1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asad Ur Rehman/
  4. Feminism Aur Hamari Jameaat

Feminism Aur Hamari Jameaat

فیمن ازم اور ہماری جامعات‎

برصغیری سماج میں کسی بھی قسم کا ازم ترقی پسند خول میں چھپے شدت پسند رویے کا دوسرا نام ہے۔ کیونکہ اس سماج کی بناوٹ اور تشکیل میں شدت پسندی کی گُھٹی شامل ہے۔ اس نتیجہ میں کوئی بھی ذہین و فطین شخص واقع ہو جائے، ایک نظریہ/عقیدہ کو لے کر دیوانگی کی حد تک شدت پسند پایا جائے گا۔

یہ نظریہ سیاسی، سماجی، دینی یا معاشی کسی بھی شعبہ ہائے زندگی کے متعلق ہو سکتا ہے۔ فیمن ازم بھی جذباتیات اور بغاوت کی آمیزش سے بھرپور ایک شدت پسند نظریہ ہے۔ جن کے سرخیل برصغیری پس منظر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اپنے نظریات مغرب یا غیر مشرقی انداز سے سب پر تھوپنے پر بضد ہیں۔

تقسیمِ ہند سے قبل خواہ آزادی تحریک کے ایام ہوں یا ریاستوں پر حکمرانی کرنے والی بیگمات، ان کا عورتوں کے حقوق کے لیے کیا جانے والا کام کبھی بھی دیسی ساختہ فیمن ازم کے علمبرداروں کا ہدف نہیں رہا۔ جس کے باعث پدر سری سماج میں فیمن ازم کو ایک نظریے سے ہٹ کر بغاوت کا نام دیا جاتا ہے۔

سوال اٹھانا جو بالعموم غلام ذہنیت سماج اور بالخصوص برصغیری معاشرے میں گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں کسی بھی مذہبی و سماجی اقلیت کا اپنے حقوق کو لے کر سوال اٹھانا اور مقتدرہ پر تنقید کرنا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ دہائیوں پر محیط سماجی ارتقاء جس کے باعث عورتوں کی جامعات تک رسائی کچھ حد تک آسان ہوئی تھی، اسکو فیمن ازم کی آڑ میں ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔

کسی بھی نظریے کو رد کرنے کے دو بنیادی طریقے ہیں۔

اول تو اس نظریے کی اساس کا سرے سے انکار کر دیا جائے۔ اسکو کسی بیرونی سازش اور سماجی زہر سے تشبیہ دے دی جائے، تاکہ سماج کا کم علم، کم عقل اور متوسط طبقہ اس نظریے کو اپنانے سے گریز کرے۔

دوم اس نظریے کی اساس کا بغور مطالعہ کیا جائے، اسکے محرکات کو منطقی انداز سے پرکھا جائے اور استدلال کی مدد سے اسکے متوازی قابلِ عمل نظریہ پیش کیا جائے۔

چند روز قبل سماجی میڈیائی دیوار پر ایک صاحبِ تعلیم شخص کا اپنی رسمی تعلیم کے حصول کا شوق رکھنے والی زوجہ کی پابندی کو، جامعات کے نصاب اور فیمن ازم کے گٹھ جوڑ سے جائز قرار دینے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔ نہ صرف انکو اپنی بیگم کی رسمی تعلیم محدود کرنے پر فخر ہے، بلکہ ان جامعات میں پڑھنے والی باقی ماندہ عورتوں کی مستقبل کی فکر لاحق ہو چکی ہے۔

فیمن ازم اور مخالفین دونوں جانب کے لٹھ بردار اسی شدت پسندی کا مظہر ہیں جو کہ اس سماج کی بنیادوں میں سرایت کر چکی ہے۔ دیسی فیمن ازم کے سرخیل بھی مغربی ساختہ فیمن ازم کو ہی لاگو کرنے پر درپے ہیں۔ جبکہ مخالفین اس بیرونی سازش کے خلاف ہمہ وقت برسرِ پیکار رہ کر، قلمی مجاہد کے مرتبے پر فائز رہنا چاہتے ہیں۔

کسی بھی عورت کی رسمی تعلیم میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے فیمن ازم (بیرونی ساختہ) کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ فیمن ازم کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات اور مسائل کا قابلِ عمل حل تجویز کرنے سے ہی اس نظریے کا تدارک ممکن ہے۔ فاصلاتی تعلیم اور کتابوں کی مدد سے، اگر انسان کی ذہنی و کردار کی ترقی ممکن ہوتی تو دنیا میں جامعات کا وجود ناپید ہو جاتا۔

انسان اپنی سماجی ساخت میں ایک جانور ہے، جس کو سماج سے تعلق، رابطہ اور مشاہدات سے سیکھ کر زندگی گزارنے کا ہی فن آتا ہے۔ سماج سے الگ تھلگ رکھ کر، انسان سماجی مسائل سے نبردآزما نہیں ہو سکتا۔ نتیجتاً ایسے انسان کا سماج، قوم، ریاست حتی کہ اپنے خاندانی امور میں شراکت داری خطرناک حد تک منفیت کا شکار ہو جاتی ہے۔

کتابیں خواہ و نصابی ہوں یا غیر نصابی انسان کے شعور کو منزل کی جانب ایک سمت عطا کرتی ہیں۔ مگر اس منزل کی جانب سفر میں کن عملی مسائل کا اطلاق ہوگا اور کا حل کیسے ممکن ہے یہ انسان کی مشاہداتی حس کے ذریعے ممکن ہے۔ کتابوں کی مدد سے انسان کو ایک مفید و مثبت سماج سیوک بنانا دیوانے کا خواب ہے۔

جامعات بھی سماج کی مانند ہمہ وقت ارتقائی مراحل کا شکار رہتی ہیں۔ جامعات میں مردوں کی جانب سے عورتوں کے استحصال اور فیمن ازم (بیرونی ساختہ) کے پرچار سے لاحق خطرات سے نپٹنے کے لیے، قابلِ حل تجاویز درکار ہیں۔ رسمی تعلیمی سفر روکنا تو سب سے آسان اور جان چھڑوانے جیسا حل ہے۔

ہماری سرکاری جامعات جہاں طلباء کی اکثریت متوسط گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے، اسکے ساتھ ساتھ اساتذہ کی کثیر تعداد بھی خاندانی پسِ منظر میں کم و بیش ایسے ہی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیہاتی مزاج و پس منظر رکھنے والے طلباء (مرد و عورت)، جب شہری رنگ میں رنگے اساتذہ کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتے ہیں تو تب جا کر انہیں اپنے دیہی طریقہ تدریس کی خامیوں کا ادراک ہوتا ہے۔

نتیجتاً طلباء میں خاموشی یا بغاوت دو رویوں کا احیاء ہوتا ہے۔ یہی باغی طلباء سماجی و روایتی اقدار مخالف تحاریک کا حصہ بن کر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ چکاتے ہیں۔ استحصال پر خاموش رہنے والی قبیل اپنے دیہاتوں میں واپس لوٹ جاتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کو جامعات کے شر سے محفوظ کرنے کی تگ و دو میں مصروف جاتی ہے۔

خاموشی یا بغاوت دونوں رویے، جامعات میں دی جانے والی رسمی تعلیم کے طریقہ تدریس یا نصابی تبدیلی میں کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ جس کے باعث ہمارا طالبعلم، سماج کی مانند اپنے تعلیمی نظام میں موجود مسائل کے گرداب میں پھنس چکا ہے۔ ایک اذیت ناک گھن چکر ہے جو دہائیوں سے گھوم رہا ہے۔ اس گھن چکر کا خاتمہ بھی انہی ہاتھوں سے ممکن ہے جو اس اذیت ناک مراحل سے گزر کر سماج میں مثبت تبدیلی کے خواہاں ہیں۔

سیدی احمر نعمان نے اپنے شعر میں اس تمام قضیے کو سمیٹ کر رکھ دیا۔

اک شور سے چونکتے خوابِ عدم سے آنکھ کھلی
جاگے اور پھر سو دیے، شبِ فتنہ جو باقی دکھی

Check Also

Heera Mandi

By Mansoor Nadeem