Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mansoor Nadeem/
  4. Brand

Brand

برانڈ

جنید جمشید کے حوالے سے پوسٹ پڑھی کہ انہوں نے کسی یورپی ملک میں چھ ماہ استعمال کرکے سوئیٹر واپس کردیا، حالانکہ یہ بھی دھوکہ ہے، مگر چونکہ ان ممالک میں ایسے دھوکے کم ہوتے ہیں اور برانڈز یا دکاندار کسٹمر کی عزت کرتے ہیں اس لئے بغیر رسید کے بھی واپس کر لیا گیا، مگر اصولا بغیر بل واؤچر یا ٹیگ یا اسٹیکر ہٹادیئے جانے کے بعد دکاندار یہ استحقاق رکھتا ہے کہ چیز کی واپسی نہ کرے۔ اس کے بعد جنید جمشید نے پھر پاکستان کا بتایا کہ پہلے سے ہی دکاندار نے لکھا ہوا ہے کہ چیز خریدنے کے بعد کسی صورت میں تبدیلی واپسی نہیں ہوگی۔ خود آج جنید جمشید مرحوم نے جب J. کے نام سے گارمنٹ کے کام کے لیے اپنے نام دیا تھا۔ ان کے برانڈ میں بھی یہی سہولت میسر نہیں تھی، بلکہ ان کے برانڈ میں تو بازار کے مقابلے میں اسی معیار کی چیز۔ تین سے پانچ گنا زیادہ مہنگی ملتی تھیں۔ اور مزے کی بات ہے کہ وہ اکثر عام بغیر کسی معروف نام کے آؤٹ لیٹ کے لئے بنائے جانے والے مال کی لاٹ خرید کر بس اس پر اپنا ٹیگ لگا دیتے تھے۔

لیکن عمومی طور پر پاکستان میں حقیقتا دھوکے کا نام ہی کاروبار ہے، اور ایسا ہی ہوتا ہے، بس بہترین شخص وہ ہے، جو قدرے خیال رکھتا ہے، کم ازکم دھوکہ دیتا ہو، باقی اس پوسٹ میں جو لکھا ہے اس میں کئی چیزیں دو مختلف معاشروں کی ہیں۔ پاکستان میں چیزیں واپس کرنے کا اصول نہیں ہے، کیونکہ خریدنے والا بھی اتنا ہی دھوکے باز ہوسکتا ہے جتنا دکاندار دھوکے باز ہوتا ہے اور ہمیشہ کی طرح ہم کسی بھی طرح کے اصول و قواعد کے بغیر چلتے ہیں۔ پوری دنیا میں یہ اصول ہے کہ چیزیں واپس ہوسکتی ہیں۔ برانڈز یا فیشن پروڈکٹ میں لازمی کاؤنٹر سے آپ کو بغیر بلنگ کے چیزیں نہیں ملتی، ہر پروڈکٹ پر ٹیگ پر اس کا بار کوڈ ہوتا ہے، ہر برانڈز کا کاؤنٹر چھوڑنے سے پہلے کاؤنٹر والے نے رٹا ہوتا ہے وہ شکریہ کے ساتھ آپ کو چیزیں تھمانے سے پہلے کہتا ہے کہ اتنے دن ری فنڈ اور اتنے دن تبدیل کرنے کی گنجائش ہے۔ لیکن بغیر بل واؤچر یا اسٹیکر اترنے کے بعد وہ بھی واپس نہیں کرتے۔ یہ اصولی بات ہے، مگر ممکن ہے کہیں کوئی ایسا کرلے۔

اس کے مقابل پاکستان میں دکاندار یہ دعوی کرتے ہیں کہ لوگ استعمال کے بعد چیزیں واپس کر دیتے ہیں، حالانکہ اس کا بہت آسان حل ہے، پروڈکٹ یا کپڑے یا جوتوں پر یہاں اس طرح اسٹیکرز یا ٹیگ لگاتے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ چیز استعمال نہیں کرسکتے، اور واپسی یا تبدیلی کی گنجائش اس ٹیگ کے نہ اتارنے سے مشروط ہوتی ہے، اس لئے بیرون ممالک میں چیزیں استعمال نہیں ہوتی اور تبدیل کرنے والا اور کسی بھی وجہ سے واپس کرے گا، لیکن استعمال کیے بغیر ہی واپس کرے گا۔ تبدیلی یا ری فنڈ کے لئے جب آپ جائیں تو بس تبدیل یا ری فنڈ کے کاؤنٹر پر جاکر تبید یا واپس کردیں وہ آپ سے واپسی یا تبدیلی کی وجہ بالکل نہیں پوچھیں گے، بلکہ کئی برانڈز میں تو آپ جا کر دوسری چیز پسند کریں اور ری فنڈ کے کاؤنٹر پر جا کر بتائیں کہ یہ میرا پہلے کا خریدا سامان ہے۔ اس کے بدلے یہ لیا ہے اور منٹوں میں چیز واپس یا تبدیل ہوجاتی ہے۔ میں نے تو اکثر ایک آؤٹ لیٹ سے خرید کر دوسرے آؤٹ لیٹ سے ری فنڈ بھی کی ہے اور سائز یا چیز تبدیل بھی کی ہے۔ یہ بہت آسان ہے۔ ہم تیسری دنیا والے ان معیارات کو قبول نہیں کرتے۔ اپ کسٹمر کی بات سنیں تو وہ کہے گا کہ دکاندار زیادتی کرتا ہے اور دکاندار سے کہیں تو وہ کہے گا کہ کسٹمر استعمال کے بعد واپس کرتا ہے۔ حالانکہ یہ پہلی غلطی دکاندار کی ہے کہ وہ اپنی پروڈکٹ میں دی جانی والی سہولت پوری نہیں دے رہا ہے، اس میں اگلا گلہ آپ کسٹمر سے کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی ہر چیز ضروری نہیں کہ استعمال ہو اور پتہ نہ چلے، پاکستان میں انٹرنیشنل برانڈ بھی یہی گھٹیا کام کرتے ہیں، جبکہ برانڈ کا ایسا کرنا پوری دنیا میں ناممکن ہے

بیرون ملک میں وہ بہت الگ سے یہ معاملات اس لیے قبول کر لیتے ہیں کہ وہاں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے، مگر ایک اور عجیب سی اصولی بات ہے، وہاں دکاندار کے پاس یہ حق ہوتا ہے کہ وہ آپ سے رسید مانگے اور رسید پر اکثر تین دن یا ہفتہ بھر بلکہ کئی برانڈز میں تو چھ ماہ ایک سال تک کی معیاد ہوتی ہے، عرب ملکوں میں بھی کسی چیز کی واپسی کی معیاد ایکسچینج اور ریٹرن میں الگ الگ ہو سکتی ہے اور رسید اس کے لیے لازمی ہوتی ہے، لیکن پھر آپ چاہے پورے ملک میں کسی بھی آؤٹ لیٹ پر واپس کر دیں، مگر پاکستان میں یہ سہولت بالکل نہیں ملتی بڑے برانڈز میں بھی نہیں ملتی جو ناجائز ہے، اس کی ایک بنیادی وجہ ہر چیز کھولی نہیں جا سکتی، میں یہاں عرب میں جتنی بھی ایسی چیزیں لیتا ہوں، جس میں واپسی کی گنجائش یا ریفنڈ کی گنجائش ہو وہ اس کے اوپر اپنے اسٹیکر اور برینڈز کے ٹیگ اس طرح لگاتے ہیں کہ آپ انہیں ہٹائے بغیر وہ استعمال نہیں کر سکتے جب تک انہیں نہ اتاریں، اور واپسی کی صورت ان ٹیگ کے نہ اتارنے کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔ پاکستانی کاروباری یہ اصولی بے ایمانی کرتا ہے، کہ وہ اپنے ٹیگ لگائے تاکہ یہ سہولت دے سکے بل واؤچر پر یہ تمام شرائط لکھ دیں اور کاؤنٹر والے ہمیشہ بتاتے ہیں کہ ایک مہینے تک ری فینڈ اور چھ ماہ تک واپسی کی گنجائش موجود ہے۔

Check Also

Kya Aap Ki Job Mehfooz Hai?

By Qamar Naqeeb Khan