Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mansoor Nadeem/
  4. Hanat Se Mulaqat

Hanat Se Mulaqat

حنات سے ملاقات

سعودی عرب کے شمال مغرب کے صحراؤں میں واقع وادی العلاء سے کچھ ہی فاصلے پر موجود ایک قدیم تاریخی شہر "الھجرہ" Hegra ہے، یہ پہاڑیوں میں بنے مقبروں کا شہر یونیسکو نے دنیا کے ثقافتی ورثے UNESCO World Heritage Site میں شامل کیا ہوا ہے۔ تاریخی طور پر یہ نباطی تہذیب کی بادشاہت و اہم تجارتی مرکزی شہر تھا۔ قریب چوتھی صدی قبل مسیح کے آخر تک late fourth century BCE، نباطین جس کے بارے میں غالب تحقیق یہی ہے کہ وسطی عرب سے تعلق رکھنے والا ایک قبیلہ تھا، جس نے خود کو جدید اردن میں پیٹرا کے مقام پر آباد کیا تھا، لوبان، مصالحہ جات اور دیگر عیش و آرام کی اشیاء کی تجارت سے دولت مند ہو رہے تھے۔ جیسے جیسے ان کی سلطنت پھیلتی گئی، انہوں نے پہلی صدی قبل مسیح میں پیٹرا سے تقریباً 300 میل، یا 500 کلومیٹر جنوب میں الھجرہ میں آباد ہوتے ہوئے، تجارت اور ثقافت کے نئے مراکز کی بنیاد رکھی۔ ان کی انوکھی تہذیب نے متنوع ثقافتوں کو ملایا، جو کہ قیمتی اشیاء کی تجارت سے شروع ہوا تھا، سے الھجرہ کے چہار اطراف ریت کے اور پتھر کی چٹانوں میں شاندار طریقے سے مقبرے تراشنے تک ایک تاریخ بنا گیا۔

کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب کی توجہ جس تیزی سے خطہ عرب میں قدیم تہذیبوں اور اپنی ثقافت کے اظہار کو دنیا کے سامنے زندہ کرنے کا تسلسل نظر آیا ہے اس کی ایک مزید کڑی حنات نامی خاتون سے ملاقات کا سفر بھی ہے۔ العلاء خطے کے مشہور سرخ رنگ کے ریت کے پتھر کے نام سے منسوب الھجرہ میں جبل احمر کے قریب تقریباً 18 مقبرے ہیں، جن میں وہ مقبرہ بھی شامل ہے جہاں سے "حنات" کی باقیات دریافت ہوئی تھیں۔ سعودی عرب کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے باقاعدہ جدید ٹیکنالوجی فرانزک، پیلیو پیتھولوجی، اور فنکارانہ صلاحیتوں کے امتزاج کی بدولت، ہمیں تقریباً 2,000 سال پہلے کی اس قدیم ثقافت کی "حنات" نامی خاتون تک رسائی دے دی، یعنی دو ہزار سال بعد آثار قدیمہ کے ماہرین نے جبل احمر کے پاس الھجرہ کے رہائشی علاقے کے کنارے پر واقع اس پہاڑی علاقے میں تراشے گئے مقبروں کو ریسرچ کے لئے منتخب کیا تھا جہاں ان مقبروں میں سے ایک مقبرہ وہبو کی بیٹی "حنات" کے مقبرے کے نام سے ہے، یہ مقبرہ داخل سے غیر معمولی طور پر خاصا ذایسے مواد سے بھرا ہوا تھا جس میں دفن شدہ انسانی باقیات، ہڈیاں، جلد اور یہاں تک کہ حنات کے بال تک محفوظ رہے، اس کے علاؤہ اس عہد کے کپڑوں کے جزیات، چمڑے، کچھ سبزیوں کے مادے، اور دیگر اشیاء کا بھی مواد ملا تھا۔

حنات کے اس مقبرے کی ایک اور خاص کشش تھی، جسے یہاں پر سعودی عرب میں ماہرین آثار قدیمہ کے پراجیکٹ کی ڈائریکٹر Laïla Nehmé بتاتی ہیں کہ ان کے نزدیک "نباطین ایک معمہ ہیں" جن کے بارے میں آج ہم بہت کچھ جانتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ہم بہت کم جانتے ہیں کیونکہ اس عہد میں وہ نہیں جانتے تھے کہ مقبروں میں بھی وہ کوئی ادبی تحریریں یا ریکارڈ چھوڑ دیں۔ اس مقبرے کی کھدائی ان کے بعد کی زندگی کے خیال کے بارے میں مزید جاننے کا ایک شاندار موقع تھا۔ اس کے علاوہ اس مقبرے کے کتبے پر ایک بہت ہی عمدہ نوشتہ کندہ ہے، جس کے مطابق یہ "حنات" نامی عورت کا تھا۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ سنہء 60 یا سنہء61 میں اس نے مقبرے کے دروازے کے اوپر ایک پینل پر ایک پیغام کندہ کیا تھا:

"یہ وہ قبر ہے جسے وہبو کی بیٹی حنات نے اپنے لیے اور اپنے بچوں اور اپنی اولاد کے لیے ہمیشہ کے لیے بنایا تھا، اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے بیچے یا اسے گروی رکھے یا اس مقبرے کو کرائے پر لکھے اور جو اس کے علاوہ کرے گا تو اس کا حصہ اس کے جائز وارث کو لوٹ جائے گا"۔

ماہرین آثار قدیمہ کو اس مقبرے کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ 80 سے زائد افراد کی آخری آرام گاہ تھی۔ ایک علاقے میں ایک لکڑی کے تابوت میں کم از کم چار افراد۔۔ ایک بالغ اور تین بچوں کی باقیات تھیں۔ دوسری جگہوں پر ہڈیاں، اور دوسری باقیات کے علاوہ چمڑے کو کھجوروں کے تاروں کے ساتھ ملایا گیا ہے، جو بظاہر ہار کے طور پر بنائے گئے ہیں۔ مقبرے میں موجود مواد سے زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھا کرنا آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے لئے ایک دلچسپ خیال کا ببیش خیمہ بنا کہ قبر کی کھوپڑیوں میں سے ایک کا تجزیہ کرنے سے ایک سوال پیدا ہوا کہ کیا وہ فرانزک اور پیلیو پیتھولوجی (قدیم لوگوں میں بیماری کا مطالعہ) میں موجود علم کو اس شخص کے چہرے کی تعمیر نو کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جو مر گیا اور یہاں دفن ہوا؟ یہاں کئی مقبروں میں ایک عورت تھی، جس کی عمر 40 سے 50 کے درمیان تھی، تقریباً 5 فٹ 3 انچ لمبا (1.6 میٹر) اور اس کی تدفین کی نوعیت بتاتی ہے کہ وہ درمیانی سماجی حیثیت کی حامل تھی۔ مقبرے کے نوشتہ سے مدد لے کر، ماہرین آثار قدیمہ نے اس کا نام حنات رکھا، اور وہ اس منصوبے کی توجہ کا مرکز بن گئی۔

اس کے بعد تعمیر نو کے منصوبے کی بنیاد رکھنے کے لیے لندن میں بین الاقوامی ماہرین کا ایک سیشن رکھا گیا، جس میں پوری دنیا سے نباطی تہذیب کے ماہرین آثار قدیمہ، ڈیجیٹل اور جسمانی چہرے کی تعمیر نو کے ماہرین، فرانزک ماہرین، اور سائنس کمیونیکیٹر (جو کمپیوٹر سے تیار کردہ تصویر کو جسمانی مجسمے میں ڈھال سکیں)، چونکہ حنات کی نباطی تہذیب سے کوئی تصویری آرٹ بھی میسر نہ تھا، ماہرین کو حنات کے مجسمے کی تشکیل کے لئے خاصا پروفیشنل اپروچ اور بہت احتیاط فیصلہ کیا گیا، اس کی آنکھوں کا رنگ، جلد کا رنگ، کتنی جھریاں اس کی عمر کے حساب سے بنیں گی، اس نے کون سے کپڑے پہنے تھے، اور کونسا اور کیسے ڈیزائن کا زیور پہنتی تھی وغیرہ وغیرہ، فرانزک مجسمہ سازوں نے بہت پروفیشنل انداز سے سائنسی ٹیکنالوجی سے پہلے سے موجود ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے ایک مصنوعی ساخت بنا ڈالی، حنات کا ابتدائی کمپیوٹر امیج تیار کیا گیا تھا۔

ایسا کرنے کے لیے کہ اس کے چہرے کے خدو خال کو بہتر بنایا جائے اس کی کھوپڑی کے کمپیوٹرائزڈ ٹوموگرافی (CT) اسکین سے دانتوں میں دائمی اوسٹیو ارتھرائٹس اور یہاں تک کہ اس کے جسم کی متعدی بیماری کے مارکز کا انکشاف ہوا، جن عناصر کو حنات کے منہ کی شکل دیتے وقت دھیان میں رکھنا ضروری تھا۔ جیسے چہرے کے پٹھوں اور جلد کی موٹائی پر تکنیکی ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے حنات کی خصوصیات کو مہینوں میں تفصیل سے دوبارہ تشکیل دے کر ایڈجسٹ کیا گیا۔ پھر ماہر حیاتیات اور مجسمہ سازوں نے جو انسانوں اور جانوروں کی قدرتی افزائش تخلیق کرنے میں مہارت رکھتا تھے ان کی ٹیم نے سٹیریو لیتھوگرافی کا استعمال کیا، ایک صنعتی 3D پرنٹنگ تکنیک کا استعمال کیا گیا تاکہ مولڈز کی ایک سیریز بنائی جائے جس کے نتیجے میں حنات کی کی کھوپڑی کا استعمال کرتے ہوئے، چہرے کی تعمیر نو اور فرانزک کے ماہرین کی ایک ٹیم نے کمپیوٹر سے تیار کردہ تصویر بنائی کہ وہ کیسی دکھتی ہے، اس کے بعد ماہرین نے حنات کے بالوں کو انفرادی تاروں میں جوڑا، اس کی جلد کی سطح پر میک آپ کیا، الھجرہ میں دریافت ہونے والے زیورات کی نقل کے طور پر ڈیزائن کی گئی بالیاں منسلک کیں، اور الھجرہ کے مقبروں سے برآمد ہونے والے ٹکڑوں سے ملنے والے کپڑوں کی مدد سے ماہر کاریگر کے بنائے کپڑے اسے پہنائے گئے۔ سعودی آرکیالوجسٹ اور بین الاقوامی آرکیالوجسٹ کے علاوہ مختلف تکنیک رکھنے والے اداروں کے تعاون اور مہارت کے بہت سے مختلف شعبوں کے امتزاج کے بعد بالآخر سائنسدانوں کی ٹیم نے آخرکار ایک 2,000 سال پرانا چہرہ ایک طرح سے آج کے عہد میں زندہ کردیا۔

آخر کار سعودی عرب نے الحجرہ کی ریت میں دفن بیس صدیوں تک رہنے والی حنات کو جو شاید اپنے خاندان کی ایک فرد کے طور پر حنات تھی، مہینوں کی سائنسی اور دوسری ٹیکنالوجی کی محنت کے نتیجہ میں اکیسویں صدی کے لیے اس طرح کے ایک قابل ذکر منصوبے کو پیش کردیا، جو آنے والے وقتوں میں گزرے وقت کی نباطی تہذیب کو جوڑنے میں مددگار ہوگی۔ حنات کی موت پہلی صدی قبل مسیح میں ہوئی تھی اور اس کا تقریباً مکمل جسم ایک مقبرے میں رکھا گیا تھا جو سنہء 2008 میں"الحجرہ، کے اندر سے دریافت ہوا تھا اور دو ہزار سال سے زائد عرصے تک باقی رہا۔ جسے دنیا بھر کے سامنے الحجرسلہ تہذیب اور نباطی تہذیب کی داستانیں سنانے کے قابل بنا دیا گیا ہے، سعودی عرب نے دنیا کی تاریخ اور قدیم تہذیبوں اور ثقافتوں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ ایک پرکشش موقع دیا ہے کہ وہ العلاء کی بھرپور تاریخ کو دریافت کرنے کے لیے وقت کے ساتھ سفر کریں، آنے والے دنوں میں حنات کی نمائش ہورہی ہے، جو پوری دنیا کے قدیم علوم و ثقافت میں دلچسپی رکھنے والوں کو متوجہ کرے گی۔

Check Also

Kya Aap Ki Job Mehfooz Hai?

By Qamar Naqeeb Khan