1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Azmi
  4. Professional Life Ki Doosri Innings Bharpoor Khelen

Professional Life Ki Doosri Innings Bharpoor Khelen

پروفیشنل لائف کی دوسری اننگز بھرپور کھیلیں

ہمارے ایک دوست ہیں۔ ٹورنٹو میں مقیم ہیں۔ میری طرح ایڈورٹائزنگ سے وابستہ ہیں۔ عمر میں ایک دو سال کم ہوں گے لیکن مجھ سے بہتر سوچ اور زندگی کا ادراک رکھتے ہیں۔ تعلیم عرب ملک میں ہوئی۔ کراچی آئے، زیادہ عرصہ ملازمت نہ کی اور جلد ہی اپنی ایجنسی شروع کردی۔ طبیعت میں ایک عجیب طرح گہما گہمی بلکہ آشفتہ سری ہے۔ کینیڈا چلے گئے، واپس آئے پھر چلے گئے۔ اب وہاں ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی سے منسلک ہیں۔

کل ان سے مہینوں بعد بات ہوئی اور اتنی لمبی کے ساری کسر نکل گئی۔ سلام دعا ہوئی۔ حال احوال پوچھا تو کہنے لگے: دوسری اننگز کھیل رہا ہوں اور ٹھیک ٹھاک جا رہی ہے۔ میں نے کہا: بھائی اپنا بھی یہی حال ہے آخری بال تک کھیلنا ہے۔ ویسے تم نے یہ آخری اننگز کی بات خوب کہی۔

صاف گو آدمی ہے، بولے: بھائی یہ میں نے آپ ہی کی لائن کہی ہے۔ یاد ہے جب آپ نے 2018 میں اپنی زندگی کے ایک سانحے کے بعد کہا تھا کہ ابھی کھیل ختم نہیں ہوا۔ میری پروفیشنل لائف کی دوسری اننگ اب شروع ہوئی ہے اور اپنی بیسٹ پرفارمنس دوں گا۔ آپ کا یہ جملہ مجھے چپک گیا ہے۔ پروفیشنل لائف کی دوسری اننگ پیسہ کمانے سے زیادہ خود زندہ اور کار آمد رکھنے کے لیے ہوتی ہے۔

مجھے خوشی ہوئی کہ چلو کچھ تو زندگی میں کام کا کہا، بولے: ابھی میری جاب چل رہی ہے۔ میں نے دوسری اننگ کی تیاری شروع کردی ہے اور اسٹاک ایکسچینج کے کام میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ میں نے کہا کہ اس میں ہی کیوں؟ بولے اپنی ایجنسی کے تجربے سے یہ بات سیکھ لی کہ جب عمر بڑھ جائے تو ایسا کام شروع کرو جس میں دوسروں کر انحصار کم سے کم ہو بلکہ نہ ہو۔ ایجنسی میں کیا تھا۔ کام زیادہ آتا تو اسٹاف کے نخرے بڑھ جاتے، کوئی چھٹی کرتا تو کوئی تنخواہ بڑھانے کے اشارے دیتا۔ میں پھنسا ہوا آدمی ہوتا۔ اکیلا کتنا کام کر لیتا۔ کچھ نہ کچھ ماننا پڑتا۔

اس گفتگو کا بنیادی مقصد ہمارے معاشرے میں ایک غلط سوچ کا وجود ہے۔ جہاں آپ 60 سال کے ہوئے (سٹھیا گئے) آپ کو ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے اور آپ خود کو ایک فالتو شخص سمجھ کر وقت گزاری کرتے ہیں۔ پینشن گریجویٹی کی رقم کو کل کائنات جانتے ہیں۔ ملازمت سے فراغت بوجوہ عمر نے ہمارے ہاں کے کار آمد لوگوں کو ناکارہ کر دیا ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی عجیب ہے زندگی بھر کسی کو کسی پیشہ کی بھٹی میں جھونکتا ہے۔ جب وہ کندن بن کر نکلتا ہے تو کہتا ہے اب گھر جا کر بیٹھو اور ہم سودا سلف لانے، بے کار کی سیاسی بیٹھکیں لگانے، ٹی وی کے آگے ٹاک شوز دیکھنے، چائے سے لے کر کھانے تک سب میں فی نکال نکال کر گھر والوں کے لیے سوہان روح بن جاتے ہیں۔ یہ سب اپنی زندگی اور دوسروں کے ساتھ کہاں کا انصاف ہے۔

امریکا، یورپ، چین جاپان اور دیگر ممالک میں لوگ ایک جاب سے ریٹائرمنٹ کے بعد دوسری ملامت شروع کر دیتے ہیں۔ جاپان کے ایک شخص کی ویڈیو دیکھ رہا تھا۔ وہ 90 سال کا ہے اور اس وقت 3 جگہ سے پینشن لے رہا ہے۔ 60 دال کی عمر میں ریٹائر ہوا تو دوسری ملازمت کر لی۔ وہ ختم ہوئی تو ذرا کم محنت کی ملازمت کر لی۔

اس سال جب میری ریٹائرمنٹ کی عمر آپہنچی تو میں نے اس سے پہلے ہی اپنی پروفیشنل لائف کی دوسری اننگ کی تیاری شروع کر دی تھی۔ مجھے بالآخر لکھنے لکھانے کی فیلڈ میں رہنا تھا۔ بہت سوچا کہ خود کو کس طرح مارکیٹ کیس جائے۔ کیا، کیوں اور کس کے لیے لکھا جائے؟ سوشل میڈیا سے بہت واقفیت نہیں تھی لیکن اس کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ سوال یہ تھا کہ پہلے نظروں میں آئیں۔ میں نے سوچا کہ خود کو پروڈکٹ تصور کرو اور کسٹمر کی وسیع رینج کو دیکھتے ہوئے خود کو مستحکم کرو اور برانڈ بننے کی کوشش کرو۔

سو پہلے تو یہ طے کیا کہ جو لکھنا ہے وہ انتہائی عام فہم اور سلیس لکھنا۔ پھر موضوعات کا سوچا تو ذہن نے کہا کہ طنز و مزاح ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہر عمر کے لوگ دلچسپی رکھتے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ طنز و مزاح میں بھی کیا؟ عقل نے کہا کہ ابتدا میں یاد رفتگاں پر زیادہ لکھ کر دیکھو کیونکہ گزرے دنوں کی باتیں، یادیں سب کو لبھاتی ہیں اور جب دیکھو کہ ریڈرز میں ہر عمر کے لوگ ہیں تو پھر طنز و مزاح میں گراونڈ کے چاروں طرف چوکے چھکے لگانا شروع کر دینا۔

یہ مضمون تعریف و توصیف میں نہیں۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ ایک ملازمت سے ریٹائرمنٹ کا مطلب زندگی سے کنارہ کشی نہیں۔ فارغ آدمی معاشرے کا سب سے خطرناک فرد ہوتا ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے ہیں، وکالت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں کیس لینے سے پہلے کلائنٹ سے اس کی مصروفیات کے متعلق ضرور پوچھتا ہوں، اگر وہ یہ کہہ دے کہ کچھ نہیں کرتا تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ یہ مجھے کچھ نہیں کرنے دے گا۔ صبح شام کیس کے لیے کال کرکے مجھے وکالت سکھائے گا۔

زندگی کی پہلی دفتری ریٹائرمنٹ تو اصل میں تجربے کا خزانہ ہوتی ہے جسے ہم اپنی چارپائی یا بیڈ کے نیچے رکھ تالا لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر دفتر کو آپ کی ضرورت نہیں تو کیا ہوا آپ دنیا کی ضرورت بن جائیں۔ کچھ نہ کچھ خاص تو ہر ایک میں ہوتا ہے بس ضرورت ہے کہ اسے بروئے کار لایا جائے مگر توکل کے ساتھ۔ اب سوال یہ ہے توکل کیا ہے؟ تو جناب کسی کام کو اپنی بھرپور صلاحیت سے انجام دیں اور نتیجہ اللہ تعالٰی پر چھوڑ دینا۔ مجھے یقین ہے جب آپ پر پروردگار پر توکل کرتے ہیں تو وہ کبھی آپ کو مایوس نہیں کرتا۔ آپ کامیاب ہو کر رہیں گے پروفیشنل لائف کی دوسری اننگ میں کامیاب ہو کر رہتے ہیں۔

آپ کو پتہ ہی نہیں آپ وننگ پوزیشن پر کھڑے ہیں۔ بس اس کے لیے ریٹائرمنٹ کا لحاف اتار کر گراونڈ میں آنے کی ضرورت ہے۔ جب تک سانس تب تک کام۔ یاد رکھیں ہر کام کا مطمح نظر پیسہ نہیں ہوتا۔ مصروفیت اور مقصدیت سب سے اہم ہوتی ہے۔ کبھی کبھی پیسہ بائی پروڈکٹ میں آتا ہے جیسے آپ پانی کے لیے کنواں کھودتے ہیں تو منوں مٹی آپ کو فری میں مل جاتی ہے۔

ممکن ہے کچھ باتیں صراحت سے نہ کر پایا ہوں اور مزید وضاحتیں درکار ہوں لیکن اتنا مجھے یقین ہے کہ جن کو میری بات سمجھنا ہوگی وہ سمجھ گئے ہوں گے۔

About Azhar Hussain Azmi

Azhar Azmi is associated with advertising by profession. Azhar Azmi, who has a vast experience, has produced several popular TV campaigns. In the 90s, he used to write in newspapers on politics and other topics. Dramas for TV channels have also been written by him. For the last 7 years, he is very popular among readers for his humorous articles on social media. In this regard, Azhar Azmi's first book is being published soon.

Check Also

Zindagi Mein Maqsadiyat

By Syed Mehdi Bukhari