1.  Home
  2. Blog
  3. Arif Anis Malik
  4. Yehi Din Hain Mohabbat Ke (2)

Yehi Din Hain Mohabbat Ke (2)

یہی دن ہیں محبت کے(2)

میں اس کے "طریقہ واردات" سے اچھی طرح باخبر ہوں۔ میں وقتی طور پر اس کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بے ترتیب سوچوں پر زین کسنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اب وہ میرے گھٹنے پر اپنا سر رکھ دیتی ہے۔ یہ اس کا آزمودہ حربہ ہے۔ جب میں اسے توجہ نہ دوں تو وہ کوئی کنگھی، برش یا ٹوتھ برش اُٹھا کر میرے گھٹنوں پر سر رگڑنے لگتی ہے۔ مجھے مجبوراََ اپنا کام روک کر اس کے بالوں میں کنگھی کرنی پڑتی ہے۔ پھر وہ بھاگ کر جوتے اور جرابیں اُٹھالاتی ہے۔۔ بچہ گاڑی۔۔ پارک۔۔ لیکن نہیں، آج ایسا نہیں ہوگا۔

مجھے کانفرنس میں لازماََ مضمون پڑھنا ہے اور میرے پاس یہی دوتین گھنٹے فارغ ہیں۔ میں جی کڑا کرکے بیٹھا رہتا ہوں، وہ میرے گھٹنے سے سر رگڑتی رہتی ہے اور پھر کوشش ترک کر دیتی ہے۔ میں اسے جاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر جرابوں اور جوتوں سے نبردآزما ہو جاتی ہے۔ جھنجھلاہٹ کے آثار اس کے چہرے سے نمایاں ہیں۔ اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے ہیں اور نتھنے تیزی سے پھول اور سکڑ رہے ہیں۔ وہ الٹی سیدھی جرابیں پہننے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالتی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوتی۔ اسی دوران وہ میری طرف آنکھیں اٹھاتی ہے۔ ہماری نظریں ملتی ہیں۔ میں جلدی سے نظریں چرا کر پھر اپنے کام کی طرف متوجہ ہو جاتا ہوں۔

میں چند ثانیے تک کاغذ کو گھورتا رہتا ہوں اور پھر ایک اور کتاب کھول کر ریفرنس دیکھتا ہوں۔ میری نظریں پھر مثال پر جم جاتی ہیں۔ وہ آرام کرسی پر پڑی ہوئی کارٹونوں کی کتابیں اور میگزین کھینچ رہی ہے۔ وہ ایک ایک کرکے چار پانچ میگزین اُٹھا لیتی ہے۔

کچھ دیر بعد وہ دوبارہ میرے کوٹ کے بٹن کھینچتی ہے۔ مثال، میں گرجتا ہوں۔ "خدا کے لیے میری جان چھوڑ دو اور مجھے کوئی ڈھنگ کا کام کرنے دو۔ اپنی اس لائبریری کو لے کر چلی جاؤ یہاں سے"۔ میری چنگھاڑ اثر کر دکھاتی ہے۔ وہ ڈھیلے ڈھالے قدموں سے واپس چلی جاتی ہے، جب بھی میں اسے ڈانٹتا ہوں وہ دوبارہ مجھے تنگ کرنے سے گریز کرتی ہے۔ نہ میرے گھٹنوں پر سر رکھتی ہے، نہ میری کمر پر دستک دیتی ہے اور نہ ہی اپنے مارکر سے مجھے لکھنے میں مدد دیتی ہے۔

اب میں ایک دو پیرا گراف مزید گھسیٹتا ہوں۔ مضمون کے دو تین صفحے لکھے جا چکے ہیں لیکن ابھی ڈھیر سارا کام باقی ہے۔ میں لکھتے لکھتے پھر کنکھیوں سے مثال کی طرف دیکھتا ہوں۔ وہ صوفے سے اپنی پشت لگائے چپ چاپ کھڑی ہے۔ اس کے چہرے پر اداسی نے خیمہ لگایا ہوا ہے۔ وہ اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں منہ میں ڈالے انہیں چبا رہی ہے۔ اس کی پلکوں پر آنسو لرز رہے ہیں۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں سے دوموٹے موٹے قطرے ٹپکتے ہیں اور اس کے گالوں پر ہل چلاتے ہوئے فراک میں کہیں غائب ہو جاتے ہیں۔ ہامون اس کے بائیں ہاتھ میں موجود ہے۔ وہ دکھی چہرے والے ہامون کو اوپر اُٹھاتی ہے اور اس کی بچ جانے والی گال پر ہونٹ رگڑتے ہوئے، اس کے واحد ہاتھ کو پکڑ کر اپنے گال پر تھپکی دیتی ہے۔ میں ایک طویل سانس لے کر اپنی کمر کو کرسی کے ساتھ ٹکاتے ہوئے چھت کی طرف دیکھتا ہوں۔

مجھے لگتا ہے کہ اوپر اللہ میاں بڑی توجہ سے یہ سارا کھیل دیکھ رہے ہیں۔ ایک ننھی منی لڑکی گڈے کو اُٹھائے رو رہی ہے کیونکہ اس کے باپ کے پاس اس کے لیے وقت نہیں ہے۔ بھلا کسی انسان کے لیے کسی دوسرے کی توجہ اتنی اہم ہو سکتی ہے؟ میں تخیل میں وہ لمحہ سوچتا ہوں جب میں اس معصوم روح کو قرآن کے سائے تلے اپنے گھر سے رخصت کر رہا ہوں گا۔ جب میری بچی بڑی ہو جائے گی تو چار چپھیرے کی ڈگڈگیاں اسے گھیر لیں گی۔ میں اس کے لیے اتنا اہم نہیں رہوں گا کہ وہ پورا دن مجھ سے کہانی سننے کے لیے میرا انتظار کرے۔ وہ اپنے بکھیڑوں میں اتنی مصروف ہو جائے گی کہ اسے میرے آنے اور جانے کا پتہ ہی نہیں چلے گا۔ کٹا پھٹا، ہامون اس کی زندگی سے غائب ہو جائے گا اور وہ ایک بااعتماد، حوصلہ مند اور پر عزم خاتون کا روپ دھار لے گی۔ اس وقت شاید مجھے اس کی توجہ کی ضرورت ہوگی۔ لیکن آج۔۔ اس کی زندگی کی سب سے اہم ترین شخصیت میں ہوں۔ میری توجہ اس کے لیے دنیا جہاں کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے۔

مجھے دل ہی دل میں ہامون گڈے پر سخت غصہ آیا۔ وہ میری بیٹی کو دلاسہ دے رہا ہے حالانکہ یہ میرا حق ہے۔ مجھے سوچ آئی ایک باپ اور بیٹی کے خالص ترین پیار کے دن تو یہی ہیں۔ بعد میں تو سب کو اپنی اپنی سوجھتی ہے۔۔ ممکن ہے دس، بیس، تیس سال کے بعد بیٹی کو باپ کے ساتھ پارک میں جانا، جھولا جھولنا اور پیپل کے پتوں کو پکڑنا ہی یاد رہ جائے، باقی سب کچھ بھول جائے لیکن اگر اس کا باپ اس لمحے اسے نظرانداز کرکے مقالہ یا مضمون لکھتا رہا، تو اس کے ہاتھ کیا آئے گا۔ زیادہ سے زیادہ سو دو سو لوگ جمائیاں لیتے ہوئے اس کی بور گفتگو سنیں گے، سرگوشیاں کریں گے کہ کیا گھٹیا چیز لکھی ہے اور کانفرنس ختم ہونے کا انتظار کریں گے تاکہ کیک اور چائے کا صفایا کر سکیں۔

"دئیر از اے سیزن فار ایوری تھنگ۔ نماز کی طرح محبت کا بھی ایک وقت ہے۔ جب سب کچھ چھوڑ کر صرف محبت کرنی چاہیے۔ محبت کو اس کے جائز لمحے اور جائز وقت پر لوٹانا ہی اس کا حق ہے۔ محبت کا اصل لمحہ بیت جائے تو جذبات کھنڈر ہو جاتے ہیں۔ کھنڈروں میں کبھی بھی چاہت کے پھول نہیں اُگتے" میں سوچتا رہا۔ "مثال! مجھے ابھی ابھی خیال آیا ہے کہ ہمیں پارک چلنا چاہئے۔ میرا خیال ہے کہ تم جھولا جھولتے ہوئے بہت اچھی لگو گی۔ ہم پیپل کے پتے اور تتلیاں بھی پکڑیں گے۔ تم گیند بھی لے لو اور اپنا سرخ سویٹر بھی اُٹھالو کیونکہ آج تیز ہوا چل رہی ہے" میں نے کرسی پرے دھکیلتے اور چٹکی بجاتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔ پارک کا لفظ سنتے ہی مثال منہ سے انگلیاں نکال لیتی ہے۔ اس کا چہرہ پھول کی طرح کھل اُٹھتا ہے اور وہ بھاگ کر جرابیں اور جوتے اُٹھالاتی ہے۔

فرانسیسی ماہر نفسیات پیاجے - یار تجھے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ میں پارک جاؤں گا۔ مثال کے ساتھ کھیلوں گا اور پھر واپس آکر بچوں کے بارے میں تمہاری تحقیق پر لکھوں گا۔ سوری پیاجے، مجھے یقین ہے تم برا نہیں مناؤ گے۔ تمہی نے تو کہا تھا کہ

اگر مجھے دوبارہ زندگی دی گئی تو میں اسی طرح سے زندگی گزار دوں گا۔ ہاں البتہ اپنی آنکھیں پہلے سے زیادہ کھلی رکھوں گا"۔

دوبارہ زندگی ملے تو تب دیکھیں گے، آنکھیں تو اب بھی پہلے سے زیادہ کھولی جا سکتی ہیں۔

محبت اپنا خراج مانگتی ہے۔ محبت کو پوری توجہ کے ساتھ اس کا خراج اسی وقت ادا ہونا چاہیے کہ محبت کی تو ویسے بھی قضا نہیں ہوتی۔

یہی دن ہیں محبت کے۔

یہی موسم ہے ملنے کا

یہ دن گزرے تو پھر تیرا۔

سراپا کون دیکھے گا!

عارف انیس

جیو جانی سے ایک اقتباس!

(یہ کہانی مدتوں پہلے، ریڈرز ڈائجسٹ کے ایک فیچر سے متاثر ہو کر لکھی تھی۔ تب موبائل فون بھی نہ ہونے کے برابر تھے، مجھے یاد ہے کہ جب میں نے لکھتے لکھتے ختم کیا تھا تو کاغذ میرے آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے۔ قدرے طویل ہے، لیکن محبت کرنے والوں کے اندر کچھ سلگا دے گی۔ بعد میں عملی زندگی شروع ہوئی تو کچھ لکھا تھا، زیادہ سمجھ میں آنا شروع ہوگیا، گو کہ اب بھی روز مسلسل سیکھتا رہتا ہوں کہ محبت کی قضا نہیں ہوتی)

Check Also

Doctor Asim Allah Bakhsh

By Amir Khakwani