1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Safwan
  4. Haq Mehar Kyun?

Haq Mehar Kyun?

حق مہر کیوں؟

عدیل حسن صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ میں نے ایک امریکن پلٹ مسلمان لڑکی کا نکاح کرایا تھا۔ وہ ایک لڑکے سے نکاح کرنے خاص طور پر پاکستان آئی تھی۔ لڑکا بھی بہت اچھا اور پڑھا لکھا تھا۔ لڑکی کی اردو تھوڑی کمزور تھی۔ جب نکاح کا وقت آیا اور قاری صاحب نے حق مہر کا پوچھا تو لڑکی بہت حیران ہوئی۔ میں لڑکی کو سائیڈ پر لے گیا اور اسے اچھی طرح سمجھایا کہ حق مہر کیا ہوتا اور اس پر کچھ اصرار بھی کیا کہ یہ اسلام میں عورت کا حق ہے جو اُسے لینا چاہیے۔ وہ لڑکی کچھ سوچ میں پڑگئی۔ تھوڑی دیر بعد بولی "مجھے لگتا ہے کہ یہ شادی کے بعد سیکس کے بدلے ملنے والے پیسے ہیں"۔

میں پہلے خاموش ہوگیا۔ پھر بولا کہ "یہ پیسے عورت کے تحفظ کے لیے ہیں کہ کل کو یہ تمھیں طلاق دے یا چھوڑ دے تو تم اپنا کچھ انتظام کرسکو"۔ وہ مسکرائی اور مجھ سے کہا "Its money against sex according to religion. " میں پھر مکمل خاموش ہوگیا۔ دوسرا مسئلہ قاری صاحب نے کھڑا کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ حق مہر کا لکھنا ضروری ہے ورنہ نکاح مکمل نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ رجسٹر ہوگا۔ لڑکی بضد تھی کہ حق مہر شرعی بھی نہیں لکھنا۔ ایک گھنٹہ اسی تکرار میں گزر گیا۔ بالآخر ایک ہزار روپے کا دولھا دلھن سے صدقہ دیا گیا اور اسے شرعی حق مہر لکھا گیا۔

یہ پہلی دفعہ تھا کہ میں نے نکاح رجسٹریشن کے لیے قاری کے کچھ فرائض انجام دیے۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ لڑکی ایک امریکن پروفیسر تھی گو عمر کی اِتنی معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس نے مجھے جاتے ہوئے کہا کہ "میں صرف یہ بتانا چاہتی تھی کہ عورتوں کو شادی کے عوض کسی پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی، پیسے تو وہ خود بھی کما سکتی ہیں"۔ میں نے کہا، "میں آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں"۔ آج تک جن عورتوں نے مجھے متاثر کیا ہے یہ امریکن پروفیسر اُن میں سے ایک تھی۔

میں عدیل حسن صاحب سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام میں احکامات دو طرح کے ہیں، ایک وہ جو پہلے عرب رواج میں تھا اُسے چلنے دیا گیا اور ایک وہ جو اسلام کے آنے کے بعد خاص طور سے اُترے۔ دوسری طرح کے احکامات بہت کم ہیں۔ پہلی طرح کے، یعنی رواج میں چلتی آتی باتوں کے، بہت سے ہیں بلکہ بیشتر احکامات اِسی نوعیت کے ہیں۔ نکاح کے لیے مہر پرانا چلتا آتا عرب رواج تھا اور یہ رواج اِس قدر مضبوط تھا کہ اِس کے خلاف چلنا ممکن نہ تھا۔ عورتیں بھی مہر لینے میں بہت سختی کرتی تھیں اور اِس پر باقاعدہ تیزم تازا ہونا تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے بعد حضرت عمر نے ایک مرتبہ حق مہر کی مقدار مقرر کرنے کا پلان بنایا تو ایک عورت نے نہایت قوت کے ساتھ اِس کی مخالفت کی اور اُنھیں ایسا کرنے سے روکنے میں کامیاب رہی۔

چنانچہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ حق مہر خدا کا حکم ہے اِس لیے اِسے طے کرنا اور لکھنا اور ادا کرنا چاہیے۔ اگر یہ عرب رواج میں پرانا چلا آ رہا تھا اور آج اِس کی ضرورت عرب یا غیر عرب دنیا میں باقی نہیں رہی ہے تب بھی اِس کی علامتی صورت کا باقی رکھنا مناسب ہے۔ صرف امریکی یا دیگر مہذب مالدار دنیا میں نہیں بلکہ عرب کے عین قلب میں جہاں سے اسلام نمودار ہوا تھا، وہاں سے بھی اِس کے خلاف آوازیں اٹھتی ہیں جو خاصی منطقی ہوتی ہیں چنانچہ اب وہاں بھی نکاحِ مسیار عام ہوگیا ہے۔

اصولی بات ہے کہ جو چیز سماج کے لیے فائدہ کی نہ ہو وہ ختم ہوجایا کرتی ہے اور جو چیز فائدے کی ہو صرف وہی باقی رہا کرتی ہے۔ اما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض۔

Check Also

Khoobsurti Ke Kaarobar Ka Badsurat Chehra

By Asifa Ambreen Qazi