پر دھوکے میں مبتلا رکھتی ہے، یہ بچے سکول میں پڑھتے ہیں اور نہ اکیڈمیز میں، یہ اپنا وقت اور ماں باپ کا پیسہ ضائع کرتے ہیں۔

اکیڈمیز اور سکول کا سلیبس اس قدر مختلف ہوتا ہے کہ سارا سال بچہ کنفیوز ہی رہتا ہے کہ کیا یاد کروں اور کیا نہ یاد کروں۔ سکول، کالجز میں بچہ تین تین ماہ غیر حاضر رہے، کوئی پوچھنے والا نہیں جبکہ اکیڈمیز میں ایک دن غیر حاضر رہے تو قیامت آجاتی ہے، کال کی جاتی ہے، مسیج کیا جاتا ہے، والدین کو بلایا جاتا ہے، بچے سمیت پورے خاندان کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ایک کی چھٹی کر لینے سے جو نقصان ہوگیا ہے وہ کبھی کسی صورت پورا نہیں ہوگا، یہ احساس بہت اچھا ہے لیکن یہ احساس اپنے کاروبار کے تحفظ اور منافع خوری کی غرض سے دکھایا جاتا ہے جس کی باقاعدہ نمائش کی جاتی ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ اکیڈمی مافیا کے اس ناسور کو ختم کیا جائے۔

اربوں روپے سے بنے ہوئے سکولز اور کالجز صبح کے اوقات میں خالی رہیں اور لاکھوں روپے میں کرائے پر لی ہوئی ادھار عمارتیں کھچا کھچ بچوں سے بھری ہوئی ہوں، یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو تعلیم صبح کے اوقات میں بچوں کو دی جاتی ہے، اُس کامعیار کسی صورت اکیڈمیز کی پڑھائی نہیں ہوسکتی۔ سکولز، کالجز کی لیبارٹریز میں کروڑوں روپے کا سامان ہر سال ضائع ہوتا ہے لیکن طلبا کو پریکٹیکل کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ آج کل یہ روش چلی ہے کہ نقص پر اُنگلی رکھنے والے کا گریبان پکڑا جاتا ہے اور موردِ الزام ٹھہرا کر قرار واقعی سزا دی جاتی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی، خوشحالی اور بقا کا واحد ذریعہ تعلیم ہے، تعلیم کے نام پر کاروبار کرنے کی اجازت کسی اور ملک میں موجود نہیں ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اکیڈمیز کلچر اور اکیڈمیز مافیا کو ختم کیا جائے، اگر انھیں ختم نہیں کر سکتے تو ان کو حکومتی حفاظت میں لیا جائے، ان کے لیے قانون سازی کی جائے، ان پر ٹیکس لگایا جائے، یہاں پڑھنے اور پڑھانے والوں کو قانونی تحفظ حاصل ہو، یہ آپشن دی جائے کہ سکولز، کالجز میں پڑھیں یا اکیڈمیز میں، ایک ہی بات ہے، اکیڈمیز کو فنڈنگ کی جائے اور بچوں کی فیس معاف کی جائے۔ بچے کو ان کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ صبح کے اوقات میں سکولز، کالجز میں پڑھے یا شام کے وقت اکیڈمیز میں پڑھے، دونوں جگہ اسے سہولت میسر ہوگی اور کوئی اضافی فیس اور اخراجات کی مد میں والدین کو ادا نہ کرنا پڑیں۔ اگر یہ قانون سازی ہو جائے اور اس پر عمل کا نفاذ ممکن ہو جائے تو پاکستان میں تعلیم کا معیار بہت بہتر ہوگا۔

یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اربوں روپے کا منافع لینے والے اکیڈمیز مافیا کے ناسور آج اس قدر طاقتور ہوں اور حکومت کے ایوان میں بیٹھے ہوئے کمزور اور مجبور دکھائی دیں۔ تعلیم کی بہتری کے لیے اکیڈمیز مافیا کوختم کرنا ہوگا۔ قیامِ پاکستان سے اکیسویں صدی کے آغاز تک اکیڈمیز نہیں تھی اور نہ ہی ان کا تصور تھا، ہوم ٹیویشن کا رواج البتہ موجود تھا جسے ضرورت ہوتی تھی وہ استاد سے وقت لے لر کمی پوری کر لیتا تھا۔ یہ نہیں تھا کہ داخلے سکولز، کالجز سے جائیں گے اور سارا سال پڑھائی اکیڈمیز میں ہوگی۔ یہ ظلم ہے، اس روکنا ہوگا۔ پاکستان میں بسنے والے لاکھوں خاندان کے کروڑوں بچے آج سکول جانے سے محروم اسی لیے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ اس کی خواہش تو کی جاسکتی ہے، اسے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اربوں روپے یہاں وہاں ضائع کرنے کی بجائے تعلیم کی بہتری پر ضائع کر دیں۔ اس ضائع کی ہوئی رقم سے کچھ تو خیر کا پہلو نکلے گا۔

Check Also

Qissa Char Naslon Ka

By Rauf Klasra