Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Akbar Natiq
  4. Chand Baatein Apne Publishers Ke Baare Mein

Chand Baatein Apne Publishers Ke Baare Mein

چند باتیں اپنے پبلشرز کے بارے میں

احباب پاکستان میں آج تک میرے پانچ پبلشرز رہے۔ پہلا " آج "رسالے کا مدیر اجمل کمال تھا جس نے میری پہلی دو شاعری کی کتابیں چھاپی تھیں"بے یقین بستیوں میں" اور "یاقوت کے ورق" اُس کے بعد اُس سے میرے حالات خراب ہو گئے۔ سبب یہ تھا کہ اُسے یہ زعم پیدا ہوگیا کہ مجھے شاعر اور افسانہ نگار بنانے میں اُس کے ادارے کی کرامتیں ہیں۔ جب کہ مجھے اپنے خدا اور اپنی تحریر پر بھروسا تھا۔ یہاں تک کہ 2011 کے بعد مَیں اجمل کمال کے رسالے میں کبھی نہیں چھپا اور نہ وہاں سے کتاب چھپی لیکن آپ سب جانتے ہیں اُس سے مجھے کتنا فرق پڑا اور جنھیں میرے بعد وہ مسلسل چھاپتا رہا وہ کتنے چیخوف بن سکے؟

پھر میرے افسانوں کی پہلی کتاب (قائم دین) آکسفورڈ پریس کراچی نے چھاپی۔ لوگوں نے سمجھا چونکہ وہاں میرا کوئی دوست تھا جس نے مجھے آکسفورڈ میں چھاپا لیکن بخدا مَیں وہاں کسی کو نہیں جانتا تھا۔ حتیٰ کہ مشرف علی فاروقی کو بھی نہیں، جو وہاں مدیر تھا۔ اُنھوں نے خود منتخب کی اور چھاپی۔ لیکن اُن کے مخصوص آوٹ لیٹ کی وجہ سے دو سال بعد ہی مَیں نے اُن سے رائٹ لے لیے اور آپ نے دیکھا کہ میری کتاب اور میری افسانوں کی مانگ میں کوئی فرق نہیں پڑا۔

پھر مَیں نے اپنا ناول نولکھی کوٹھی سانجھ پبلشر کو دے دیا اور امجد سلیم کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا۔ حتیٰ کہ چار سال تک اُنھوں نے میری تمام کتابیں چھاپیں۔ وہ خود بتا سکتے ہیں کہ اُن کے ہاں میری کتابوں کی پذیرائی کی کیا کیفیت تھی؟ وہ یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ کبھی مَیں نے اُن کے ساتھ تلخی کی ہو یا اُنھیں بلا وجہ مشکل میں ڈالا ہو یا اُن کے خلاف کوئی بات کی ہو؟ مجھے صرف اُن سے دو شکایتیں ہوئیں۔ ایک یہ کہ وہ کسی بھی جگہ کتابوں کا اسٹال نہیں لگاتے تھے اور کتاب ملک کے مختلف حصوں میں نہ پہنچنے کے مسائل تھے۔

دوسرا مسئلہ جو اُن سے پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ اُنھوں نے نولکھی کوٹھی کا آخری ایڈیشن نہایت بُرے کاغذ پر چھاپاتھا۔ جس کے سبب مَیں اُن سے مایوس ہوا۔ پھر تیسرا پبلشر عکس پبلی کیشن تھا۔ عکس کا پبلشر فہد تھا۔ اِس کے پاس مَیں آنا نہیں چاہتا تھا لیکن دو وجہ سے اِس کی طرف رجوع کیا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ مَیں کسی بھی ایسے پبلشر کو اپنی کتابیں دینا نہیں چاہتا تھا جسے خود جا کر کہنا پڑتا کہ وہ میری کتابیں چھاپے۔ اگر اُن دِنوں سنگِ میل مجھےآفر کرتا تو مَیں اُنھیں اپنی کتابوں کے حقوق دے دیتا مگر اُنھوں نے مجھے نہیں کہا۔

دوئم فہد نے دن رات مجھے مجبور کیا اور کچھ رائلٹی دی جو زیادہ نہیں تھی چنانچہ مَیں نے اُنھیں دو سال کے لیے کتابوں کے حقوق دے دیے۔ اُنھوں نے میری ایک کتاب چھاپی باقی کتابیں چھاپنے میں سستی سے کام لیتے رہے حتیٰ کہ نولکھی کوٹھی سمیت تمام کتابیں مارکیٹ سے آوٹ ہوگئیں۔ اُن کے ساتھ میرا دو سال کا معاہدہ تھا مگر ڈیڑھ سال تک اُنھوں نے کوئی کتاب نہیں چھاپی تو مَیں نے اُن سے کہا اب آپ سے تعلق ختم ہے۔

اُسی دوران جہلم بک کارنر نے مجھ سے رجوع کیا اور مَیں نے اپنی تمام کتابوں کے حقوق اُسے دے دیے اور اُنھوں نے نہایت عمدہ طریقے سے سب کتابیں چھاپ دیں۔ لیکن عکس والوں نے اُسی وقت میری تمام کتابیں چھاپ دیں اور اب تک چھاپ رہے ہیں اور مارکیٹ میں بیچ رہے ہیں، صرف قیمت اور ورق بدلتے ہیں، باقی نہ ایڈیشن نہ تاریخ، کچھ نہیں بدلتے۔ اُصولاً آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں؟ جس کی بابت مجھے اور میرے بپلشر بک کارنر جہلم کو شکوہ کناں ہونا چاہیے مگر اُلٹ میرے خلاف ہی پراپیگنڈہ چلا رکھا ہے کہ ناطق ہماری رائلٹی کھا گیا۔

خیر 2020 سے لے کر اب تک میری تمام کتابیں بک کارنر جہلم ہی چھاپ رہا ہے اور قانونی طور پر بھی میرا پبلشر وہی ہے۔

بک کارنر جہلم مالک دونوں بھائی گگن شاہد اور امر شاہد بلا شبہ پروفیشنل پبلشر ہیں۔ اُنھوں نے میرے ساتھ ہمیشہ محبت کا رویہ رکھا اور آپ اُن سے پوچھ سکتے ہیں کہ مَیں نے بھی کبھی اُنھیں مشکل میں نہیں ڈالا۔ ہاں میرے ساتھ جو کچھ عہدِ حاضر کے ادیب شاعر کرتے ہیں اور جواب میں جو کچھ مَیں کرتا ہوں اُس کا اُنھیں رنج سہنا پڑتا ہے۔ اِس کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوئی۔ پچھلے دِنوں کچھ لوگوں نے، جن میں ادبی اشرافیہ کے سرخیل موجود تھے، اُنھوں نے میری بک کارنر جہلم سے دوری اور اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن مَیں نے جذبات کو ایک طرف رکھ دیا اور ردِ عمل نہیں دیا، جسے گگن شاہد اور امر شاہد نے بھی محسوس کیا۔

اب معاملہ یہ ہے کہ اکثر حاسد اور گھٹیا ذہنیت کے افراد جن میں شاعر ادیب بھی شامل ہیں، اُن سے میری بابت تقاضا کرتے ہیں اور مسلسل اصرار کے ساتھ کرتے ہیں کہ وہ میری کتابیں نہ چھاپیں۔ اگر چھاپیں تو اُن کی مارکیٹ میں تعطل یا تساہل سے کام لیں تا کہ میری کتابیں عوام الناس یا قارئین تک نہ پہنچیں۔ جس کا دونوں بھائیوں نے تسلی بخش جواب یہ دیا ہے کہ وہ مسلسل میری کتابیں چھاپ بھی رہے ہیں اور مارکیٹنگ میں بھی جوش جذبے کا اضافہ کر دیا ہے۔ یہ اُن کی محبت ہے اور بلا شبہ بہت ہے۔

یہ اوپر جو کچھ مَیں نے لکھا ہے اِس کا مقصد صرف یہ ہے کہ بالفرض بک کارنر جہلم میری کتابیں نہ چھاپے تو کیا اُنھیں مجبور کرنے والے خود اچھا لکھنا شروع ہو جائیں گے؟ کیا وہ بک کارنر جہلم کو میری کتابوں کے متبادل اُسی قدرو قیمت کے اپنے ناول اور شاعری چھاپنے کو دیں گے؟ جنھیں کچرے کے عوض بھی کوئی نہ لے۔

بعض ناصبی لوگ بھی یہی تقاضا کرتے نظر آتے ہیں۔ تو کیا یہ ناصبی حضرات چاہتے ہیں کہ اُن کے وقت کے شمروں کے حق میں لکھے ہوئے قصیدے بک کارنر جہلم چھاپےجسے عوام ہاتھوں ہاتھ لے گی؟

ظالم یہ خیال نہیں کرتے کہ تخلیق اور ہُنر عطائے خداوندی ہے، لہذا ہُنر مند یا تخلیق کار سے حسد اور بغض گویا سیدھا خدا کے ساتھ دشمنی ہے۔ چناچہ اول تو گگن شاہد اور امر شاہد خود بہت لائق اور ذہین اور محبت کرنے والے ہیں۔ اُنھیں اپنے اچھے بُرے کی سب خبر ہے کیونکہ اُنھوں نے اپنے بپلشنگ ہاوس کو ایسے ہی ایک ایمپائر میں نہیں بدل دیا۔ لہذا میرے ساتھ اپنا رویہ بھائی چارے اور عزت و احترام ہی کا رکھیں گے۔

اگر ہزار میں سے ایک فیصد بھی اُن کی طرف سے فاصلہ پیدا ہوا تو اہلِ حسد یاد رکھیں، خدا میرے حرف و لفظ کو ہمیشہ سربلند رکھے گا کیونکہ وہ میرے دل کی حالت کو جانتا ہے۔ کوئی گمنام ترین پبلشر ردی کے کاغذ پر بھی مجھے چھاپے گا تو کتابوں کو ویسے ہی پذیرائی ملے گی جیسے مل رہی ہے۔ اور حاسدین چاہے مہنگے ترین آرٹ کاغذ پر چھپیں، اُنھیں اپنی کتابیں خود ہی تقسیم کرنا پڑیں گی۔ یہ پنج تن پاک کا مجھ پر کرم ہے۔ جو مرضی کر لو

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar