1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Mughalitistan Aur Imran Khan, Abraham Lincoln Ki Naseehat (12)

Mughalitistan Aur Imran Khan, Abraham Lincoln Ki Naseehat (12)

مغالطستان اور عمران خان، ابراہم لنکن کی نصیحت

دوستو! پچھلی قسط میں میں نے عرض کیا تھا کہ ہم اس قسط میں ابراہم لنکن کی ایک تقریر پر گفتگو کریں گے۔ لہذا آئیے ہم آج ابراہم لنکن کی ایک تقریر پر گفتگو کریں، جس کو آج "ابراہم لنکن لائسئیم ایڈریس"کہا جاتا ہے۔

لیکن اس سے پہلے میں حوالہ پیش کردوں۔ یہ تقریر آپ کو "فیمس سپیچز اوف ابراہم لنکن" کتاب میں مل جائے گی۔ اس کتاب میں ابراہم لنکن کی تمام مشہور اور معروف تقاریر موجود ہیں۔ یہ کتاب 1935ء میں پیٹر پاپر پریس نے شائع کی۔ اور کتاب کا تعارف ولیم ایچ ٹاونسینڈ نے لکھا ہے۔ اس کتاب کے جملہ حقوق ختم ہوچکے ہیں، لہذا آپ "آرکائیو ڈاٹ اورگ " ویب سائیٹ پر جاکر اسے مفت ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔ میں جو بھی صفحہ نمبر دوں، وہ اسی کتاب کا ہے۔

اب آئیے ہم ابراہم لنکن کی اس تقریر کے چند حصے آپ کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ ایک خلاصہ آپ کے سامنے آجائے۔ ساتھ ساتھ ہم اپنا تبصرہ بھی پیش کریں گے۔ یاد رہے، ابراہم لنکن نے جب یہ خطاب کیا، تب ان کی عمر فقط 28 سال تھی۔ وہ ابھی امریکی صدر بنے تھے اور نہ ہی مشہور و معروف امریکی شخصیت۔

تقریر کی ابتدا میں ابراہم لنکن امریکا کی جغرافیائی خوبصورتی اور زمین کی زرخیزی اور مختلف موسموں کی خوبصورتی کا ذکر کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ فرماتے ہیں کہ امریکا کا سیاسی نظام بھی بڑا عمدہ ہے۔ لیکن وہ اپنے مخاطبین سے فرماتے ہیں کہ "ہم نے ان چیزوں کے قیام یا حصول کے لیے محنت نہیں کی"۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں تو امریکیوں کو وراثت میں ملی ہیں ان لوگوں سے، جن کو ابراہم لنکن "مضبوط، بہادر اور محب وطن نسل "کے لوگ قرار دیتے ہیں۔ (ص1)

بعد میں ابراہم لنکن فرماتے ہیں کہ امریکی لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بڑوں کی میراث کو تباہ نہ ہونے دیں۔ کہتے ہیں:

"اپنے بڑوں کا شکر ادا کرنا، اپنے آپ کے ساتھ انصاف، اپنی اگلی نسل کے فرائض، اور اپنی نوع سے پیار، یہ سارے فرائض ہمیں لازمی طور پر بخوبی انجام دینے چاہییں"۔ (ص2)

یہ سب کہنے کے بعد وہ اپنے مخاطبین سے پوچھتے ہیں کہ کون سی چیز امریکا کے لیے خطرہ بن سکتی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ کوئی بیرونی طاقت امریکا کو ختم نہیں کرے گی۔ وہ فرماتے ہیں کہ بوناپارٹ بھی اگر دنیا جہان کی ساری فوجوں کی کمان سنبھال کر امریکا پر حملہ آور ہو تو بھی امریکا ختم نہ ہوگا۔ البتہ وہ اصل خطرے کی نشاندہی کچھ اس طرح کرتے ہیں:

"پھر کس موقع پر خطرے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ میں جواب دیتا ہوں: وہ (یعنی کہ خطرہ) جب بھی پہنچے گا، ہمارے ہی درمیا ن سے وجود پائے گا۔ وہ بیرونی نہیں ہوگا۔ اگر تباہی ہمارا مقدر ہے تو ہم ہی اس کے مصنف اور مہر لگانے والے ہونگے۔ ایک آزاد قوم کے باسی کے طور پر ہم یا تو ہر وقت کا سامنہ کریں گے یا خود کشی سے مر جائیں گے"۔ (ص2)

آپ نے ہماری پچھلی اقساط پڑھی ہوں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ سر سید نے بھی یہی کہا تھا۔ کوئی بھی قوم اس لیے تباہ نہیں ہوتی کیونکہ "بیرونی سازش"ہوتی ہے۔ بلکہ قوم اپنے ہی غلط اعمال کا خمیازہ بھگتی ہے۔ ابراہم لنکن چاہتے تو آج کے ہمارے مقبول رہنماؤں کی طرح لوگوں کو بیوقوف بناتے کہ تم ٹھیک ہو، بس یہ "بیرونی سازش" نہ ہو تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ابراہم لنکن بلکہ ایک ایمان دار شخص کی طرح قوم سے فرما رہے ہیں کہ اپنے بڑوں کے اعمال پر تشکر ظاہر کرو اور ان کے د ی ہوئی میراث کو بچاؤ۔

خیر، پھر آگے ابراہم لنکن ہجوم(موب) کی جانب سے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے ملک میں بدامنی بھی پھیل رہی ہے اور لاقانونیت بھی۔ وہ فرماتے ہیں کہ لوگ اگر خود قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں گے، بےشک وہ صحیح بندے کو بھی سزا دیں، اس سے معاشرے کو نقصان ہوگا۔ وہ فرماتے ہیں:

" جب لوگ اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لیں گے کہ وہ جوا ریوں کو پھانسی دے دیں گے اور قاتلوں کو جلا دیں گے، تو انہیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ اس الجھن میں یہ سارا کام کرتے ہوئے کسی ایسے شخص کو بھی پھانسی دے سکتے ہیں یا جلا سکتے ہیں جو نہ ہی جواری ہے اور نہ ہی قاتل"۔ (ص5)

وہ بار بار مشتعل ہجوم کی نشاندہی کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ امریکا کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے معاشرے کاامن تباہ ہوجاتا ہے۔ وہ پھر ایک منظر بھی پیش کرتے ہیں، ذرا غور کیجیے وہ کن عناصر کی نشاندہی کر رہے ہیں:

"جب بھی آبادی کے شیطانی حصے کو سینکڑوں اور ہزاروں کے گروہ میں جمع ہونے اور گرجا گھروں کو جلانے، سامان کی دکانوں کو تباہ کرنے اور لوٹنے، پرنٹنگ پریسوں کو دریاؤں میں پھینکنے، مدیروں کو گولی مارنے، اور نفرت انگیز لوگوں کو لذت آمیزی کے ساتھ لٹکانے اور جلانے کی اجازت دی جائے گی، یقین مانیے، تب یہ ملک نہیں بچے گا"۔ (ص6)

اب یہ ابراہم لنکن نے جو منظر پیش کیا ہے، آپ دو منٹ کے لیے سوچیں ہمارے ملک میں ایسی "شیطانی "کون کر رہا ہے؟ کس جماعت کے سربراہ نے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر دارالخلافہ کے اس حصے میں ہجوم کو داخل کیا جس میں حکومت کی اجازت کے بغیر آپ نہیں جاسکتے؟ کس جماعت کے ہجوم نے پی ٹی وی اور پارلیمان پر حملہ کیا؟ یہاں ابراہم لنکن نے جو منظر پیش کیا ہے اس میں وہ عبادت گاہ، دکانیں، پرنٹنگ پریس وغیرہ کی تباہی کو بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شیطانی گروہ ان ساری چیزوں کو نذر آتش کرے گا تو ملک تباہ ہوجائے گا۔ کس جماعت کے لوگوں نے جناح ہاؤس کی مسجد شہید کی؟ کس جماعت کے ہامیوں نے "آڈی" کے شوروم کو نذر آتش کیا؟ کس جماعت کے لوگوں نے ریڈیو پاکستان کی عمارت کو آگ لگایا جہاں کئی قیمتی تاریخی نسخے اور مسودے اور قومی یادیں محفوظ تھیں؟ جواب تو سب کو پتہ ہے۔

خیر، ہم واپس ابراہم لنکن کی تقریر پر لوٹتے ہیں۔ ابراہم لنکن فرماتے ہیں کہ جب بھی ایسا ہوگا تب کئی جاہ طلب لوگ پیدا ہونگے جو موقع کا فائدہ اٹھائیں گے اور نظام کو تلپٹ کرنے کی کوشش کریں گے۔ لہذا اپنی تقریر کی ابتدا میں جو انہوں نے سوال کیا۔۔ کہ خطرہ کی گھنٹی کب بجے گی؟ اس کا وہ جواب بھی دیتے ہیں، کہتے ہیں:

"یہ وہ پہلا نقطہ ہے جس پر خطرے کی توقع کی جاسکتی ہے"۔ (ص7)

یعنی جو انہوں نے منظر پیش کیا ہے، وہ جب وقوع پذیر ہوجائے تب خطرے کی پہلی گھنٹی بجتی ہے۔ وہ پھر پوچھتے ہیں:

"اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ "ہم اِس (خطرے) کے خلاف کیا کریں؟" جواب بڑا ہی سادہ ہے۔ ہر امریکی، ہرکوئی جو آزادی سے محبت کرتا ہے، ہر کوئی جو اپنی اگلی نسل کا خیر خواہ ہے وہ انقلاب(امریکا کی آزادی) کی خون کی قسم کھائے کہ وہ کسی صورت بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ اور دوسروں کی طرف سے ان کی خلاف ورزی کبھی برداشت نہیں کرے گا"۔

مزید فرماتے ہیں:

"قانون کی تعظیم کو ہر ماں جذب کرے اور اپنے نو مولود بچے میں منتقل کرے جو اس کی گود میں توتلا تا ہے۔ اسے (یعنی قانون کی تعظیم کو) اسکولوں، کالجوں اور مدرسوں میں پڑھایا جائے۔۔ اس بات کی منبر سے تبلیغ کی جائے، قانون سازی کے ایوانوں میں اس کا تذکرہ کیا جائے اور انصاف کی عدالتوں میں نافذ کیا جائے۔ اور مختصراً یہ کہ اسے قوم کا سیاسی دین بنایا جائے"۔ (ص7)

غور طلب بات یہ ہے کہ ابراہم لنکن پہلے ماں کی مثال پیش کرتے ہیں اور بعد میں تعلیمی اداروں اور عبادت گاہوں تک پہنچتے ہیں، اور آخر میں وہ قانون ساز ادارے اور عدالتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ کیونکہ، جیسا کہ سر سید نے بھی اپنے مضمون میں کہا، جس کا ذکر ہم پچھلی اقساط میں کئی بار کر چکے ہیں، قوم کی حقیقی مثبت تبدیلی لوگوں کی تربیت سے ہوتی ہے۔ تربیت حکومت کے ذمے نہیں۔ والدین، اساتذہ اور خطیب حضرات معاشرے کی تربیت کرتے ہیں۔ والدین کی اول درجے کی ذمے داری ہے، اور پھر اساتذہ اور دینی رہنما لوگوں کی تربیت کرتے ہیں۔

خیر، ہم واپس ابراہم لنکن کے پیغام پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

بعد میں ابراہم لنکن اپنی بات کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں:

"میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ، اگرچہ برے قوانین، اگر وہ موجود ہیں، انہیں جلد از جلد منسوخ کر دینا چاہیے، پھر بھی جب تک وہ نافذ العمل ہیں، ایک اچھی مثا ل کے لیے، ان قوانین کی مذہبی طرز پر پاسداری کرنی چاہیے"۔ (ص8)

یعنی ابراہم لنکن کہہ رہے ہیں کہ ضروری نہیں کہ سب قوانین، ہر نظام اور ہرحکمران اچھے ہوں۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ان چیزوں کو درست کرنا ہجوم کا کام ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اختلاف کے باوجود، قانون اپنے ہاتھ میں اٹھانا زیادتی ہے۔ لہذا اگر کوئی قانون، نظام یا حکمران آپ کو پسند نہ ہوں، تو ان کےخلاف بغاوت اور پر تشدد کاروائیاں جائز نہیں۔ کیونکہ اس سے ملک کا امن خراب ہوتا ہے۔

یاد رہے یہ ہمارے مذہب کی بھی تعلیم ہے۔ یہ بالکل وہی نصیحت ہے جو رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو کی۔ اس حوالے سے آگے بات ہوگی، فی الحال ہم ابراہم لنکن کی تقریر کا مطالعہ واپش جاری رکھتے ہیں۔

آگے ابراہم لنکن عرض کرتے ہیں:

"لیکن، یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ہمارے سیاسی اداروں کو خطرہ کیوں ہوگا؟ کیا ہم نے انہیں پچاس سال سے زیادہ محفوظ نہیں رکھا؟ اور ہم آگے پچاس بارایسا کیوں نہیں کر سکتے؟"(ص8)

ابراہم لنکن پھر خود ہی ا س بات کی نفی بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ، ہر معاشرے میں جاہ طلب لوگ ضرور پائے جاتے ہیں اور وہ۔۔ خیر، آپ خود سن لیجیے ابراہم صاحب کیا فرماتے ہیں۔ کہتے ہیں:

"وہ(یعنی جاہ طلب، ایمبشس لوگ) فطری طور پر اپنے حکمرانی کے جذبے کی تسکین حاصل کریں گے، جیسا کہ دوسروں نے ان سے پہلے کیا ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تسکین کسی ایسی عمارت کی حمایت اور برقرار رکھنے میں حاصل کی جا سکتی ہے جسے دوسروں نے کھڑا کیا ہو؟"(ص10)

ابراہم لنکن فرماتے ہیں کہ جاہ طلب لوگ، جنہیں انگریزی میں ایمبشس لوگ کہا جاتا ہے، وہ کبھی بھی موجودہ حالت سے خوش نہیں ہوتے۔ انہیں تاریخ میں اپنا نام زندہ کرنے کی اور اقتدار کے ذریعے اپنی شہرت میں اضافہ کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ جس کی تکمیل معاشرے کے نظام کو تلپٹ کرکے ہوتی ہے۔ (آپ نے ہمارے ان مضامین کی ساتویں قسط ملاحظہ کی ہو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ عمران خان نے چند سال کے اقتدار کے بارے میں کہا تھا کہ "میں اس کو بہت چھوٹی ایمبشن سمجھتا ہوں"۔)

خیر، ابراہم لنکن صاحب پھر فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں، جب ایسے جاہ طلب لوگ پیدا ہوں، تو ضرور ت اس امر کی ہے کہ " لوگ ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہوں، حکومت /ریاست اور قوانین کے ساتھ جڑ جائیں، اور عام طور پر ذہین لوگ کامیابی سے اس کے منصوبوں کو ناکام کریں"۔ (ص10) ایک طریقے سے دیکھا جائے تو انہوں نے عمران خان جیسے لوگوں کی نشاندہی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ "ڈسٹنکشن "حاصل کرنا چاہتےہیں۔۔ یعنی کہ اعزاز۔ (ہمارے ان مضامین کی دوسری اور تیسری قسط ملاحظہ کیجیے تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ حقیقی مصلح لوگ اس کے برعکس کام کرتے ہیں۔)

تقریر کے اختتام پر ابراہم لنکن فرماتے ہیں کہ جب امریکا کی آزادی کے لیے جنگ لڑی جارہی تھی، تب جذبات نے لوگوں کا ساتھ دیا۔ لیکن کیونکہ آزادی حاصل ہوگئی ہے، لہذا۔۔ خیر، آپ ابراہم لنکن کی ہی زبانی سن لیجیے وہ کیا کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا:

"جذبے نے ہماری مدد کی ہے۔ لیکن اب (جذبہ)ایسا نہیں کرسکتا۔ یہ مستقبل میں ہمارا دشمن ثابت ہوگا۔ ہمارے مستقبل کے سہارے اور دفاع کے لیے جو سامان لازم ہے وہ ہے عقل، غیر جذباتی، ٹھنڈا اور حساب پر مبنی عقل"۔ (ص12 تا 13)

ایک طرف ابراہم لنکن کی نصیحت ہے کہ ملک کے دفاع اور سہارے کے لیے جذبات کے بجائے عقل کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف ہمارے ہونہار کپتان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

" میرے زندگی کےزیادہ تر فیصلے، من کی موج، اپنی خواہشوں، خوابوں اور جذبوں کا پیچھا کرتے ہوئے، کیے گئے ہیں اور شاز و نادر ہی عقلیت اور منطق کے ذریعے (فیصلے کیے گئے ہیں)"۔ (حوالہ پچھلی قسط میں موجود ہے۔)

خیر، دوستو! مضمون مزید طویل نہیں کرتے۔ انشاء اللہ اگلی قسط میں ہم ابراہم لنکن کی اس تقریر کو اسلامی زاویے سے دیکھیں گے۔ فی الحال مجھے اجازت دیجیے۔ اللہ حافظ! اللہ نگہبان!

اور ہاں! اقساط پسند آرہی ہیں تو انہیں اپنے جاننے والوں اور عزیزوں میں ضرور تقسیم کیجیے گا۔ جزاک اللہ!

Check Also

Masoom Zehan, Nasal Parast Ban Gaye

By Zaigham Qadeer