Tuesday, 21 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Taseer Maseehai Ki

Taseer Maseehai Ki

تاثیر مسیحائی کی

آج بھی کسی بچے سے پوچھو کہ وہ بڑا ہوکر کیا بناے گا؟ تو پہلا جواب عام طور یہ ملتا ہے "میں بڑا ہوکر ڈاکٹر بنوں گا اور دکھی انسانیت کی خدمت کروں گا"۔ پتہ نہیں وہ بچہ انسانیت کی خدمت کسے کہتا ہے اور کسے سمجھتا ہے؟ ہمارے معاشرے میں اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کی ایک عجیب سی دوڑ اور ضد سی لگ چکی ہے۔ مائیں پیدا ہوتے ہی اپنے بچے کو ڈاکٹر بیٹا کہنا شروع کر دیتی ہیں اور بچہ بھی اپنا ذہن بنا لیتا ہے کہ اس نے ڈاکٹر ہی بننا ہے۔

اگر ایف ایس سی اور میڈیکل ٹیسٹ میں ناکام ہو جائیں یا میرٹ کے مطلوبہ معیار پر پورے نہ اتر سکیں تو بھی ماں باپ اور بچے کے ذہن سے یہ ڈاکٹر بننے کا بھوت نہیں اترتا۔ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے متبادل راستے تلاش کرتے ہیں۔ اپنے بچے کی قابلیت اور صلاحیتوں کا ادراک ہونے کے باوجود اپنی اور اپنے بچے کی ضد پوری کرنے کے لیے اپنا سب کچھ داوُ پر لگا کر بھاری معاوضہ کے عوض سیلف فنانس کے تحت پرائیوٰٹ میڈیکل کالج کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں بھی اگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو ملک سے باہر چائنا یا روس کی کسی سستی یونیورسٹی کو ڈھونڈ کر ڈاکٹری کے حصول کے لیے اپنے پیارے بچوں کو اپنے دور بھیجنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ بچے کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگ جائے۔ تاکہ اپنے خاندان اور علاقے میں ان کا اور ان کے بچوں کا نام روشن ہو سکے۔

میرے ایک دوست جو خود ایک ڈاکٹر تھے۔ انہوں نے اپنے تما م بچوں کو جائز ناجائز طریقے سے ڈاکٹر بنا یا۔ ان کی شادیاں بھی ڈاکٹرز سے کیں یاد رہے ایک بچے کو سیلف فنانس یا بیرون ملک سے ڈاکٹر بنانے پر کم از کم ایک کروڑ روپے سے زیادہ لگ جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر ہی کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ کیا صرف انسانیت کی خدمت کے لیے؟ یا پھر موجودہ دور کے ڈاکٹرز کی بے تحاشا دولت اور عزت کو دیکھ کر اس دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں؟ ان کے بڑے بڑے ہسپتال اور بڑی بڑی گاڑیاں ہمارہی تمنا وں کا مرکز کیوں ہوتی ہیں؟

اس سلسلے میں میری کئی والدین سے بات ہوئی ہے۔ تقریباََ سب زبان سے کہتے تو نہیں مگر دل میں یہی خواہش نظر آتی ہے۔ ایک والد نے کہا کہ ہم تو بچوں کو اس لیے ڈاکٹر بناتے ہیں کہ انہیں اچھے اور ہم پلہ رشتے مل سکیں۔ وہ بھی دوسرے ڈاکٹرز کی طرح مال و دولت کما کر معاشرے میں ایک اچھا مقام حاصل کرسکیں۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ اپنی جائداد، زیور، اور جمع پونجی داوُ پر لگانے کو تیار ہوتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے جو بچے اب تک ڈاکٹر بن چکے ہیں کیا وہ واقعی دکھی انسانیت کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں؟ بچوں کو سمجھائیں کہ دنیا میں ڈاکٹر ہی سب کچھ نہیں ہوتا بےشمار شعبہ جات ان کے منتظر ہیں۔ جہاں وہ دکھی انسانیت کی بہت بہتر خدمت کر سکتے ہیں۔

آج سے ساٹھ سال قبل جسے ہم جہالت کا دور کہتے ہیں۔ ہمارے پورے شہر میں بمشکل ایک ہی ایم بی بی ایس ڈاکٹر دستیاب ہوتا تھا۔ ورنہ کمپوڈر، ڈسپینسر اور حکیم سے ہی کام چل جاتا تھا۔ ایمرجنسی کی صورت یا بہت ضروری ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرتے تھے۔ جو صرف نبض دیکھ کر اور مریض کی علامات سے مرض کی تشخیص بڑی آسانی سے چند منٹوں میں کر لیتا تھا اور دوا بھی تجویذ کر دیتا تھا۔ صرف چند پیسوں میں دوا بنا کر دے بھی دیتا تھا۔ کبھی دو چار خوراکوں سے زیادہ کھانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وہی ایک ڈاکٹر تما م امراض کے بارے میں جانتا تھا۔ ناک، کان، گلا، دانت، دل، پھیپھڑے، گردے، مثانہ، ٹی بی، کینسر، بخار، کھانسی، نزلہ، غرض ہر مرض کا علاج اس کے پاس موجود ہوتا تھا۔

آج ہم انہیں سے علاج کرا کر ستر سال کی عمر میں بھی صحت مند ہیں۔ مجھے نہیں یاد شوگر کے علاوہ کبھی کوئی ٹسٹ لکھا جاتا تھا۔ شوگر بھی پیشاب سے ٹسٹ کی جاتی تھی۔ ٹسٹ لیبارٹریز صرف بڑے شہروں تک محدود تھیں۔ ایکسرے کے لیے دور دراز کا سفر اختیار کرنا پڑتا تھا۔ لوگوں کی صحت بھی اچھی رہتی تھی اور عمریں بھی طویل ہوتی تھیں۔ پوری زندگی اسپیشلسٹ ڈاکٹر کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ لیکن آج علاج ایک ایسا کاروبار بن چکا ہے جو پیسے کمانے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔

پچھلے سال سوات مالم جبہ میں ہمارے شہر کے بہت سے ڈاکٹروں اور ان کے اہل خانہ کا قافلہ پی سی ہوٹل پہنچا تو ملاقات ہوئی پتہ چلا یہ ٹرپ ایک دوائی کی کمپنی نے ارینج کیا ہے۔ اکثر ڈاکٹر دوست بیرون ملک انہیں کمپنیوں کے ذریعے کانفرنسز اور ٹورز پر جاتے ہیں جسے کوئی برائی نہیں سمجھا جاتا۔ ایک مذہبی قسم کے دوست نے بتایا کہ انہیں دنیا دیکھنے کا کوئی شوق نہیں ہے وہ تو صرف سال میں ایک دفعہ ان کمپنیوں کے ذریعے عمرے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کیوں ہوتا ہے؟

مجھے پچھلے دنوں اپنی بیوی کے علاج کے لیے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز سے واسطہ پڑا تو بڑی مشکل سے وقت لیا۔ معائنہ فیس ادا کرکے گھنٹوں انتظار کی قطار میں بیٹھنا پڑا۔ ڈاکٹر صاحب انے فوراََ ہمیں ایکسرے، اور لیبارٹریز ٹسٹ لکھ کر دئیے اور ساتھ ہی ہدایت فرمائی کہ یہ کہاں کہاں سے کرانے ہیں؟ کیونکہ مرض کی تشخیص ان بنیادی ٹسٹوں کے بغیر ممکن نہ ہے۔ صرف یہی لیبارٹریز ہی بہتر رزلٹ دیتی ہیں۔ دوسری لیبارٹریز ان کے نزدیک قابل بھروسہ نہ تھیں۔ پہلے ٹسٹ دیکھوں گا پھر دوا تجویذ ہوگی۔

عارضی طور پر چند درد اور انفیکشن کی دوائیں لکھ دیں۔ لیبارٹریز اور ایکسریز کی مہنگی فیس ادا کرکے واپس پہنچے تو انہوں نے چند ادویات پچھلے نسخے میں شامل کرکے مزید ٹسٹ کرانے کے لیے کہا اور اس مرتبہ یہ ٹسٹ آغا خان لیبارٹریز سے ہونے تھے۔ جن کا بل دیکھ کر اچھا خاصا انسان پریشان ہو جاتا ہے۔ اب دوائی میں یہ پرابلم تھا کہ وہ ایک دو مخصوص میڈیکل سٹور پر ہی دستیاب تھیں۔ مخصوص میڈیکل سٹور اور لیبارٹریز کا مطلب سب جانتے ہیں۔ غرض ٹسٹوں، ایکسریز، اور پھر سی ٹی سکین۔ ایکو گرافی، ای سی جی اور ادویات کا سفر آج بھی جاری ہے۔

پہلے بچوں کی پیدائش گھروں پر دائی ہی کرتی تھی۔ پھر ترقی کرکے ہم لیڈی ہیلٹھ وزیٹر تک پہنچے۔ نہایت مجبوری میں آپریشن کے ذریعے ولادت کا کوئی واقعہ ہوتا تھا۔ تو پورے شہر میں شور مچ جاتا تھا کہ فلاں کا بڑ آپریشن ہوا ہے۔ لیکن اب نارمل ڈلیوری کا تصور ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔ بڑی بڑی فیسوں کے عوض دن رات آپریشن کئے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر مریضوں کا آپریشن جنرل ہاسپٹل کی بجاۓ اپنے پرائیویٹ اسپتال میں کرتے ہیں۔ پھر آپریشن کے لیے اتنے پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں جس سے مریض کے گھر والوں کی کمر ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ان پر قرض لینے یا اپنے پاس موجود قیمتی چیزوں کو اونے پونے داموں پر فروخت کرنے کی نوبت آجاتی ہے۔

یہی نہیں بلکہ بسا اوقات اتنے پیسے اکٹھا کرنے کے لئے ذلت و رسوائی کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پھر نومولود کو اضافی نگہداشت میں رکھ کر اخرجات میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ ہر پرائیوٹ ہسپتال کی اپنی اپنی ایمبولینس ہوتی ہے یا رابطے میں رہتی ہے۔ جو مریض کو گھر چھوڑتی ہے اور من مرضی کے پیسے وصول کرتی ہے۔ عام طور پر ایسے ہسپتالوں میں ایمرجنسی سے نمٹنے کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہوتیں۔ اس لیے کسی خرابی یا ایمرجنسی کی صورت میں پھر ہسپتال ریفر کر دیا جاتا ہے اور مریض ایک نئی ذہنی و جسمانی اذ یت سے دوچار ہو جاتا ہے۔ کیونکہ سرکاری ہسپتال تو ایسے مریض کا امتحان ہوتے ہیں۔ مجھے ایک ڈاکٹر صاحب نے پیٹ میں درد کی وجہ سے فوری پتے کا آپریشن کرانے کا مشورہ دیا جو میں نے آج دس سال گزرنے کے بعد بھی نہیں کرایا وہ درد مجھے پھر کبھی نہیں ہوا۔

میرا سوال ان والدین سے ہے جو اپنے بچوں کو ہر قیمت پر ڈاکٹر بنانے پر تلے ہوۓ ہیں کہ کیا ہم ڈاکٹری اس لیے پڑھتے ہیں کہ مریضوں اور دکھی انسانیت کی خدمت کریں یا ان کے لئے وبال جان اور مصیبت کا سامان بنیں؟ طب ایک بلند مقام پیغام اور انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے ایک بہترین پیشہ کا نام ہے۔ جس کے اپنے اصول و ضوابط اور عہد و پیمان ہیں۔ جسے ڈاکٹروں کو اپنی جیبوں میں نہیں بلکہ اپنے دلوں میں لے کرکے چلنا چاہیے۔ ایسے زندہ ضمیروں کے مالک اور انسانیت نواز ان ڈاکٹروں کو بہت بہت سلام ہو خواہ کہیں بھی ہوں۔ یقیناََ وہ جس تعریف اور شکریہ کے مستحق ہیں ہم ان کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ یقینا وہ ضرور اس دنیا کے مال و دولت سے کہیں زیادہ اپنے رب کے پاس عظیم اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے۔ واضح رہے کہ انسان کا اپنا ضمیر سب سے بڑا نگراں ہوتا ہے اور یہی اللہ رب العزت کے نزدیک نیک اعمال کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔

میری یہ اپیل تمام ڈاکٹروں اور انسانی ضمیر کے لیے ہے۔ جن کے منفی رویوں کی وجہ سے بہت سے بیچارے باشندگان وطن غربت و افلاس کا شکار ہو رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ آج مہنگائی کے اس بدترین دور میں ادویات اور ٹسٹ برداشت کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔ سستی ادویات اور صرف ضروری ٹسٹ وغیرہ کر ا کر آپ ان کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ آپ کی مسیحائی کی تاثیر دور تک پہنچ سکے۔

Check Also

Zuban e Haal Se Ye Lucknow Ki Khaak Kehti Hai

By Sanober Nazir