Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ilyas Kabeer/
  4. Doctor Salahuddin Haider

Doctor Salahuddin Haider

ڈاکٹر صلاح الدین حیدر

ڈاکٹر صلاح الدین حیدر سے پہلی ملاقات شاید 2002ء کے آس پاس ہوئی تھی۔ اس زمانے میں ملتان میں انجمن ترقی پسند مصنفین بھرپور متحرک تھی۔ جس کے باقاعدہ اجلاس بھی ہوتے تھے اور تقریبات بھی منعقد ہوتی تھیں۔ ایسی ہی ایک تقریب میں انھیں ملنے اور سننے کا اتفاق ہوا۔ وہ اس تقریب میں اپنی کوئی تحریر پڑھ رہے تھے۔ شگفتہ اسلوب اور جملوں کی کاٹ پر سامعین داد و تحسین دے رہے تھے۔

محفل زعفران زار ہو چکی تھی۔ تقریب کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ سفاری سوٹ میں ملبوس تھے۔ کمر جھکی ہوئی اور ہاتھوں کی انگلیاں قدرے مڑی ہوئی تھیں۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ سچ لکھنے کا شاخسانہ ہے۔ اس ملاقات میں وہ اپنی ہی وضع کے ایک منفرد شخص دکھائی دیے۔

عام طور پر پہلی ملاقات میں کسی شخصیت کے دو طرح کے تاثرات مرتسم ہوتے ہیں: پہلا، عمومی جسے کچھ عرصے تک بھلا دیا جاتا ہے، دوسرا، خصوصی جو ہمیشہ یاد رہ جاتا ہے۔ اس شخص کی کوئی بات، کوئی واقعہ اور کوئی پہلو دل و دماغ میں نقش ہو جاتا ہے۔ صلاح الدین حیدر سے ہونے والی پہلی ملاقات میں موخر الذکر ترتیب پانے والے اثرات تھے۔ اور وہ تھے ان کی صاف گوئی اور راست بازی۔ اس کا اطلاقی پہلو یہ تھا کہ انھوں نے اپنے دورِ جوانی میں ایک جابر سلطان کے ظلمت آمیز "ضیاعی" دور میں کلمہ حق کہا تھا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بیسیویں صدی کا ربع آخر اس لحاظ سے بھی انمٹ اور ناقابل فراموش ہے کہ اس دور میں روشن فکر اذہان کو حبسیاتی فضا میں محصور رکھا گیا۔ ہر وہ ہاتھ قلم کر دیا گیا جو نہایت جرات مندی سے سچ لکھنے پر ھمہ وقت تیار رہتا تھا۔ خالد علیگ کے الفاظ میں:

ھم صبح پرستوں کی یہ رِیت پرانی ہے

ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

اس دورِ ظلمات میں ہر اس زبان کو مقفل کرنے کی کوشش کی گئی جو نعرہ مستانہ بلند کرنے کی جراتِ رندانہ رکھتی تھی۔ سیاسی و سماجی اور ادبی فضا میں ایسے بند دماغ افراد مسلط کیے گئے جو آمر کی رعونت آمیز آمریت کی توسیع اور اس کے دوام کے خواہش مند تھے۔

ان گھمبیر حالات میں جہاں ملک بھر کے دیگر روشن فکر دماغ صبح پرستوں کی نمائندگی کر رہے تھے وہیں قدیمی شہر ملتان اپنی مزاحمتی روایت کی پاسداری کرتے والوں میں ایک صلاح الدین حیدر بھی شامل ہیں۔ جنھوں نے جیون بھر ظلم و جبر سے مملو آمریت کے خلاف لکھا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے انشائیے اور حکایات جیسی اصناف کو منتخب کیا۔

ملتان کی ادبی فضا میں جن ادیبوں نے ترقی پسندی کا حقیقی معنوں میں بھگتان کیا ان میں صلاح الدین حیدر نمایاں تر ہیں۔ انھوں نے ترقی پسندی کو فیشن یا مروجہ مقبول بیانیے کے طور پر نہیں اپنایا بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔ جس کی پاداش میں انھیں شاہی قلعہ لاہور میں محبوس رکھا گیا لیکن انھوں نے اس محبس میں اپنی تحریروں کے ذریعے دراڑ ڈالی اور عمر بھر کسی بھی نوعیت کی آمریت کو کسی طور قبول نہیں کیا۔

صلاح الدین حیدر نے ایک خواب دیکھ رکھا ہے، امن و شانتی اور پریم نگر بسانے کا خواب۔ ایسی مثالی ریاست کا خواب جو افلاطون کی وضع کی ہوئی ریاست سے قدرے مختلف ہے۔ جس میں شاعروں کا داخلہ تو ہو لیکن درباری اور آمریت کو استحکام دینے والے متشاعروں کا کسی صورت نہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں ظلم و استحصال کا دور دور تک نام و نشان نہ ہو۔ جہاں رومان اور انقلاب ہم رکاب ہوں۔ شاید اسی لیے انھوں نے سندی تحقیق کے لیے ایسے شاعر کو منتخب کیا جس کے ہاں کوئے یار سے سوئے دار کا سفر نہایت خوش کن ہے۔

ایم اے کے دوران جن اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا ان میں ڈاکٹر صلاح الدین حیدر اس لیے بھی نمایاں تر ہیں کہ انھوں نے ہمیں کلامِ فیض کے فکری تنوعات سے آشنا کیا۔

Check Also

Apni Jaron Se Miliye

By Arif Anis Malik