1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Ghalati Kis Ki?

Ghalati Kis Ki?

غلطی کس کی؟

چند روز قبل ایک شادی کی تقریب میں سینیئر صحافی جناب مجیب الرحمن شامی اور سینیئر اینکر پرسن جناب محمد مالک کی سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ سے تفصیلی ملاقات ہوئی یہ ایک نجی شادی کی تقریب تھی مجیب الرحمن شامی صاحب بتاتے ہیں کہ محمد مالک اور میں جب ہال میں داخل ہوئے اور جنرل باجوہ کی آنکھوں سے آنکھیں ملی تو ایک دوسرے کے قریب آ کر بیٹھ گئے۔

باتوں باتوں میں ہم نے جنرل باجوہ صاحب سے پوچھا کہ یہ جو پچھلے ڈیڑھ دو سال سے آپ پر الزامات لگ رہے ہیں ان کی کیا حقیقت ہے جس کے جواب میں جنرل باجوہ نے سب سے پہلے اپنی جیب سے قرآن پاک نکالا ٹھیک اسی طرح کا قرآن پاک جس طرح جنرل مرحوم ضیاء الحق اپنی جیب میں رکھا کرتے تھے ان کے قرآن پاک جیب سے نکالنے پر ہم سبھی حیران تو ہوئے لیکن اس کے بعد انہوں نے ہمیں مزید حیران کیا جب انہوں نے تین قسمیں اٹھائیں اور تین باتیں بتائیں۔

سب سے پہلے انہوں نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھتے ہوئے قسم اٹھائی کہ میں قسم اٹھاتا ہوں کہ جب میاں محمد نواز شریف متعدد کیسوں میں قید تھے اور انہیں علاج کے لیے باہر بھیجا گیا تو باہر بھیجنے میں میرا کوئی کردار نہیں تھا یہ الزام مجھ پر ہمیشہ غلط لگایا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف کو باہر بھیجنے میں میرا کردار تھا۔

شامی صاحب بتاتے ہیں کہ مزید انہوں نے قسم میں تبدیلی کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی والدہ کی قبر کی قسم اٹھاتے ہوئے کہتا ہوں کہ جو مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نے امریکہ کے ساتھ مل کر عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کی سازش کی تو میں اس کی بھی سختی سے تردید کرتا ہوں یہ بھی صحافی زیادتی کرتے ہیں میرے ساتھ اور مجھ پر غلط الزام لگاتے ہیں۔ میں نے امریکہ کے ساتھ مل کر عمران خان کی حکومت نہیں گرائی۔ تیسری دفعہ انہوں نے کہا کہ یہ بھی سراسر غلط ہے کہ میں نے ایکسٹینشن کے لیے کسی سے رابطہ کیا میں اس بات کی بھی سختی سے تردید کرتا ہوں کہ جو مجھے آخری ایکسٹینشن دی گئی میرا اس میں کوئی کردار نہیں تھا میں نے کبھی کسی سے کوئی بات نہیں کی کہ مجھے ایکسٹینشن چاہیے یا مجھے ایکسٹینشن دی جائے۔

ایک موقع پر تو انہوں نے کہا کہ مجھے حضور ﷺ کی شفاعت نصیب نہ ہو اگر میں کوئی غلط بیانی کروں یا غلط بات آپ کو بتاؤں اور مزید انہوں نے کہا کہ جس صحافی کے منہ میں جو بات آتی ہے وہ کہہ دیتا ہے اور اس کی کوئی تحقیق یا تصدیق نہیں کرتا یہ بہت بڑی زیادتی ہے جو صحافی حضرات اور میڈیا کے نمائندے خصوصا میرے ساتھ پچھلے مسلسل دو تین سال سے کرتے آرہے ہیں۔

شامی صاحب کہتے ہیں کہ یہ سارا منظر اور یہ ساری باتیں سننے کے بعد ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے جس کے بعد ہمیں حفیظ اللہ نیازی صاحب ملے۔ نیازی صاحب نے کہا کہ آپ نے باجوہ صاحب کی باتوں کا یقین کر لیا مجھے تو آپ پر حیرانی ہو رہی ہے جس کے بعد شامی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اور مالک صاحب نے انہیں بتایا کہ جتنی شدت سے انہوں نے قسمیں اٹھائیں ہم تو اس کے سحر سے ابھی تک نہیں نکل رہے۔

اس سے پہلے بھی لاتعداد مرتبہ جنرل باجوہ اپنی صفائیاں پیش کرتے رہے ہیں مگر عوام ہے کہ وہ ان باتوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں آخر اس کی کیا وجہ ہے اتنی نفرت عوام میں پیدا کیسے ہوئی؟

آخر کیا وجہ ہے کہ ادارہ جس سے چند سال پہلے عوام بہت حد تک محبت کرتی تھی آج اسی حد تک نفرت کرنے پر اتر ائی ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ اس ادارے کا سابق سربراہ قسمیں اٹھا اٹھا کر اپنی صفائیاں دے رہا ہے لیکن اس کی باتوں پر اعتبار کرنے والا کوئی نہیں اور اس کے برعکس اڈیالہ جیل میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کی زبان سے جو بھی بات نکلتی ہے عوام آنکھیں بند کرکے اس پر یقین کر لیتی ہے آخر اس کی کوئی وجہ تو ضرور ہے۔

کیا اس ادارے کو اس بات پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ ہم سے کون سی غلطیاں ہوئیں اور کون سی غلطیاں ہم ابھی تک دہرا رہے ہیں۔

عوام میں اس ادارے کے خلاف غم و غصے کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ اگلے دن ایک مشاعرے کا کلپ میری نظر سے گزرا جس میں ایک نوجوان شاعر افکار علوی اپنے اشعار پیش کر رہے تھے کہ انہوں نے اپنے کلام میں سے ایک شعر جو اس ادارے کے متعلق تھا وہ چھوڑ دیا ظاہر ہے وہ اگلے دن غائب نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن عوام خاص کر نوجوان طبقے نے اس قدر شور مچایا کہ افکار علوی کو شعر پڑھنے پر مجبور کر دیا اور وہ شعر یوں تھا۔۔

مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے
مرشد انہیں تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی

یہ شعر سننے کے بعد عوام نے جس جوش و جذبے کے ساتھ شور مچایا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ادارے کی ساخت کس حد تک خراب ہو چکی ہے اور عوام کس حد تک اس ادارے سے خفا ہے۔

اب اس کی وجہ آپ عمران خان کو قرار دیں یا کسی اور لیڈر کو لیکن بہرحال آپ کو یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ آپ کے ادارے سے پچھلے 75 سال سے متواتر غلطیاں ہوتی آ رہی ہیں اور اب تک ان غلطیوں کا سلسلہ نہیں روک رہا لیکن اب عوام میں شعور آ چکا ہے وہ شعور چاہے کسی لیڈر کی طرف سے بھی آیا ہو کوئی لیڈر ہی اس کا ذریعہ بنا ہو۔

اس میں سیاست دانوں کی بھی غلطیاں ضرور ہیں لیکن اس ادارے کو بھی سوچنا ہوگا کہ اگر ہم سیاست میں مداخلت واقعتاََ نہ کرتے اور اپنے حدود میں ہی کام کرتے تو ہم سے وہی محبت اور جذبہ عوام میں قائم رہتا لیکن آج جو صورتحال عوام میں ہماری ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری ہر جگہ پر بے جا مداخلت ہے۔

سب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے انہیں سوچنا ہوگا کہ اس ملک کے سب سے بڑے دو ادارے فوج اور عدلیہ اگر ان کو اس حد تک متنازعہ بنا دیا گیا ہے تو اب اس متنازہ صورتحال سے نکلنے کا راستہ بھی انہی کو تلاش کرنا ہوگا اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عوام میں ہم اپنا اعتماد کس طریقے سے بحال کر سکتے ہیں۔

کیونکہ کسی بھی ملک کے استحکام میں سب سے بڑا کردار اس ملک کی فوج اور عدلیہ کا ہوتا ہے اور اگر یہ دونوں ادارے اسی طرح متنازع رہے تو یہ ملک یقینی طور پر عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ اس کے استحکام کا خواب ہمارے لیے ایک خواب ہی ثابت ہوگا۔

پہلے کی بات اور تھی پہلے تو کوئی بھی کام ہوتا یا کوئی ہلچل ہوتی تو عوام تک پہنچنے میں ہفتوں اور مہینہوں لگ جاتے تھے سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ اس نے واقعی ہی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے چھوٹی سے چھوٹی بات منٹوں سیکنٹوں میں ہر آدمی تک پہنچ جاتی ہے اور یہ انقلاب ہی اس سارے شعور کی وجہ ہے۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Ab Wohi Stage Hai

By Toqeer Bhumla