1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Azmi/
  4. Kya Hum Radd e Amal Ki Qaum Hain

Kya Hum Radd e Amal Ki Qaum Hain

کیا ہم ردِ عمل کی قوم ہیں

ایڈورٹائزنگ کی دنیا بھی عجیب ہے۔ آپ کو ملک و بیرون ملک سے بھانت بھانت کے لوگ ملتے ہیں۔ ان کے سوال آپ کو نئی راہ دکھاتے ہیں، متفکر کر دیتے ہیں۔ جن باتوں پر آپ کا دھیان بھی نہیں جاتا ہے وہ ان سے متعلق سوال پوچھ کر کچھ لمحوں کے لئے آپ کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ سوالوں کا جواب بن پڑتا ہے۔ کچھ کا آپ جواب تو دے دیتے ہیں۔ سوال کنندہ کو ممکن ہے مطمئن بھی کر دیتے ہوں مگر کہیں بے اطمینانی چھپی رہتی ہے۔

یہ 90 کی دھائی کا نصف تھا۔ ایک بڑے مشہور ملٹی نیشنل سگریٹ برانڈ کی کمرشل کی شوٹنگ کے لئے ڈائریکٹر ہنری کو آسٹریلیا سے اور کیمرہ مین اور اس سے متعلقہ افراد کو بنکاک سے بلایا گیا۔ ہنری مکمل طور پر ایک پروفیشنل ڈائریکٹر تھا۔ ٹی وی کمرشل کے اسکیچ کردہ فریمز اس کو پہلے پہنچا دیئے گئے تھے۔ صبح ہنری اور کیمرہ مین سے میٹنگ ہوئی۔ شام کو میوزک ڈائریکٹر کے پاس گئے تو ہمیں پہلی بار پتہ چلا کہ ٹی وی کمرشل کی پسِ پردہ موسیقی کے لئے گراف کے ذریعے بریف دی جاتی ہے جس میں ایک ایک سیکنڈ کا حساب ہوتا ہے۔ اس سے پہلے ہم لوگ میوزک ڈائریکٹر کو لوکل طریقے سے منہ زبانی بتا دیا کرتے تھے اور کام چل جاتا تھا۔

شوٹنگ پہلے کراچی اور پھر لاہور میں تھی۔ کراچی کے ایک مشہور کالج جو کہ قیام پاکستان سے قبل تعمیر ہوا تھا اس کے مین گیٹ کے سامنے پہلا سین تھا تاکہ پس منظر میں کالج کی پُر شکوہ عمارت نظر آ سکے۔ پہلے ہی دن احساس ہوگیا کہ 45 سے 50 سال کی عمر کا حامل ہنری تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہونے کے ساتھ ایک محنتی ڈائریکٹر تھا۔ دوسری بات یہ کہ اسے کوئی بات پوچھنے میں کسی قسم کا عار نہیں تھا۔ ہنری کم گو ضرور تھا لیکن مشاہدے اور تجزیہ کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا۔ دراز قد ہونے کے ساتھ مضبوط جسامت رکھتا تھا۔

ٹی وی کمرشل تین حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے حصّہ میں باپ اپنے بیٹے کے اچھے نمبروں سے پاس ہونے پر بہت خوش ہے۔ شوٹنگ فریمز کے مطابق جاری تھی لیکن وہ مطمئن نہیں ہو رہا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا کہ آپ کے کلچر میں باپ بیٹے سے اپنی انتہائی خوشی کا اظہار کس طرح کرتا ہے؟ آیا پیٹھ تھپتھپاتا ہے، کاندھے پر ہاتھ رکھتا ہے یا سینے سے لگا لیتا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں ایسا کچھ ہی کرتا ہے۔ بولا کہ یہ سب کچھ تو ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے۔ کوئی ایسا Gesture بتائو جو تمھارے کلچر میں ںبے ساختگی کے ساتھ ہوتا ہو؟ اب اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔

کچھ دیر بعد میرے ذہن میں وہ خیال آ ہی گیا۔ میں نے اس سے کہا کہ محبت کے اظہار کا انتہائی طریقہ یہ ہے کہ باپ وارفتگی کے ساتھ بیٹے کا ماتھا چوم لیتا ہے۔ یہ آئیڈیا اس کو اچھا لگا۔ کہنے لگا کہ تم مجھے پرفارم کرکے بتاو۔ میں نے یہ عمل کرکے دکھایا۔ اس کو بہت پسند آیا اور بولا کہ ہم یہ بھی شوٹ کریں گے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ لکیر کا فقیر نہ تھا۔ سوچتا تھا کہ بہتر سے بہتر کیا ہوسکتا ہے۔ ہم نے جس Company کو اس ٹی وی کمرشل کے تمام تر انتظامات کے لئے Hire کیا تھا۔ ان کا بھی یہ پہلا بڑا کام تھا۔ تجربے کی کمی تھی اور کچھ مزاجاّ آنا کانی کی عادت تھی۔ شوٹنگ کے دوران شوٹنگ سے متعلق چیزیں، ڈائریکٹر کی شوٹنگ کے وقت کی ضروریات غرض کمپنی کو پوری شوٹنگ میں ایک پیر پر کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ کوئی بھی ایمرجنسی آ سکتی ہے۔ نج سے تج سب کچھ انہیں کرنا ہوتا ہے جس کا انہیں بھاری معاوضہ دیا جاتا ہے۔

کراچی کے بعد ہم لاہور ریس کلب اور پھر کینو کے باغات میں شوٹنگ کے لئے لاہور سے قریب ایک بڑے باغ میں شوٹنگ کرتے رہے۔ انتظامات سنبھالنے والی کمپنی کی جانب سے ہمیں ایک ہی روش کا سامنا رہا۔ ہم اکثر اوقات غصے میں اجاتے اور انہیں خوب ہی برا بھلا کہتے مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس سستی اور کاہلی کا اصل وصول کنندہ ہنری تھا مگر وہ خاموش رہتا جس پر ہم اس کے صبر کی داد دیتے اور کبھی اس صبر کو پرفیشنل ازم کے کھاتے میں ڈال دیتے۔ ہنری اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی تھا۔ لاہور میں شوٹنگ کے آخری دن اس نے یہ ثابت بھی کردیا اور ہم سب کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیئے۔ سب ہوٹل آ گئے لیکن ہنری نہ آیا۔ ہم سب پریشان کہ ہنری کہاں چلا گیا۔ کافی دیر بعد ہنری آیا تو اس کے ہاتھ میں لکڑی کے مختلف چھوٹے بڑے ٹکڑے تھے۔ ہم حیران کہ یہ کیا اٹھا لایا جاتا۔ پوچھا تو بتایا کہ وہ فری لانس ڈائریکٹر ہے۔ سال میں ہر وقت تو کام ہوتا نہیں اس لئے اپنے فارغ وقت میں وہ فرنیچر ڈیزائن کرکے خود ہی بناتا اور فروخت کرتا ہے۔ اس لئے وہ ڈرائیور کو لے کر اکیلا ہی لاہور کی ٹمبر مارکیٹ گیا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ کچھ لکڑی پاکستان سے خرید بھی لے۔

ہم واپس کراچی آ گئے۔ کراچی میں ایک اسپورٹس کمپلیکس میں شوٹنگ کا آخری دن تھا۔ اس نے انتظامات سنبھالنے والی کمپنی سے کسی آدمی سے کچھ لانے کو کہا۔ وہ نہ لایا۔ شوٹنگ رکی رہی۔ اب ہنری کا صبر جواب دے گیا اور اس نے انگریزی کی بہت عام سے گالی بک ہی دی۔

اس کے بعد بہت دیر تک معذرت کرتا رہا۔ اب اسے کیا پتہ کہ شوٹنگ کے دوران کس طرح بے حساب مغلظات بکی گئی ہیں۔ اخلاقیات کے دریا بہائے گئے ہیں۔ زبانوں کو کس کس طرح پوتر کیا گیا ہے۔

شوٹنگ ختم ہوئی تو سب Relax کر گئے۔ شام ہوچلی تھی۔ گرم گرم چائے تھکن اتارنے میں مصروف تھی کہ ہنری نے ایک سوال داغ دیا:

آپ لوگ کسی کام کو خود سے intiate کیوں نہیں کرتے؟

میں نے کہا: کیا مطلب؟

کہنے لگا کہ:

پوری شوٹ میں جب تک کہا نہ گیا کسی نے کوئی کام نہیں کیا گیا حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ کب کس کام کی ضرورت ہے۔ جب بھی کوئی چیز مانگی گئی۔ پہلے تو کوئی آیا ہی نہیں اور جب کوئی ایک آیا تو اس کی دیکھا دیکھی دس لوگ دوڑ پڑے۔

میں خاموش رہا کیونکہ پوری شوٹ میں، میں خود اس کا گواہ تھا۔ ہنری نے کسی دانشور کی طرح میرے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:

آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں ایسی قوموں کو ردِ عمل کی قومیں کہا جاتا ہے۔ ایسی قومیں کبھی پہل نہیں کرتی ہیں۔ جو کچھ بھی کرتی ہیں کسی دوسرے کے عمل کے ردِ عمل میں کرتی ہیں۔ اس لئے ان کی ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے یا پھر ہوتی ہی نہیں۔ تشکیل سے تعمیر تک قوموں کا یہی رویہ مزاج بن جاتا ہے۔ داخلی اور بیرونی محاذ پر یہی سوچ کار فرما رہتی ہے۔ عمل سے ہر رد عمل کا جڑنا ترقی کی ضد ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں جو کچھ ہے وہ دوسروں کے عمل کی مرہون منت ہے۔

میں نے اپنے طور پر وہ تمام دلائل دیئے جو اس بات کو ثابت کرتے کہ ہم ردِ عمل کی قوم نہیں ہیں۔ ممکن ہے ہنری مطمئن ہوگیا ہو لیکن میں نہیں۔ ماضی کے جھروکے میں جھانکوں تو لگتا ہے کہ اس نے صحیح کہا ہے لیکن پھر پاکستانی دل کہتا ہے کہ کسی بہکاوے میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں۔ تم ایک بے مثال، باکمال قوم کے فرد ہو۔ مطمئن ہونے کی کوشش تو کرتا ہوں لیکن جب ملک کی حالتِ زار دیکھتا ہوں تو پھر ہنری کا سوال میرے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس کوئی واضح جواب ہو تو بتائے۔

Check Also

Khubsurat Taluq

By Saira Kanwal