Tuesday, 21 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Mughalitistan Aur Imran Khan, Islami Touch Nahi, Islami Zavia (13)

Mughalitistan Aur Imran Khan, Islami Touch Nahi, Islami Zavia (13)

مغالطستان اور عمران خان: اسلامی ٹچ نہیں،اسلامی زاویہ (13)

دوستو! پچھلی قسط میں ہم نے ابراہم لنکن کی ایک تقریر پر گفتگو کی تھی۔ اُس تقریر میں ابراہم لنکن فرماتے ہیں کہ قوم کے لیے خطرے کی گھنٹی تب بجتی ہے جب قوم میں سے شیطانی حصہ جتھوں کی صورت میں باہر نکلے اورمعاشرے کا امن خراب کرے۔ ساتھ ساتھ انہوں نے فرمایا کہ ایسی صورت حال میں ایک جاہ طلب (ایمبشس)شخص پیدا ہوتا ہے، جو بدامنی اور لاقانونیت کا فائدہ اٹھاتا ہے اور پھر معاشرے کے نظام کو تلپٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ابراہم لنکن فرماتے ہیں کہ کسی بھی صورت میں لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ بھلے ہی وہ قانون کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، ا س کی پاسداری سب پر لازم ہے۔ قانون کو صحیح طریقے سے بدلنے کی سعی ضرور کرنی چاہیے، لیکن جب تک وہ قانون نافذ العمل ہے، اس کو توڑنا غلط بات ہے۔

آئیے آج اس تقریر کو ہم اسلامی زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ رسول اللہﷺنے اپنے وصال سے پہلے صحابہ کرام کو بہت سی نصیحتیں کی تھیں۔ ان نصیحتوں میں ایک نصیحت یہ تھی، غور سے اس حدیث کے متن کا مطالعہ کیجیے گا:

"امیر(یعنی کہ حاکم) کا حکم سننا اور ماننا لازم کرلو اگرچہ وہ حبشی غلام ہو"۔ (سنن ابن ماجہ، 42)

ایک دوسری حدیث میں اسی نصیحت کو ان لفظوں میں درج کیا گیا ہے:

"تم پر اطاعتِ امیر لازم ہے خواہ وہ حبشی غلام ہو کیونکہ مومن نکیل ڈالے اونٹ کی طرح ہوتا ہے جسے لے چلو اطاعت کرتا ہے"۔ (سنن ابن ماجہ، 43)

اب یاد رہے نبی ﷺ کے دور میں قانون اور ریاست کے معاملات کلی طور پر حاکم کے سپرد ہوتے تھے۔ لیکن اب جدید ریاستیں وجود میں آگئی ہیں، جن کا ایک نظام ہے، قوانین ہیں۔ اس حدیث کو آج کے تناظر میں دیکھیں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ریاست اور نظام اور قوانین کی اطاعت ہم پر لازم ہے—اور ظاہر ہے اس وجہ سے حاکم یا نظام سے بغاوت کا راستہ ختم ہوجاتا ہے۔

اورحدیث میں نبی ﷺیہ نہیں کہہ رہے کہ کوئی مثالی حاکم ہو تو اس کی اطاعت کرو ورنہ نہ کرو۔ وہ تو اس دور کے تعصب کو مد نظر رکھتے ہوئے عرب لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ حبشی (سیاہ فام)بھی تمہارا حاکم تو اس کی اطاعت بھی تم پر لازم ہے۔ اس زمانے میں (اور کسی حد تک آج بھی) افریقیوں کو کم تر سمجھا جاتا تھا۔ لہذا رسول اللہﷺنے یہ واضح کردیا کہ حاکم چاہے جو بھی ہو اس کی اطاعت کرو۔

آج جو لوگ اپنی تقریر میں"اسلامی ٹچ" دیتے ہیں، اور ساتھ ساتھ ریاست اور نظام کو بدلنے کی اور انقلاب کی باتیں کرتے ہیں، ان کو چاہیے کہ پہلے اسلام کا ڈھنگ سے مطالعہ کریں، کیونکہ اسلام میں ریاست اور حکومت کے خلاف بغاوت سخت ناپسندیدہ چیز ہے۔ سورۃ النساء کی آیت 59 میں در ج ہے کہ " اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں۔ "اس آیت میں بھی حاکم کی اطاعت کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے "دااسٹڈی قرآن "تفسیر (جس کو معتدد اسلامیات کے عالمی اسکالرز نے قلم بند کیا ہے، اور جسے "ہارپرکولنز"جیسے اشاعتی ادارے نے چھاپا ہے) میں درج ہے:

"اس آیت نے اختیار کی اطاعت کے بارے میں جو عمومی بیان دیا ہے اس نے بعض مسلمانوں کو ظالم حکمران کی اطاعت کو اس افراتفری اور سماجی نقصان پر ترجیح دی ہے جو بغاوت کی پیداوار ہے، اور ایک معروف روایت کہتی ہے، "انتشار کا ایک دن ہزار سالہ ظلم سے بھی بدتر ہے۔ " تاہم دیگر روایات مسلمانوں کو ایسے رہنما کی اطاعت سے منع کرتی ہیں جو خدا کی نافرمانی کا حکم دیتا ہے"۔

غور سے اس تفسیر کو ملاحظہ کیجیے۔ بحث یہ ہورہی ہے کہ اطاعت کی جائے یا نہیں۔ لیکن بغاوت کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ یاد رہے جہاں حاکم کی اطاعت لازم ہے، وہیں رسول اللہﷺنے دوسری انتہا سے بھی منع فرمایا ہے: یعنی کہ حاکم کی ہر غلط بات کی اطاعت۔ لیکن کسی بھی صورت میں حاکم کے خلاف بغاوت کی اجازت نہیں دی گئی۔ بلکہ جیسے کہ تفسیر میں آپ نے پڑھا کہ ایک روایت کے مطابق، "انتشار کا ایک دن ہزار سالہ ظلم سے بھی بدتر ہے"۔

اور یاد رہے حاکم اور نظام کو گرانے کی سعی شروع میں اس جذبے کی پیداوار ہوتی ہے کہ ملک یا معاشرہ مثبت طور پرتبدیل ہو، لیکن جیسا کہ ہم آپ کو دوسری قسط سے عرض کرتے آرہے ہیں، لوگ نہیں بدلیں گے تو نظام بدلنے کا کوئی مستقل فائدہ نہیں ملتا۔ چاہے ہزار حکمران تبدیل کریں، چاہے نظام کو کتنا بھی الٹ پلٹ کریں، کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ کسی اچھے حکمران کا آنا کچھ دنوں کے فوائد ضرور لاسکتا ہے، لیکن وہ بھلائیاں بھی چند دنوں کی دین ہوتی ہیں۔ انسان کو کسی نہ کسی دن تو اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے۔ لہذا، اس اچھے حاکم کا جب وقت آتا ہے تو پھر اس کے دئے ہوئے سارے فوائد بھی مٹی میں مل جاتے ہیں۔

زیادہ تر تو ایسا ہوتا نہیں۔ ہم جیسے کہ اگلی قسط میں کچھ تاریخی حقائق آپ کے سامنے رکھیں گے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ جتھوں کے ذریعے ریاست اور نظام گرانے کی کوشش سے صرف معاشرہ افراتفری اور تباہی کی جانب بڑھتا ہے، اور مزید بدتر حالت کا شکار ہوتا ہے۔

فی الحال ہم اس قسط میں صرف اتنا کہیں گے کہ مشرق وسطی کے وہ ممالک جہاں"عرب اسپرنگ"کےزیر سایہ کئی ممالک کے نظام تلپٹ کیے گئے، کئی حکمران عبرت کا نشان بنے، نوجوان سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے، وہاں آج کیا صورت حال ہے؟ لبیا اور عراق جیسے ممالک کے کئی لوگ آج ماضی کے حکمرانوں کو یاد کرتے ہیں۔ کرنل قذافی، صدام حسین، یہ حکمران موت کی آغوش میں تو چلے گئے، لیکن کیا لوگ آج زیادہ محفوظ ہیں لبیا اور عراق میں؟ بس اسی سوال پر اس بحث کو اگلی قسط کے لیے موخر کرتا ہوں۔ فی الحال ہم واپس اپنی اصل بحث پر لوٹتے ہیں۔

اب یاد رہے رسول اللہﷺنے جہاں اطاعت امیر لازم کی، وہیں ہمیں کئی مثالیں سیرت نبوی ﷺسے ملتی ہیں کہ انہوں نے غلط بات کی پیروی کو ناپسند کیا۔

مثلاً، ایک بار جب عقلمہ بن مجزز کو رسول اللہﷺنے ایک لشکر کا سردار بنا کر کفار کے تعاقب کے لیے بھیجا، تب ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے رسول اللہﷺکی امیر کی اطاعت والی بات کو مزید واضح کردیا۔ عقلمہ بن مجزز کے بارے میں سیرت ابن ہشام میں ایک روایت درج ہے (ابو سعید خدری کی)کہ ان " کی طبعیت میں ہنسی اور ٹھٹھوں کا مادہ بہت تھا۔ "انہیں پتہ تھا کہ رسول اللہﷺ کی بات کو صحابہ بے چوں چراں مان لیتے ہیں۔ لہذاجب ان کے لشکرنے پڑاؤ کیا اور آگ لگائی گئی (جو اس وقت معمول کی بات تھی، انٹرنیٹ اور لائیٹ کا زمانہ نہیں تھا) تب انہوں نے اپنے لشکرکے لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا: "کیا میں تمہارا سردار نہیں ہوں؟ اور کیا میری اطاعت تم پر فرض نہیں ہے؟"لشکرکے لوگوں نے مثبت جواب دیا، کہا جی بالکل! کیونکہ یہ رسول اللہﷺ کا حکم ہے۔ یہ جواب سن کر عقلمہ نے کہا: " بس تو میں تم سے اپنی اطاعت اور اپنے حق کی قسم دلا کر کہتا ہوں۔ کہ اس آگ میں گر پڑو۔ "صحابہ یہ بات ماننے لگے ہی تھے کہ عقلمہ نے ان سے کہا میں مذاق کر رہا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺسے اس حوالے سے پوچھا گیا، تو انہوں نے جواب دیا: "جو شخص تم کو گناہ کا حکم کرے اس کا حکم نہ مانا کرو"۔ (ص 517 تا 518، سیرت النبی ﷺ(کامل) ابن ہشام، ابن ہشام، جلد دوم، مترجمین: مولوی قطب الدین احمد صاحب محمودی اور سید یٰسین علی حسنی نظامی دہلوی، مکتب رحمانیہ، لاہور)

لہذا، اسلام نے دونوں انتہاؤں سے منع کردیا۔ آپ حاکم کی غلط بات کی پیروی بھی نہیں کریں گے اور ساتھ ساتھ بغاوت کے راستے بھی بند کردیے گئے ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو ابراہم لنکن نے بھی اپنی تقریر میں کی، جس کا حوالہ پچھلی قسط میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قانون اگر غلط ہو تو صحیح طریقہ کار سے اسے تبدیل کیا جائے، بصورت دیگر اس کی خلاف ورزی صحیح نہیں۔ اور انہوں نے بھی جتھوں کی سیاست کو ملک یا ریاست کے لیے زہر قرار دیا۔ انہوں نے جتھوں کے ذریعے ملک میں بد امنی پیدا کرنے کی شدید مذمت کی۔

ہمارے ملک کے بانی، قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اس حوالے سے فرمایا:

"آپ اطاعت کرنا سیکھیے، اسی صورت میں آپ حکم دینا سیکھیں گے"۔

بڑی خوبصورت بات کہی گئی ہے۔ اگر آپ آج کسی کی اطاعت کریں گے، تبھی کوئی آگے آپ کی اطاعت کرے گا۔ لیکن اگر آپ بغاوت کی روش اختیار کریں گے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ کے ماتحت آپ کے حکم کو بجا لائیں؟ وہی بندہ اپنے ماتحتوں کو حکم دے سکتا ہے جو خود اپنے اوپر دئے ہوئے حکم کی تعمیل کرتا ہو۔ ورنہ اگر آج آپ اپنے اوپر کام کرنے والے کی بات نہیں مانتے تو کل کیا وجہ ہے کہ کوئی آپ کی ماتحتی میں آپ کے حکم کو مانے گا؟

یہی وجہ ہے کہ جب سے عمران خان قید خانے گئے ہیں، ان کی جماعت میں نظم و ضبط، جو پہلے بھی بے حد کم تھا، آج تباہ حالی کا شکار ہے۔ جماعت کے تمام افراد ایک دوسرے پر غدار اور دشمنوں کے جاسوس ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔ جو باہر (بیرون ممالک)بیٹھے ہیں وہ یہاں والوں کو گالیاں دے رہے ہیں، انہیں غدار کہہ رہے ہیں۔ کچھ یہاں موجود اپنی ہی جماعت کے سربراہوں پر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں۔ یہ روش عمران خان نے ہی پیدا کی۔ دوسروں پر بے بنیاد الزام لگانا، بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے، ہر مخالف کو غدارِ وطن کہہ دینا، یہ ساری عمران خان کی عطیات ہیں۔ آج وہی زہر ان کی جماعت کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ یہ جماعت اپنی طبعی موت سے دوچار ہورہی ہے۔ الحمد اللہ!

خیر، ہم واپس قائد کے بیان پر لوٹتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکم کی اطاعت کیجیے، تب ہی آپ حکم دینا سیکھیں گے۔ اور مزید فرمایا:

"یاد رکھیں کہ آپ کی حکومت آپ کے اپنے باغ کی طرح ہے۔ آپ کا باغ، جس طرح سے آپ اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور اس کی بہتری کے لیے جو کوششیں کرتے ہیں، اس سے پھلتا پھولتا ہے۔ اسی طرح آپ کی حکومت آپ کی محب وطن، دیانتدارانہ اور تعمیری کوششوں سے ہی ترقی کر سکتی ہے"۔ (ص134، قائد اعظم محمد علی جناح سپیچز ایز گورنر جنرل اوف پاکستان: 1947-1948، سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور، 2013ء)

ہم مسلسل دوسری قسط سے آپ کو مغالطہ عظیم کے بارے میں بتاتے آرہے ہیں۔ یہ غلط سوچ کہ حکومت لوگوں کو تبدیل کرتی ہے۔ جبکہ ہمارے بانیان کا یہ خیال نہیں تھا۔ قائد کے اس بیان سے، جو اوپر درج ہے، صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ اچھی حکومت کو لوگوں کی حب الوطنی، دیانتداری اور تعمیری کوششوں سے جوڑتے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ اچھی حکومت اچھے ماحول کی ضمانت ہے۔ یہی بات سر سید نے بھی کی۔ ان سلسلہ وار مضامین کی آٹھویں قسط ملاحظہ کریں، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ سر سید بھی یہی سوچ رکھتے تھے۔

آخر میں اپنی دلیل کو مزید مضبوط کرنے کے لیے میں اپنے پیارے نبی محمد مصطفی ﷺکا ایک قول درج کرتا ہوں۔ غور سے یہ الفاظ پڑھیے یا سنیے۔ رسول اللہﷺنے فرمایا:

"جو لوگ کم تولنا اور کم دینا اختیار کرتے ہیں وہ قحط سالی اور سختیوں اور بادشاہ کے ظلم میں گرفتار ہوتے ہیں"۔ (ص 513، سیرت النبی ﷺ(کامل) ابن ہشام، ابن ہشام، جلد دوم، مترجمین: مولوی قطب الدین احمد صاحب محمودی اور سید یٰسین علی حسنی نظامی دہلوی، مکتب رحمانیہ، لاہور)

یعنی ظالم حکومت تب ہی نصیب ہوتی ہے جب لوگ بےایمان ہوتے ہیں۔ یہی بات ہم دوسری قسط سے مسلسل آ پ کےسامنے پیش کر رہے ہیں۔

اور ہماری قوم کتنی دیانتدار ہے، کتنی مالی معاملات میں صاف ہے، اس کا اندازہ آپ کو کچھ سال کیا، چند مہینے پاکستان میں رہ کر پتہ چل جاتا ہے۔ صرف حکومت اور حکومت کے افسران مالی غبن میں شریک نہیں، معاشرے کے اکثر افراد یہی کام کرتے ہیں۔ کتنی کہانیاں آپ کو ملیں گی کہ خود رشتے دار ہی اصل وارثوں کی وراثت ہڑپ جاتے ہیں اور اصل وارثوں تک مال پہنچتا ہی نہیں۔

ہر پاکستانی کے پاس کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہے کہ کیسے وہ کسی نہ کسی مقام پر ٹھگا گیا ہے۔ اور ٹھگنے والے وہ نہیں ہوتے جو بھوک سے مر رہے ہوتے ہیں۔ ورنہ ہمارے سیاستدان تو ملک کے سب سے غریب ترین لوگ ہوتے۔ جبکہ وہ امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ کچھ اگر ساری زندگی حرام نہ بھی کمائیں تب بھی ان کی جیب بھری رہنی ہے۔ لیکن پھر بھی انہیں حرام ضرور کمانا ہوتا ہے۔

دوستو! ہم نے اسلامی زاویہ اس قسط میں فراہم کردیا ہے۔ اب انشاءاللہ گفتگو کو تاریخی حقائق سے جوڑیں گے۔ لیکن اگلی قسط میں۔ فی الحال مجھے اجازت دیجیے۔ اللہ حافظ!

اور ہاں! اگر یہ مضامین پسند آرہے ہیں، تو انہیں اپنے دوستوں اور عزیزوں میں ضرور تقسیم کیجیے۔ اللہ نگہبان۔

Check Also

Baat Karne Ki Space Mafqood

By Syed Mehdi Bukhari