1.  Home
  2. Blog
  3. Mehdi Ali
  4. Baltion Ka Qaumi Tehwar Jashan Mafang

Baltion Ka Qaumi Tehwar Jashan Mafang

بلتیوں کا قومی تہوار جشن مے فنگ

دنیا کی تمام قومیں اپنی تہذیب و ثقافت کی بقا اور توسیع کیلئے بھرپور کوششں کرتی رہتی ہیں۔ جب ہم دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا میں زیادہ تر لڑی جانیوالی جنگیں اپنی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے بچاو یا پھیلاو کی خاطرلڑی گئی ہے۔ کسی قوم کی بقا اور عظمت اس کی تہذیب اور ثقافت کی بقا سے وابستہ ہوتی ہے۔ دنیا کی زندہ اور غیرت مند قومیں اپنی تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے محبت کرتی ہیں اور اسکے تحفظ کیلئے ہر طرح سے تیار رہتی ہیں۔ ہر قوم کی اپنی ایک الگ اور مستقل شناخت ہوتی ہے جو اسے دوسری قوموں سے ممتاز کرتی۔

لیکن جب ہم پاکستانی کے انتہائی وسط شمال میں ایک خوب صور خطہ بلتستان کی بات کرتے ہیں تو بلتستانی قوم اس شناخت سے بے نیاز دکھائی دیتی ہے۔ یہاں جدیدیت اور روشن خیالی کے نام پر قوم کو دیگر تہذیبوں کا خوشنما اور میٹھا زہر پلایا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں اپنی ثقافت اور اخلاقی قدروں سے ناآشنائی اور دوری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہماری ثقافت "جشن مے فنگ" معدوم ہوتا جارہا ہے "مے فنگ" ایک اہم علاقائی تہوارشمارہوتا ہے۔ مے فنگ ایک خالص قدیم ترین علاقائی رسم یاتہوارہے جوہرسال 20 دسمبر کی رات کو بہت ہی جوش وخروش اور نہایت ہی اہتمام کے ساتھ منایاجاتاہے۔ یہ دراصل نئے تبتی سال شروع ہونے کا جشن ہے جس کاسلسلہ گزشتہ آٹھ صدیوں سے جوں کاتوں جاری ہے۔ مے فنگ کی اہمیت اسلیے بھی ہے کہ 21 دسمبر سے دن کا دورانیہ بڑھنا اور رات کاگھٹنا شروع ہوجاتا ہے جوکہ اس یخ بستہ موسم سے نبرد آزما لوگوں کیلئے عید سے کم نہیں ہوتا، اس عالم سرشاری کو منفی 21 ڈگری میں زندگی گزارنے والے ہی محسوس کرسکتے ہیں اگرچہ بعض حضرات تاریخ کے تناظر میں اس تہوار کو کسی دیوتا کوخوش کرنے کی کوششوں کی پرانی روایت کاحصہ گردانتے ہیں کیونکہ اس رات کو سارے مرد خصوصاً جوان اور بچے رات کو گھروں سے باہرنکل کرہاتھوں میں لکڑی کامشعل جلائے گھماتے رہتے ہیں۔

تاریخ دانوں اور مورخوں کے مطابق پرانے زمانوں میں یہاں کے باشندے بدھ مت کے پیروکارتھے جو نئے تبتی سال کے آغازپہ اپنے دیوتاکوخوش کرنے یااس سے برکت کے حصول کے لئے یہ تہوار مناتے تھے مگر اب یہاں کسی دیوتا کاتصور نہیں ہے اور نہ پورے بلتستان میں بدھ مت کاکوئی پیروکار ہے ایسے میں اس کواب کسی دیوتا سے منسوب کرنے کی بجائے ایک علاقائی تہوارہی کہنااور سمجھنا مناسب ہوگا۔ شام ہوتے ہی بچے لکڑیوں کا گچھ(lander) اور فاضل اشیاء کو کسی قریبی کھیت میں جمع کرتے جاتے ہیں اور شام ہوتے ہی آگ جلائی جاتی ہے۔ نماز مغربین کی ادائیگی کے بعد جشن کو چار چاند لگ جاتی ہے۔ جشن20 دسمبر سے شروع ہوتا ہے اور تین دفعہ یعنی پہلا جمعہ کو (گودعوت) دوسرا جمعہ کو(سکل دعوت) اور آخری جمعہ کو جگ دعوت منایا جاتا ہے۔ بچے اور نوجوان مشعل روشن کرتے اور اس کوزورسے گھماتے دور دور تک نکل جاتے ہیں ان راتوں میں نوجوان شالن پارٹی کا باقاعده اہتمام کیا جاتا ہے اور ان پروگراموں میں بزرگ آکر بلتی لوک کہانی، بلتی داستان یعنی کیسر داستان اور تاریخی واقعات سنائے جاتے ہیں۔

اس کے علاوه جشن مے کے دنوں میں قسم قسم کے بلتی ڈش بنائے جاتے ہیں۔ جیسے کرو بلے، فرفلی بلے وغیرہ۔ اسی طرح مار زان، پراپو، ہرثپ کھور، کیثیر، بڑو کثیر شالن غرض تمام کھانے اور پروگرام گھر پر بنائے جاتے ہیں تاہم ان کھانوں میں مصالحے اور تیل کا استعمال بالکل بھی نہیں ہوتا سوائے خوبانی تیل کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بلتی کھانوں میں بھی پنجابی، سندھی، ہندوستانی کھانوں کے طرح تیل اور مصالحے کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔ بلتی جو آج سے 50 سال پہلے مصالحے دار آئلی کھانوں سے بالکل بھی واقف نہیں تھے اب ان مصالحے دار اور چکنائی سے بھرپور ہندوستانی کھانے کے شوقین ہوتے جا رہے ہیں جو کہ صحت کے مضر ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری ثقافت اور رواج کو بھی ختم کر رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب بلتستان کے لوگ لمبی عمر پاتے تھے۔ 100 سال سے زیادہ لوگ زندہ رہتے تھے۔ لیکن آج کل اوسط عمر 60 سے 65 تک رہ گئے ہیں۔ یہ سب ان مصنوعی، کیمیکل زدہ اور آئلی مصالحے دار کھانوں کے استعمال کی وجہ سے ہے۔ ملک کے ہر صوبے کی اپنی ایک مشہور ڈش ہے جیسے پشاری چپل کباب، کراچی بریانی، لاہوری پائے لیکن ہم بلتستان والے اپنے راوئتی کھانوں کو خود ہی کھانا چھوڑ رہے ہیں۔ ہمارے کھانے چائنیز کھانوں کی طرح ٹرینڈ بن سکتا ہے۔

Check Also

Amma Ke Niwari Palang

By Tahira Kazmi