Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Javed Ayaz Khan/
  4. Muhabbaton Mein Hisab Kaise

Muhabbaton Mein Hisab Kaise

محبتوں میں حساب کیسے

بڑی مشہور روایت ہے کہ مولانا جلال الدین رومیؒ اپنے شاگردوں کے ہمراہ ایک بازار سے گزر رہے تھے مولانا صاحب کے سامنے کریانے والے کی ایک دکان تھی جہاں ایک درمیانی عمر کی خاتون دکان پر کھڑی کچھ خریداری کر رہی تھی اور دکاندار وارفتگی کے عالم میں اس خاتون کو دیکھ بھی رہا تھا اور ساتھ ساتھ سامان بھی دے رہا تھا۔

وہ جس چیز کی طرف اشارہ کرتی دکاندار ہاتھ سے اس بوری سے وہ چیز نکالنے لگتا اور اس وقت تک وہ چیز تھیلے میں ڈالتا جاتا جب تک خاتون کی انگلی کسی دوسری بوری کی طرف نہیں جاتی اور دکاندار دوسری بوری سے بھی اندھا دھند چیز نکال کر تھیلے میں ڈالنے لگتا۔ یہ عجیب منظر تھا دکاندار وارفتگی کے ساتھ گاہک کو دیکھ رہا تھا اور گاہک انگلی کے اشارے سے دکاندار کو پوری دکان میں گھما رہا تھا اور دکاندار اٰلہ دین کے جن کی طرح چپ چاپ اس کے حکم پر عمل کر رہا تھا۔ اس خاتون نے آخیر میں ایک لمبی سانس لی اور دکاندار کو حکم دیا "چلو بس کرو آج کی خریداری مکمل ہوگئی۔

آخر دکاندار نے چھوٹی چھوٹی تھیلیوں کے منہ بند کئے یہ تھیلیاں بڑی بوری میں ڈالیں بوری کندھے پر رکھی اور خاتون سے بولا چلو زبیدہ میں یہ سامان تمہارے گھر چھوڑ آتا ہوں تو خاتون نے نخوت سے گردن ہلائی اور پوچھا "کتنا حساب ہوا؟ دکاندار نے جواب دیا "زبیدہ محبت اور عشق میں حساب نہیں ہوتا۔ خاتون نے غصے سے اس کی طرف دیکھا واپس مڑی اور گھر کی طرف چل پڑی دکاندار بھی بوری اٹھا کر چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑا۔ مولانا صاحب یہ منظر دیکھ رہے تھے دکاندار خاتون کے ساتھ چلا گیا تو مولانا صاحب دکان کے تھڑے پر بیٹھ گئے اور شاگرد گلی میں کھڑے ہو گئے۔ دکاندار تھوڑی دیر بعد واپس آگیا، مولانا صاحب نے دکاندار کو قریب بلایا اور پوچھا "یہ خاتون کون تھی؟ دکاندار نے مولانا کے بڑے ادب سے ہاتھ چومے اور بولا جناب یہ فلاں فلاں امیر خاندان کی نوکرانی ہے مولانا صاحب نے پوچھا "تم نے اسے بغیر تولے سامان باندھ دیا پھر اس سے رقم بھی نہیں لی آخر کیوں؟

دکاندار نے عرض کیا "مولانا صاحب میں اس کا عاشق ہوں اور انسان جب کسی کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو پھر اس سے حساب نہیں کر سکتا اور نہ حکم عدولی ہوتی ہے۔ دکاندار کی یہ بات سیدھی مولانا صاحب کے دل پر لگی وہ چکرائے اور بیہوش ہو کر گر پڑے شاگرد دوڑے مولانا صاحب کو اٹھایا ان کے چہرے پر پانی اور عرقِ گلاب چھڑکا، ان کی ہتھیلیاں اور پاؤں رگڑے مولانا صاحب نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھولیں۔ دوکاندار گھبرایا ہوا تھا وہ مولانا صاحب پر جھکا اور ادب سے عرض کیا جناب اگر مجھ سے غلطی ہوگئی ہو تو معافی چاہتا ہوں مولانا صاحب نے فرمایا "تم میرے محسن ہو میرے مرشد ہو کیونکہ تم نے آج مجھے زندگی میں عشق کا سب سے بڑا سبق دیا۔ دکاندار نے حیرت سے پوچھا "جناب وہ کیسے؟ مولانا صاحب نے فرمایا "میں نے جانا تم ایک عورت کے عشق میں مبتلا ہو کر حساب سے بیگانے ہو جبکہ میں اللہ کی تسبیح بھی گن گن کر کرتا ہوں، نفل بھی گن کر پڑھتا ہوں اور قرآن مجید کی تلاوت بھی اوراق گن کر کرتا ہوں، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالٰی سے اپنی محبت اور عشق کا دعوٰی تو خوب کرتا ہوں مگر گنتی اور حساب رکھتا ہوں اور تم اپنی محبت میں کتنے سچے اور کھرے ہو اور میں کس قدر جھوٹا عاشق ہوں۔

مولانا صاحب وہاں سے اٹھے اور اپنی درگاہ پر واپس آئے اور اپنے استاد محترم حضرت شمس تبریزؒ کے ساتھ مل کر عشق کے چالیس اصول مرتب کئے۔ ان اصولوں میں ایک اصول "بے حساب اطاعت" بھی تھا۔ یہ مولانا صاحب مشہور زمانہ مولانا جلال الدین رومی کے نام سے آج بھی جانے جاتے ہیں اور یہ پوری زندگی اپنے شاگردوں کو بتاتے رہے کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں نعمتیں دیتے ہوئے حساب نہیں کیا، چنانچہ تم بھی اس کا شکر ادا کرتے ہوئے حساب نہ کیا کرو اپنی ہر سانس کی تار اللہ کے شکر سے جوڑ دو اس کا ذکر کرتے وقت کبھی حساب نہ کرو یہ بھی تم سے حساب نہیں مانگے گا اور یہ ہی کُل عشقِ الٰہی ہے کہ عبادتوں اور محبتوں میں حساب نہیں ہوتا اور نہ ہی اجر اور معاوضے کا لالچ شامل ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی حکم عدولی کا کوئی تصورکیا جا سکتا ہے۔

اس مرتبہ میں عمرے کے دوران روضہ رسول پر اپنی بیگم کے ہمراہ حاضر ہوا تو حسب سابق عصر سے مغرب تک باب سلام کے سامنے ہم دونوں کرسیوں پر بیٹھ جاتے اور سامنے گنبد خضراء کو دیکھ کر تسبیح کرتے رہتے سبز گنبد خضراءکو دیکھ دیکھ کر اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتے رہتے ایک دن ایک ہندوستانی جوڑا بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گیا وہ بھی بس گنبد خضراء کو بڑی وارفتگی سے تک رہا تھا ہمارے ہاتھوں میں تسبیح دیکھ کہا جناب جب سامنے در رسول ہو اور آنکھیں محبوب کے دیدار میں محو ہوں تو پھر تسبیح کیسی یہ گنتی کیسی؟ بس جب محبوب سامنے ہو تو محبوب کو دیکھنا ہی سب سے بڑی عبادت ہے بس روضہ رسول پر نظریں جماے رکھو ناجانے پھر یہ دیدار ملے یا نہ ملے تسبیح تو ساری عمر کر سکتے ہیں یقینا" اس تسبیح کی بھی بڑی فضیلت اور تاکید ہے لیکن دیدار محبوب تو عشق کی معراج ہے۔

میرا تو آنکھ جھپکنے کو بھی دل نہیں کرتا پھر ان پر درود شریف بھیجنا اور وہ بھی گن گن کر یہاں تو بے حساب معاملات ہیں تسبیح نہیں دل پھریں بھلا محبتوں میں بھی کہیں گنتی اور حساب ہوتا ہے؟ وہ ہمیں ان گنت اور بے حساب عطا کرتا ہے ہم گن گن کر اس کو کیوں پکاریں؟ مجھے اس کی بات بہت اچھی لگی اور میں نے تسبیح پھیرنی چھوڑ کر پوری توجہ روضہ رسول کی جانب کر دی۔ درود وسلام سے لب ہلتے رہے نگاہیں سیراب ہوتی رہیں نہ وقت گزرنے کا احساس تھا نہ ادھر اُدھر دیکھنے کی مہلت بس روضہ رسول کا سبز گنبد سامنے تھا اور میری ترسی نگاہیں اور آنسوں کی جھڑی دل چاہتا تھا وقت وہیں رک جاے مگر مغرب کی آذان کی صورت رب کا بلاوہ آیا تو پتہ چلا کہ اس کیفیت میں کتنا وقت بیت گیا تھا اور پھر نماز عشق کی ادائیگی اور وہ بھی روضہ رسول کے سامنے اور مسجد نبوی کے سایے تلے نصیب ہونا اس رب کی خاص عنایت ہی ہوتی ہے۔

مجھے اپنے والد مرحوم رئیٹائرڈ لفٹیننٹ محمد ایاز خان کی بات یاد آگئی وہ فرماتے تھے۔ ہمارے عشق، محبت اور دوستی کا حساب صرف ہمارے دلوں میں محفوظ ہوتا ہے ان کے مانپنے کا کوئی پیمانہ، تعداد، مقدار، وزن، یا گنتی نہیں ہوتی جسے بہی کھاتوں، کتابوں ڈائریوں، یا اوراق میں لکھا جا سکے البتہ انہیں اپنے دلوں میں محسوس اور نقش کیا جا سکتا ہے یا پھر ان کا شکر ادا کیا جا سکتا ہے۔ یہ بے لوث محبتیں بانٹیں بھی بےحساب جاتی ہیں اور یہ محبتیں عطا بھی بے حساب ہوتی ہیں۔ جتنا زیادہ بانٹ دو گے اتنی ہی زیادہ رب تعالی اور رسول خدا کی عطا بڑھتی چلی جاے گی۔

کہتے ہیں شاعروں کے دل بڑے حساس ہوتے ہیں ان کے الفاظ ان کے دلوں کی ترجمانی کرتے ہیں عشق اور محبت میں وہ کسی حساب وکتاب کے قائل نہیں ہوتے وہ تو چند اشعار میں پوری کی پوری دنیا سمو دیتے ہیں بات محبتوں میں حساب کی ہوئی تو ایسے میں مجھے بھی ایکدم ایک شاعر کا کلام یاد آگیا جو آپکی نظر ہے۔

عشق مجازی ہو یا پھر حقیقی محبتوں میں حساب کیسا؟ محبتیں تو محبتیں ہیں، محبتوں میں حساب کیسا؟ یقین کیسا؟ گمان کیسا؟ عروج کیسا؟ زوال کیسا؟ سوال کیسا؟ جواب کیسا؟ محبتوں میں شمار کیسا؟ ہے میرا مقصد تیری عبادت، عذاب کیسا؟ ثواب کیسا؟ گنوں میں کیوں تسبیح کے دانے یہ محبتوں میں حساب کیسا؟ شہہ رگ سے بھی قریب تر ہو نگاہ کا پھر حجاب کیسا؟ ہمارے مابین گفتگو میں ملائیکہ کو جواب کیسا؟ عاشقوں میں خطاب کیسا؟ کتاب میں یہ عتاب کیسا؟ قانوں عشق بنا نہیں تو شریعت میں نصاب کیسا؟ تیری خدائی میری خلافت کوئی درمیاں میں نقاب کیسا؟

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہمارے دلوں کو محبت اور عقیدت کے اس مقام تک پہنچا دے جہاں دل، زبان، اور ذہن میں اسکے اور اسکے رسول کی یاد کے سوا کچھ نہ ہو آمین! ویسے بھی ہم کسی حساب کے قابل کہاں ہیں؟ ہم تو رحم کے طلبگار ہیں جو میرے پاک رب کی سب سے پہلی اور بڑی صفت ہے۔

Check Also

Pehli Eent

By Taseer Zaman