Tuesday, 14 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Idrees Azad/
  4. Kon Iqbal?

Kon Iqbal?

کون اقبال؟

1857 میں دِلّی لُٹی۔ 1877 میں اقبال پیدا ہوئے، یعنی صرف بیس سال بعد گویا مسلمانوں کا بچا کھچا احساس برتری بھی خاک ہو چکا تھا۔ اور اب"پدرم سلطان بود "کا زمانہ چل رہا تھا۔ اقبال کے والد شیخ نُور محمد ہاتھ سے محنت کرکے رزقِ حلال کمانے والے، ایک صوفی منش انسان تھے۔ تصوف اور روحانیت سے اس قدر لگاؤ تھا کہ اپنے ہاں شیخِ اکبر ابن عربی کی فتوحاتِ مکیہ اور فصوص الحکم کے دروس منعقد کرواتے۔

سادہ لباس، سادہ زندگی اور گہرے روحانی ماحول میں اقبال نے پرورش پائی کہتے ہیں، بچپن میں ایک مرتبہ اقبال تلاوت کر رہے تھے، تو والد کا گزر ہوا۔ والد نے پوچھا، کیا کر رہے ہو؟ بتایا کہ، تلاوت کر رہا ہوں۔ والد نے فرمایا، تلاوت کا اُس وقت تک کوئی فائدہ نہیں، جب تک تلاوت اس طرح نہ کی جائے کہ جیسے قران آپ کے دل پر نازل ہو رہا ہے۔ اقبال اس بات سے اتنے متاثر ہوئے کہ تمام عمر اسے اپنی زندگی کا وطیرہ بنائے رکھا اور پھر ایک لازوال شعر بھی کہا۔

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب

گرہ کشا ہے، نہ رازی، نہ صاحبِ کشّاف

سو، اس طرح کا بچپن گزارنے والا ایک نابغہ، جو سقوطِ دلّی کے بیس سال بعد پیدا ہوا، وہ کیونکر علامہ اقبال نہ بنتا؟ وہ کیونکر اپنی تہذیبی شناخت کے تحفظ اور بقا کی جنگ نہ لڑتا؟ وہ کیونکر مسلمانانِ ہند کو مایوسی کے دلدل میں گرنے سے نہ بچاتا؟ اس پر مستزاد وہ نہ صرف فلسفے کا طالب تھا، بلکہ خود بھی ایک مکمل اور کامل فلسفی تھا۔

ایک ایسا فلسفی جو اپنے وقت کے تمام تراَر سطاطیلیسی (Aristotelian) فلسفے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ مغرب میں برگسان اور مشرق میں اقبال نے تخلیقی ارتقأ کے تحفظ کا معرکہ لڑا اور وجودیت کے گہرے کنویں میں گرے مایوس انسانوں کو واپس زندگی کی طرف لوٹ آنے کا مشورہ دیا۔ اقبال کی شناخت پر اکثر سوال اُٹھایا جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے وہ شاعر تھا۔ کوئی کہتاہے وہ فلسفی تھا، مخالفین کہتے ہیں وہ محض ایک متکلم تھا۔

سیاست کے طلبہ کہتے ہیں وہ اپنی قوم کا معلم تھا۔ لیکن مجھ سے آپ پوچھیں تو میں کہوں گا اقبال کی پہچان ایک ہی ہے، اور وہ ہے، عشق۔ اقبال عاشقِ صدق دِل تھا۔ وہ سرتاپا عشق ہے۔ ایک وجد کے ساتھ عشق کے نغمے گانے والا وہ بلبلِ حجاز رسولِ اطہر ﷺکے عشق سے سرشار تھا۔ بس یہی اقبال کی واحد شناخت ہے۔ باقی تمام شناختیں یعنی شاعر، فلسفی، سیاستدان، وکیل، معلم، حکیم وغیرہ۔

اِسی ایک شناخت کی مختلف تشریحات ہیں اور سچ پوچھیں تو اس شناخت کے بعد کسی اور شناخت کی ضرورت بھی کب رہتی ہے؟ اور یہ شناخت اُس نے ہم بے نشانوں کو بھی بار بار یاد کرائی۔

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

مجھ سے اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ عہدِ حاضر میں اقبال کی ریلیوینس کیا ہے؟ میں کہا کرتا ہوں، "یہ دور شناختیں گم کرنے کا دور ہے۔ یہاں شناختوں کو ٹیبوز اور مہابیانیے کہا جاتا اور انسانیت کے لیے مضر سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ کتنی تباہ کُن ہے، اس کا اندازہ ترقی پذیر معاشروں کو نہیں ہو سکتا۔ اس کا اندازہ صرف اُن کو ہو سکتا ہے، جن معاشروں نے اپنی شناختیں گم کردی ہیں۔

جہاں دوسری (باشناخت) اقوام آکر آباد ہو رہی ہیں اور پچھلی اقوام کو آہستہ آہستہ "ری پلیس" کر رہی ہیں۔ ایسی ہرقوم کے ہرفرد کو اقبال کے "اسرارورموز" کی ضرورت ہے۔ مابعد جدیدیت کا یہ نعرہ کہ شناختیں ایک عالمگیر انسانی معاشرے کے راستے کی رکاوٹ ہیں، اس لیے درست نہیں، کیونکہ اپنی کُنہ میں یہ وہی عالمگیر محبت ہے۔ جس کا سبق ہزاروں سال پہلے مہاتما بُدھ نے ہمیں رٹوایا تھا۔

یہ وحدت الوجود کی وہی قاتل قسم ہے۔ جس میں خدائے شخصی کا وجود مفقود ہو جاتا ہے۔ یہ وہی "ہارمنی اور حلُول کا سبق ہے۔ جو معاشروں کو کائنات کے وجودی محلول میں ضم کر دیتا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ انسانیت کا خاتمہ ہے۔ مختصراً یہ عرض کرونگا کہ بطور انسان آپ کے لیے اقبال کی اسرارِ خو دی، بطور مسلمان آپ کے لیے اقبال کی "دی ری کنسٹرکشن" اور بطور پاکستانی آپ کے لیے اقبال کی رموزِ بے خودی اور بالِ جبریل پڑھنا بے حد ضروری ہے۔

ضروری ہے کہ ہربچی کو جہیز میں یہ کتابیں دی جائیں۔ ضروری ہے کہ ہربچے کو بچپن میں ہی ان کتابوں کے نام بتا کر، ان سے زندگی کے اسباق پڑھنے کا شوق اجاگر کردیا جائے۔ ضروری ہے کہ ہر پڑھے لکھے شخص کو یہ کتب بار بار پڑھنی چاہییں۔

Check Also

Zindagi Mein Kuaa Ban-Na Hai Ya Shaheen?

By Azhar Hussain Azmi