Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mansoor Nadeem/
  4. Bahabal (2)

Bahabal (2)

باهبل (2)

ویسے ناول میں اگر مصنفہ نے عمومی طور پر مردوں کی دنیا کی ایک تاریک تصویر پینٹ کی ہے، تو وہ ہمیں مستقبل کے مرد کے لیے ناول میں ہی ایک اچھا نمونہ پیش کیے بغیر اختتام نہیں کررہی، ایسا مرد جو عورت سے بات کرتا ہے، یا وہ مرد جو عورتوں کی قدر کرتا ہے اور ان سے مساوی محبت کرتا ہے۔ اس ناول میں یہ مثال عباس/نوری کے کردار میں ملتا ہے، جو مصطفیٰ السردار کے پوتے، اور ان کی مظلوم بیٹیوں میں سے ایک کا بیٹا ہے۔

عباس/نوری نے ناول میں ایک بہت بڑا مقام حاصل کیا ہے۔ جس کو پڑھے بغیر اس پر بحث کرنا ناممکن ہے، ںاول میں اس کردار کے دو نام ہیں، چونکہ وہ شیزوفرینیا کی ایک قسم کا شکار ہے، اس لیے ہر نام اس کے دو اطراف میں سے کسی ایک اظہار کی علامت ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عباس/نوری نے اپنے نفسیاتی عارضے میں مردانہ شخصیت کی خصوصیات کو نسوانی شخصیت کے ساتھ جوڑ دیا ہے، نازک احساس، فن اور خوبصورتی کے لیے جھکاؤ، تصور کرنے کی صلاحیت اور ایک عملی روح کے ساتھ، مردوں کی طرح بازار کی زبان سے واقفیت اور ان سے نمٹنے کی صلاحیت، تجارت میں کامیابی اور دولت پیدا کرنے کے قابل ہونا، اپنے بچپن سے لے کر جوان ہونے تک، عباس/نوری اپنی خالاوں اور ان کے نسوانی ورثے کے قریب رہا، ان کے ساتھ زندہ اور مردہ دنیا کے درمیان ان گرے سیریاز میں اپنا وجود بانٹتا دکھائی دیتا ہے۔

تاہم، دوسری طرف، اسے اپنے والد، چچا اور کزنز سے سوائے تضحیک اور الزام تراشی کے کچھ نہیں ملتا، اور اس کی علمی فضیلت اور کامیابی بھی اسے وہاں عزت نہیں دلواتی، لیکن ناول میں واحد آدمی ہے جسے مصنفہ کی ہمدردی حاصل ہے، اور یہ اس کردار کے بارے میں مصنفہ کی تصویر کشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک جنس کے طور پر مرد کو اس کی ترقی میں نہیں ناپا جا سکتا، بلکہ اس کی جسمانی ساخت میں نسائی عناصر کی مقدار سے بھی جانچا جارہا ہوتا ہے۔

رجاء عالم کا ناول کوئی جاسوسی ناول نہیں ہے، بلکہ سعودی عرب میں یہ ایک پہلی قسم کا ایک شعری اور علامتی ناول ہے، جس میں معاشرے کے فلسفے، دوغلے پن اور کرداروں کو ایک گھٹیا نقاب کے پیچھے سے بیان کیا جارہا ہے، یہ ناول موت کے جنون میں مبتلا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی عورتیں موت سے زیادہ دور نہیں، گھروں اور ان کے اندھیروں کی اسیر بن کر زندگی گزارتی ہیں، جس طرح مردے قبروں اور ان کے اندھیروں کے اسیر ہوتے ہیں۔ یہ مکی زندگی ہے۔ حرم کے اندر ایک گھر میں، جہاں جنازے آنا بند نہیں ہوتے اور قریب ہی کفن کی دکان سے، جو میت کو دفنانے کے لیے تیار کرتے ہیں۔

مصنفہ نے حیرت انگیز طور پر ایسی زبان، اور تخیل تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں، جو موت اور مردہ کو ناول میں زندگی اور زندہ کی موجودگی سے کم نہیں رکھتی، دونوں کیفیتوں میں مصنفہ نے اپنے کردار کو مکمل طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے دکھایا ہے، یہ صرف لسانی باریک بینی اور حساس تخیل کی بدولت حاصل ہوتا ہے، ناول اپنی حقیقت پسندانہ روایت میں، بلکہ جادوئی حقیقت پسندی کی روایت میں جگہ بناتا ہے، شاید مصنف کرداروں کو موت سے "آشنا" کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کو شہوت میں ڈالنے کے لیے، اسے زندگی کا حصہ بنانے کے لیے۔ جو مررہے ہیں مگر زندگی مانگ رہے ہیں، رجاء عالم نے ناول میں ایک اسی زبان اور تشبیہاتی ماحول دیا ہے۔ جو ایسا تاثر دیتا ہے کہ قاری خود کسی زندہ کردار کے ذہن میں جھانک رہے ہیں یا مرنے والا کردار واپس آ کر پہلے کی طرح اپنی زندگی کا کردار دوبارہ شروع کر رہا ہے۔

رجاء عالم کا یہ ناول ایک وقت میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آخری حصوں میں۔ نئے کردار شامل کررہی ہیں، جو اس وقت غیر ضروری محسوس ہوتے ہیں، مگر ان کا تعارف محدود بظاہر وہ غیر ضروری نئے کردار محسوس ہوتے ہیں، جیسے جاسوسی ناول کی طرح جرائم کے مقام پر کرداروں کو اکٹھا کیا جاتا ہے، اور جرم کے عناصر اور لوگوں کی حرکات و سکنات کا تجزیہ کرنا شروع کرتے ہیں، اور مجرم کے کردار کو ظاہر کرکے ختم کرتے ہیں۔ مگر یہ جاسوسی نہیں بلکہ یہ پہلی قسم کا ایک شعری، علامتی ناول ہے۔ جس میں اس کے فلسفے، دوغلے پن اور کرداروں کو بدلتے چہروں کو دکھایا گیا تھا۔ جو مصنفہ ناول میں اپنے بیان، مجسم اور علامتوں کے ذریعے کہنا چاہتی تھیں۔

نوٹ: اس ناول کے مجموعی طور پر 336 صفحات ہیں، جسے سعودی عرب میں اشاعتی ادارے "دار التنویر" نے سنہء 2023 میں شائع کیا ہے۔ اپنی نوع کا یہ عجیب ناول ہے، جس میں ایسے مرد کی کہانی بھی شامل ہے۔ جو عورتوں میں رہتا ہے، یہ مکہ کی خواتین کے حقوق اور اظہار کی بات کرتا ہے، ان کی عہد بہ عہد زندگی کے تاثرات کا بیانیہ ہے۔ مجھے ذاتی طور پر بہت خوشی ہوئی ہے کہ سعودی عرب میں ایک مکی قبائلی زندگی سے تعلق رکھنے والی عورت نے ایسا بہترین علامتی بیانئے کا ناول لکھا ہے۔ رجاء عالم کا یہ ناول "باهبل" عرب بکر پرائز کی طویل فہرست میں شامل ہوچکا ہے۔

Check Also

Pehli Eent

By Taseer Zaman